خود کشی خود کو ہلاک کرنایا جان بوجھ کر کسی مشکل سے تنگ آکر اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنے کا نام ہے۔اسلام میں خودکشی قطعاً حرام ہے۔اسلام امن و سلامتی والا مذہب ہے جو بنوع انسان سے ہر گھڑی صبر و تحمل،اعتدال ا ور توازن پر قائم رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ زندگی اللہ رب العزت کی عطاکردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم اساسی اہمیت کی حامل نعمت ہے۔ انسان کا جسم اور زندگی دونوں اللہ تبارک تعالیٰ کی عطاکردہ امانتیں ہیں جس میں ذراسی بھی خیانت دنیا اور آخرت کی تباہی کا باعث ہو سکتی ہے۔ اسلام جسم و جان کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے معاشرے کے تمام افراد کو اس امر کا پابندکرتا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کو یقینی بنائے۔انسانی جان و مال کی حرمت اللہ رب العزت کے پاس کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔نبی کریم ﷺ نے دوران طواف کعبے کومخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’اے کعبے! تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے،تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے،(تیری ان تمام عظمتوں کے باوجود )قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے مومن کی جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے۔‘‘(ابن ماجہ)اسلام خودکشی تو درکنارمایوسی جو خودکشی کی جانب بڑھنے والا پہلا قدم ہے اسے بھی حرام قرار دیتا ہے۔اسلام خودکشی کی کسی توجیہ کو قبول نہیں کرتاحتیٰ کہ شدید بیماری اور معذوری کی حالت میں بھی نہیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے کئی برس بیماری کی شدت میں گذارے لیکن صبر کا دامن اس یقین کے ساتھ نہیں جانے دیا کہ جس خدا نے بیمار کیا ہے وہی شفا یاب کرے گا اور اللہ نے بالاخر آپ کو شفانصیب فرمائی۔حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص جو غزوے میں بڑی بہادری سے لڑرہا تھا لیکن جب زخمی ہوا تو اُس نے خودکشی کرلی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’میرے بندے نے اپنے اوپر موت میں جلدی کی سو میں نے اُس کے لیے جنت کے دروازے بند کر دیئے‘‘ یعنی معلوم ہوا کہ نہ تو اُس کی بہادری کسی کام آئی اور نہ اس کی شجاعت ۔ خودکشی نے اس کے سارے اعمال ضائع کردیئے یہاں تک کہ اُس کا جہاد بھی ضائع ہوگیا۔ حدیث نبوی ﷺ کی روسے جس نے خود کو جس طرح ہلاک کیا وہ دوزخ میں اُسی طریقے سے مارا جائے گا۔ نبی اکرمﷺکا ارشاد مبارک ہے’’جس نے خود کو لوہے کے ٹکڑے سے مارا اُسے دوزخ میں اسی لوہے کے ٹکڑے سے مارا جائے گا‘‘اسلام اپنی تعلیمات ،افکارا ور نظریات(teachings and idealogy) کے اعتبار سے امن و سلامتی، خیر و عافیت اور حفظ و امان کا دین ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صبر کو ذہنی تناؤ کے حل کے طور پر پیش کیا ہے۔ قرآن فرماتا ہے ’’اور ہم ضرور تمھیں خوف وخطر،فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے آزمائیں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں۔اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔انہیں خوشخبری دے دو۔ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایا ت ہوں گی۔(البقرہ) اس آیت میں رجوع الی اللہ اور صبر کو خودکشی کے سدباب کے طور پر پیش کیاگیا ہے۔ خودکشی کے متبادل کے طور پر صبر کی بہترین مثال ہمیں حضرت ایوب علیہ السلام کے اسوہ مبارکہ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ موجودہ دور میں خودکشی کے اسباب و علل کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے انسداد اور تدارک کے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ مضطرب انسانیت کا مداوا ہو۔ زیر نظر مضمون میں انہی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
خودکشی روز افزوں پھیلتی ایک عالمی وباء ؛۔
آج دنیا میں انسانوں کی موت کادوسرا بڑا ذریعہ خود کشی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO)کے مطابق خودکشی اب ایک عالمی وباء کی صورت اختیار کرچکی ہے جس پر قابو پانا فی الحال ممکن دکھائی نہیں دیتا۔اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں سالانہ دس لاکھ لوگ خود کشی کے نتیجے میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں ہر تین سکینڈ میں ایک فرد خود کشی کی کوشش کرتا ہے۔ خودکشی کی کوشش کرنے والوں میں ہر بیس میں سے ایک شخص اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جبکہ باقی انیس افراد ناکام رہتے ہیں۔ اس تناسب سے ہر چالیس سکینڈ میں ایک فرد خود کشی کے سبب موت کا شکار ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں روزانہ تین ہزار افراد خودکشی کے نتیجے میں لقمہ اجل ہورہے ہیں۔ ہمارے ملک میں آئے دن خود کشی کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے اور یہ رجحان ہر عمر کے طبقے میں دیکھا گیا ہے۔اعداد و شمار کی روشنی میں ہمارے ملک میں ہرایک لاکھ افراد میں سے 36افراد خودکشی کر لیتے ہیں۔ خود کشی سے بچاؤ کی عالمی تنظیم کے صدر برائین مشارا کے بموجب دنیا میں جنگوں، دہشت گردی اور تشدد کے واقعات کے باعث جتنی اموات واقع نہیں ہوئی ہیں اتنی خودکشی کے نتیجے میں دیکھنے میں آئی ہیں۔خودکشی کے ذریعے اپنی زندگی کو ختم کرنے کا رجحان پندرہ سے چوبیس سال کی عمریعنی نوجوان نسل کے افراد میں زیادہ دیکھنے میں آیاہے۔ 2020 تک دنیا میں خودکشی کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد پندرہ لاکھ سے بھی تجاوز کر جائے گی۔دنیا میں سب سے زیادہ خودکشیوں کی شرح ساؤتھ کوریا میں ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہیں۔ اسلامی ممالک میں خودکشی کی شرح دنیا کے باقی ممالک سے قدرے کم پائی گئی ہے۔یہ اسلام کی برکت ہے۔عالمی سطح پر خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر اقوام متحدہ نے 1990 میں خود کشی سے بچاؤ کی بین الاقوامی پالیسی کو منظور دی اور 10ستمبر 2003 کو پہلی مرتبہ خود کشی سے بچاؤ کا عالمی دن قرار دیا گیا۔ اس کے بعد سے اس دن کودنیا بھر میں لوگ اپنے گھروں کی کھڑکیوں کے پاس ایک عدد موم بتی جلا کر خود کشی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کو یا د کرنے کے علاوہ خودسوزی کرتے ہوئے بچنے والوں افراد کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔
نوجوانوں میں فروغ پاتا خودکشی کا تشویشناک رجحان؛۔
نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔طلبہ اور نوجوانوں میں منفی خیالات ا و رجحانات کا نمو پانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یقیناًہمارے تعلیمی اور سماجی نظام میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔کوئی ایسی بات یا فکر ہے جو ہماری نوجوان نسل کو خودکشی جیسے انتہائی ا قدام پر مجبور کر رہی ہے۔خودکشی کی خبروں خاص طور پر نوجوان نسل کی جانوں کے اتلاف کی خبریں ذہن دل کو آئے دن ملول کر رہی ہیں۔نوجوان نسل ہمارے ملک کا بیش قیمت اثاثہ ہے ۔ملک کی تعمیر و ترقی میں ان کے کردار کو ہر گز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔خودکشی کی بے شمار وجوہات میں سماجی دباؤ ،ڈپریشن ،خوداعتمادی کا فقدان،غربت ،عشق و محبت میں ناکامی وغیرہ شامل ہیں ان وجوہات میں سب سے زیادہ تشویش کا پہلو تعلیمی دباؤ کی وجہ سے رونما ہونے والی اموات (خودکشیاں) ہیں۔ ریسرچ میگزین Lancet کے مطابق ہمارے ملک کے نوجوانوں کی موت کا دوسرا بڑا سبب خودکشی ہے۔ لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن میں طبی نفسیات کے پروفیسر وکرم پاٹل کے مطابق ساری دنیا کے مقابلے میں ہندوستان میں پڑھے لکھے اور امیر نوجوانوں میں خود کشی کا رجحان سب سے زیادہ ہے۔ لینسٹ کے مطابق جنوبی ہندوستان میں خودکشی کا رجحان سارے ملک کے مقابلے میں بہت تیزی سے سرایت کرتا جارہا ہے۔جنوبی ہند کے خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے پندرہ تا تیس برس کے نوجوانوں میں خودکشی کا پریشان کن رجحان زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔مغربی ممالک میں خودکشی کا رجحان زیادہ تر عمر رسیدہ بزرگ افراد ،غریب اور کم تعلیم یافتہ شہریوں میں پایا جاتا ہے لیکن اس کے برخلاف ہندوستان میں خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تر امیر اوراعلی تعلیم یافتہ گھرانوں کے نوجوان پائے گئے ہیں ۔یہ بات ماہرین نفسیات کے لئے الجھن، بے چینی اور تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔کئی بچے والدین اور اساتذہ کی جانب سے لادے گئے تعلیمی دباؤ کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوکر خودکشی کربیٹھتے ہیں۔دنیا میں ہر انسان کم از کم ایک بار ڈپریشن کا شکار ضرور ہوتا ہے۔یہ منفی رجحان ذیل میں پیش کردہ وجوہات کی یا پھر کسی اور صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔بعض موقعوں پر ڈپریشن اتنی شدت اختیار کرجاتا ہے کہ اس سے باہر نکل پانا لوگوں کے لئے سخت مشکل ہوتا ہے۔ایسے حالات میں ناامیدی کا شکار نوجوان مسائل سے نجات پانے کے لئے اپنی زندگی کا چراغ بجھا دیتے ہیں۔ہر خودکشی کے پیچھے کوئی وجہ اور کوئی قاتل خواہ والدین کی صورت،اساتذہ ،خاندان یا معاشرے کے کسی فرد کی شکل میں یا پھرمعاشرتی ،معاشی،تعلیمی،مذہبی،سیاسی پالسیوں کی شکل میں ضرور چھپا ہوا ہے ۔بقول شاعر
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا!
خودکشی کا شکار ملک کی نوجوان نسل ایک جائزہ ؛۔
پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے اعداد و شمارکے مطابق سال 2014 سے 2016 کے درمیان ملک بھر میں 26600 طلبہ نے خودکشی کی۔ سال 2016 میں 9474 طلبہ نے، سال 2015 میں 8934 طلبہ نے اور سال 2014 میں 8068 طلبہ نے خودکشی کی۔ 2016 میں طلبہ کی خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات 1350مہاراشٹر میں واقع ہوئے جبکہ مغربی بنگال میں1147 ،ٹملناڈو میں 981 اور مدھیہ پردیش میں 838 واقعات رونما ہوئے۔2015 میں خودکشی کے مہاراشٹر میں 1230، ٹملناڈو میں 955، چھتیس گڑھ میں 730 اور مغربی بنگال میں 676واقعات رونما ہوئے۔بعض گوشوں سے ایسی بھی خبریں گردش کررہی ہیں کہ ہندوستان میں ہرگھنٹے میں ایک طالب علم خودکشی کرتا ہے جس کے لئے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو(این سی آر بی) کے2015کے اعداد و شمار کا بھی تجزیہ کیا گیا۔ اگر میں یہ کہوں تو کوئی کذب بیانی نہیں ہوگی کہ ہمارے ملک میں پچھلے کئی سالوں سے طلبہ کی خودکشی کے واقعات رکنے کانام نہیں لے رہے ہیں۔میڈیکل جرنل لانسیٹ کی 2012 کی ایک رپورٹ کے مطابق، 15 سے 29 سال کے درمیان کے نابالغ اور نوجوانوں میں خودکشی کی اونچی شرح والے چند سر فہرست ممالک کی لسٹ میں ہندوستان بھی شامل ہے۔سماجی ماہرین و جہد کاروں کے مطابق نوجوانوں میں خودکشی کے واقعات میں اضافے کا سبب عالمگیریت کی وجہ سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل، مشترکہ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ، والدین کی عدم توجہ، جذباتی سہاروں سے محرومی وغیرہ ہیں۔معاشی مسائل بھی عام افراد میں مایوسی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔علمائے دین اور دانشوروں کے مطابق دین سے دوری اور افلاس کی وجہ سے خودکشی کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔طلبہ میں بڑھتاہوا خو دکشی کا تناسب معاشرے میں تربیت کے فقدان کی غمازی کرتاہے۔،جبکہ دوسری وجہ تعلیم میں سخت مقابلہ بھی ہے۔
خودکشی کی وجوہات، ایک طائرانہ جائزہ ؛۔
خودکشی کے ذریعے ہوئی اموات کی جائزہ رپورٹس کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ دنیا کے تقریباًہر ملک میں کسی نہ کسی صورت میں سماجی ناہمواری اور عدم توازن موجود ہے جس کی وجہ سے لوگ ذہنی انتشار کا شکار ہورہے ہیں اور یہی ذہنی کیفیت بسا اوقات خود کشی جیسے حتمی اقدام پر افراد کو مجبور کر تی ہے اور جس کا منطقی انجام خودکشی جیسے بہت بھیانک روپ میں سامنے آتا ہے۔تحقیقات سے خودکشی کی مزید وجوہات سامنے آئیں ہیں۔یہ ایک چونکادینے والی حقیقت ہے کہ خودکشی کے ہر واقعے کی اپنی ایک کہانی اور وجہ ہے۔ تاہم اہم وجوہات میں ذہنی و نفسیا تی امراض، غربت، بے روزگاری، منشیات کا استعمال، امتحان میں ناکامی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، طعنہ ذنی، بے عزتی کا خوف، منفی مقابلے کا رجحان، لامتنا ہی خواہشات وغیرہ شامل ہیں۔خودکشی ایک پیچیدہ سماجی مسئلہ ہے جس کے سد باب میں دنیا کے بہت سارے ترقی یافتہ معاشرے آج بھی ناکام ہیں۔ تاہم شعور بیدری اور آگہی کے ذریعے اس رجحان کو کم کیا جاسکتاہے۔خود کشی کے عوامل کا عام جرائم کی تفتیش کی طرح پتالگانا ممکن نہیں ہے۔کیونکہ یہ عمل ایک فرد کی سوچ پر مبنی ہوتا ہے اور کسی شخص کی سوچ پر پہرہ نہیں لگا یا جاسکتا۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اہم تبدیلیوں کے ذریعے معاشرے کی مجموعی سوچ کو تبدیل کرتے ہوئے خود کشی کے واقعات کی روک تھام کی جاسکتی ہے اور اس سمت حکومت اور انسانی حقوق کے لئے برسرکار انجمنوں کو پیش قدمی کرنا چاہئے۔انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 50 فیصد نوجوان غربت، بیروزگاری اور اقتصادی مشکلات کے سبب خودکشی کر تے ہیں۔ جبکہ ماہرین نفسیات کے مطابق 80 فیصد نوجوان ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کرلیتے ہیں۔ مینٹل ہیلتھ ڈلی نے خودکشی کے متعدد اسباب میں خا ص طور پر پندرہ وجوہات کا ذکر کیا ہے جو خودکشی کا محرک بنتے ہیں۔ان محرکات میں ذہنی بیماریاں(عموماً ان کا تعلقات نفسیاتی امراض سے ہی ہوتا ہے)،غیر خوش گوار تجربات جیسے ایذا رسانی ڈرانا دھمکانا وغیرہ،غیر ہموار شخصیت اور شخصیت سے وابستہ مسائل،نشیلی ادویات (ڈرگس) کا استعمال،غذائیت سے مربوط مسائل،بے روزگاری،اکیلاپن،رشتے اور تعلقات سے جڑے مسائل،جنیاتی توارثی امراض ،غیر ضروری فلسفیانہ نکتہ نگاہ،فلسفیانہ خواہشات کی عدم تکمیل،وجود کا بحران،جان لیوا امراض،دائمی جسمانی اورذہنی درد و تکلیف ،معاشی مسائل ڈاکٹرس کی جانب سے تجویزکردہ ادویات کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں وغیرہ شامل ہیں۔ان کے علاوہ متعدد ذیلی وجوہات جنسی و جسمانی تشدد ،گھریلو تشدد، خانہ جنگی اور جنگ کی وجہ رونما ہونے والے اثرات بھی خودکشی کے اسباب میں شامل ہیں۔
خودکشی کا انسداد اور تدارک ،چند تجاویز ؛۔
منفی رجحانات سے نبردآزمائی کے لئے نئی نسل کی اوائل عمری سے ذہنی تربیت کی اشد ضرور ت ہے۔ذہنی طور پر نوجوان نسل کو مضبوط بنانے کے لئے والدین اور اساتذہ آگے آئیں۔بچوں کو زندگی کے نشیب و فراز،سرد و گرم، تلخ و ترش حالات کا علم فراہم کریں۔ بچوں کو مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور انہیں حل کرنے کا ہنر سکھائیں۔بچوں پر کسی بھی طرح کا دباؤ ڈالنے کے بجائے ان میں امید ،حوصلہ اور ہمت کو جاگزیں کریں۔والدین اور اساتذہ بچوں کے مسائل اور ان کی ذہنی حالت کا صحیح ادراک کریں۔ان کے ذہنوں میں محنت اور جستجو کی اہمیت کو اجاگر کریں۔بتائیں کہ مسلسل محنت و جستجو سے مشکل سے مشکل اور ناممکن سے ناممکن کام کو آسان ا ور ممکن بنایا جاسکتا ہے۔موت کبھی مسائل کا حل نہیں ہوسکتی۔یہ ایک بزدلانہ اور حرام فعل ہے۔بچوں میں ہمت و حوصلہ پیدا کریں کہ وہ مشکلات اور مسائل سے راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے ان کا سامنا کریں۔مشکلات و مسائل سے فرار اختیار کرنا اور اپنی جان گنوا بیٹھنا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اپنی زندگی سے مسائل و مشکلات کو فرار ہونے پر مجبور کردینا بڑی بات ہوہے۔نوجوانوں کو جب اپنے والدین ،خاندان ،ملک و معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار پیش کرناہو ایسے وقت اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ کر موت کو گلے لگانا انتہائی بزدلی کا کام ہے۔اساتذہ اور والدین طلبہ اور نوجوانوں کی ذہن سازی کو اولیت دیں اور بتائیں کہ ہر مشکل سے باہر نکلنے کا راستہ موجود ہے لیکن نوجوانوں کو وہ راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین ،اساتذہ اور سماجی ذمہ داران نئی نسل کو ناامیدی ،ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کو کم کرنے ا وراس سے نجات پانے کیطریقوں کی تعلیم و تربیت فراہم کریں۔ ،اذیت ناک واقعات ،تکلیف دہ تجربات سے باہر نکلنے کا حوصلہ اور طریقے ،معاشی ،معاشرتی اور سماجی دباؤ کو کنٹرول کرنے کے گُر سکھائیں ۔خودکشی کے واقعات پر مکمل قابو پانا یقیناًناممکن ہے لیکن اس میں کمی ضروری لائی جاسکتی ہے۔شعور و آگہی ،کونسلنگ او ررہنمائی خودکشی پر قابو پانے میں اہم کردار انجام دے سکتی ہے۔شعور و آگہی کو مہمیز کرنے والے پروگرامس کا اسکولس و کالجز میں باقاعدگی سے انعقاد عمل میں لایا جائے۔ٹیکنالوجی کے بے جا استعمال سے آج کا انسان تنہائی پسند ہوتا جارہاہے۔ اکثر تنہائی و اکیلے پن کی وجہ سے انسان خودکشی کی جانب خاموش پیش قدمی کرتا ہے۔ اسی لئے ٹیکنالوجی کے بے جا استعمال اور اس کے مضر اثرات سے نوجوان نسل کو آگاہ کیا جائے۔جدید ٹیکنالوجی کے باعث کھیل کے میدان ویران اور دیگر تفریحی سرگرمیاں ماند پڑتی جارہی ہیں۔نوجوان نسل کو گھٹن اور اضطراب سے باہر نکالنے کے لئے کھیل کو د اور اسپورٹس کے شعبوں کو فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ کھیل کو د تفریح اور ورزش کے ذریعے زندگی کی مسرتوں کا لطف حاصلکرسکیں۔
ہمارا معاشرہ متعدد نفسیاتی مسائل میں الجھا ہوا ہے لیکن ہمارے پاس کلینکل نفسیات(Clinical Psychology)اور دماغی و نفسیاتی معالجین کا فقدان پایا جاتا ہے۔آج کے اس نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بھی آدمی ذہنی اور نفسیاتی امراض پر لب کشائی سے گریز پاہے۔ذہنی اور نفسیاتی مسائل او رامراض کے متعلق لوگوں میں پائے جانے والے ناکردہ احساس ملامت ،شرمندگی اوندامت کو دور کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں کبھی خاموشی مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل میں اضافے کا سبب بنی ہے۔خودکشی ایک بزدلانہ فعل سماجی جرم اور دینی طور پر ایک عظیم گناہ ہییہ بات نوجوان نسل میں عام کرنے کی ضرورت ہے۔طلبہ دکھاؤ ے کی تعلیم سے خود کو اور والدین کو دھوکا نہ دیں۔دلجمعی سے تعلیم حاصل کریں۔اپنی لیاقت کے بر خلاف فیلڈ کا ہرگز انتخاب نہ کریں۔اپنی لیاقت کے برخلاف اگروہ فیلڈ کا انتخاب کریں گے تو یقینی طور پر ان کی رفتار دیگر طلبہ سے سست ہوگی اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجائیں گے۔اسی لئے طلبہ اپنی انفرادیت کو ملحوظ رکھیں اور بھیڑ چال سے بہر صورت محفوظ رہیں۔ ذہنی تناؤ اورناامید ی سے بچاؤ کے لئے ایسی فیلڈ اور میدان کا انتخاب کریں جہاں انھیں اپنی رفتار پر اعتماد ہو۔ اپنی سوچ کو بدلتے ہوئے نوجوان ایسے راستوں کا انتخاب کریں جولاکھوں کے جم غفیرمیں بھی انھیں صیح سمت اور منزل کی جانب لے جاتے ہوں۔ مثبت اور صحیح سمت کا تعین ہی کامیابی کا پہلازینہ ہے۔ہر فرد کی ذات میں کمزوری اور طاقت یکساں پائی جاتی ہے۔ دنیا کی کامیابی صرف طاقت میں پنہاں ہے۔جو شخص اپنی پوشیدہ طاقت اور صلاحیت کو پہچان لیتا ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔دنیا اس کی عظمت کے گن گانے لگتی ہے۔خودکشی مایوسی اوردینی تعلیم سے دوری کا نتیجہ ہے۔اسلام ہمیں سادہ اور تصنع سے پاک زندگی بسر کرنے کا حکم دیتا ہے اور تلقین کرتا ہے کہ تادم زیست صبر و استقلال کا دامن کبھی نہ چھوڑئیں۔ نوجوان نسل کے ایمانی سطح کے جائزے سے معلوم ہوگا کہ اللہ کی ذات پر انھیں کامل بھروسہ نہیں رہا جس کی وجہ سے وہ خودکشی جیسے حرام فعل کے مرتکب ہورہے ہیں۔ دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو دینی تعلیم کی بھی خاص ضرورت ہے ۔ اساتذہ،علمائے،آئمہ ،صلحاء اور والدین نوجوانوں میں اللہ سے محبت و یقین کی کیفیت کو پروان چڑھائیں۔نئی نسل کی قرآن و سنت کی روشنی میں تعلیم و تربیت اور ذہن سازی کریں۔نوجوانوں کی قیمتی جانوں کے اتلاف سے بچنے کے لئے تعلیمی اداروں کو کارکرد اور فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ شعوربیداری اور ذہن سازی نوجوان نسلمیں پھیلیناامیدی حرماں نصیبی اور اضطرابی کیفیت کو ختم کرتے ہوئے انھیں ترقیوں کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔
اہم بلاگز
یومِ خواتین
ہم عورتوں کے غم میں گھلی جارہی ہیں ، کیا انہیں اس بات کا احساس ہے ؟ کوئی ہے جو انہیں احساس دلائے ؟ انہیں ان کی ذات کا شعور دے ؟۔
رویے ، معاملات، طریقے
حل کیا ہے ؟حل کہاں ہے؟
"اے اولاد آدم ہم نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا،وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور میری ہی عبادت کرنا ، یہی سیدھا رستہ ہے ۔تم سے پہلے وہ کئ نسلوں کو گمراہ کر چکا ہے ،کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟"(سورہ یٰسین )۔
ہمیں جن رشتوں میں بھی مرد سے اختلاف ہےوہ ہمارے اپنے رشتے ہیں ۔ ہم مرد عورت نے مل کر اپنے دشمن کے خلاف ایک ہونا ہے۔ اس کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ ماننے کا علم اور عمل چاہیے۔ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کا سلیبس لے کر صراط مستقیم پر چلنا چاہ رہے ہیں لہذا یہ فتنہ گھیرے رکھے گا ان رشتوں کو۔
ام سلمیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کی طرف سے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ" مرد تو سارا اجر لے جاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان کے گھر ،بچے پالتی ہیں ،ہمیں کیا ملا؟ "جواب دینے والی ہستی (جس پہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ہروقت درود بھیجتے ہیں) نے فرمایا "اجر میں کوئی کمی نہیں ۔ اللہ کے ہاں تقویٰ کی اہمیت ہے۔ تم گھر رہتے ہوئے جہاد کا اجر پاؤ گی"۔
ہے کوئی دنیا میں ایسی تہذیب جو عورت کو گھر بٹھا کر عزت دے؟
سورہ نحل آیت 97 میں اللہ تعالی نے فرمایا خواہ مرد ہویا عورت ،اور ہو وہ مومن،اجر کا مستحق ہوگا۔"
لیکن ہمارا ذہن تو لڑائی جھگڑوں میں الجھا رہتا ہے۔ ہم اپنی ذات سے بے گانہ رہتی ہیں ۔ ہم غیر حاضر دماغی کے ساتھ عمل کر رہی ہیں۔ ہمارا اپنے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کے ساتھ اپنا وعدہ یاد نہیں ہے۔کاش میں لوگوں کو اتنا ہی سمجھا سکوں کہ وہ کتنا "رحیم" ہے۔ اس نے مجھ ابھی بھی رکھا ہوا ہے ۔
گھر کے کام پر اجر و ثواب۔ نیت کے باعث
ہم نیت کے بغیر ضائع ہو رہی ہیں
اپنے رویے اور اپنی نیت سے خود کو بے وقعت ہونے سے بچائیں۔ ہم ضرورت مند ہیں تو ہمیں مزاج کو اہمیت دینی ہے یا ضرورت کو؟ کیا ہمیں اپنی آخرت کی اتنی فکر ہے جتنی ان صحابیہ کو تھی؟
آئیں اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں
ان کا گھر کیسا تھا ؟
کیا سامان تھا؟
شوہر کتنا وقت دیتے تھے ؟
کتنا خرچہ دیتے تھے؟
ہم اپنے گھر میں رہتے ہوئے خوش نہیں جب کہ اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) نے شوہر (مرد )کی اطاعت اور بیٹے (مرد) کی پرورش کی خاطر شہر آباد کر دیا۔ کیونکہ ان کے پاس ماننے کا علم اور تعلق میں مضبوطی تھی۔
اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) نے اپنی جان مال سب اپنے شوہر مرد کے مشن پہ قربان کر دیا کیونکہ ان کے دل و دماغ صاف تھے تو ایمان نے ان میں گھر کر لیا۔
کیسی بے مثل اولادیں پروان چڑھائیں انہوں نے
قیامت تک کے لیے...
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔