پاکستان کی آزاد ہوئے اکہتر سال ہونے کو ہیں مگر عوام اب بھی غلام کی غلام ہی رہی۔پہلے انگریزوں کے غلام تھے اب کالے انگریزوں کے غلام ہیں۔ اپنے آقاؤں کے تلوے چاٹنے کی عادت سی ہو گئی ہے انہیں۔ اپنے اپنے وڈیروں اور سرداروں کے پیچھے چلنے کی عادت ہے اس قوم کو۔چانڈیو کا ووٹ چانڈیو کے لیے ۔جٹ کا ووٹ جٹ کے لئے۔ انگریز بوٹوں کی چھاپ ایسی ہے دماغوں پہ کہ اس قوم کو حکمران بھی سوٹ بوٹ والے، وڈیرے اور جاگیردار چاہیے ۔عام آدمی چاہے وہ دیانت دار ہو امین ہو جچتا نہیں ان کی آنکھوں میں۔ایک پڑھے لکھے شخص کا ووٹ بھی ذات اور برادری کے خانے میں جائے گا یا پھر یا پہلے سے آزمائے ہوئے چوروں لٹیروں اور ڈاکوؤں کے حق میں۔یااب تو بس اس کو ووٹ دینگےجس پارٹی امیدوارکے کیمپ پہ ہلہ گلہ ہو ، گانا بجانا ہو،قیمے والے نان ،پانی پوری، بریانی آہ مزہ آجائے کھانے کا ۔۔۔پھر بے شک پانچ سال روتے رہو ۔۔بجلی کے بل میں آدھی تنخواہ چلی جائے گی پٹرول کی قیمتوں میں روز اضافہ ہو گا گھر میں کوئی بیمار کیا ہوا قرض مانگنے پر مجبور ہو گئے۔ بھگتنا پڑے گا اپنے دیئے گئے ووٹ کا عذاب۔گورنمنٹ ہسپتال اس قابل نہیں کہ علاج کراسکیں گورنمنٹ اسکول اس قابل نہیں کہ بچوں کو پڑھا سکیں پرائیویٹ سکول اور ہسپتالوں کی فیسیں اورعلاج اتنا مہنگا کہ مہنگائی کے بوجھ تلےکمر آدھی ہورہی ہے بالوں میں چاندی آگئی ہےمگر بدقسمتی سے ووٹ انھی کو ڈالیں گے جو پانچ سال تک شکل نہیں دکھائیں گے پانی کا بحران ہو یا بجلی کا ،نادرا کا مسئلہ ہویا گٹر بہہ رہے ہوں ۔مگر عوام اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جو لوگ ہمارے مسائل حل نہیں کر سکتے ہم کیوں ووٹ ڈالتے ہیں انھیں اور پانچ سال تک رونا روتے ہیں اپنی بدقسمتی کا۔
مگر اب کی بار عوام اپنی بدقسمتی کا ماتم بند کردیں پہلے سے آزمائے ہوئے چوروں لٹیروں کو ہرگز ووٹ نہ دیں اور نہ ان لوگوں کو ووٹ دیں جو موقع پرست لوٹے ہوں آج اس پارٹی میں تو کل اس پارٹی میں۔اور نہ ان لوگوں کو ووٹ دیں جو بڑے محلوں میں رہتے ہوں اور لینڈ کروزر اور ہیلی کاپٹر میں گھومتے ہوں
بلکہ اب کی بار عوام ایسے دیانت دار افراد کو ووٹ دیں جوہمارے درمیان رہتے ہوں جنھیں کسی پاور اور کرسی کا لالچ نہ ہو جو پاور کے بغیر ہمارے مسائل حل کرتے ہوں اور حکومت میں آنے کے بعد بھی اور ہمارے مسائل کا درد جبھی ہوگا انکے دل میں جب ہمارے اور انکے مسائل بھی ایک ہونگے ہماری طرح قطاروں میں دھکے کھاتے ہونگے اور ہمارے بچوں کے ساتھ انکے بچے پڑھتے ہونگے اور عوام یہ بات بھی جان لیں کہ ایسے لوگ ناپید نہیں ہیں بس ایسے لوگوں کو ڈھونڈنے کے لیے عصبیت کی عینک اتارنا ہوگی پھر ایسے لوگ ضرور ملیں گے اور آپ کے درمیان رہتے انکی عمر گذری ہوگی۔ایسے لوگ عوامی مسائل وحقوق کی جنگ لڑتے چوکوں اور چوراہوں میں نظر آئیں گے کبھی نیپرا کے خلاف کبھی پیمرا کے خلاف کبھی نادرا کے خلاف کبھی کاشتکاروں کے ساتھ شوگر مل مافیا کے خلاف کبھی سینٹ اور قومی اسمبلی میں عقیدہ ختم نبوت کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے کبھی جہیز کے خلاف بل پاس کراتے ہوئے کبھی سیلاب و زلزلہ زدگان کی مدد کرتے ہوئے کبھی بارش میں پھنسے لوگوں کی مدد کرتے ہوئے کبھی تھر میں پانی کےلئے ترستے لوگوں کی مدد کرتے ہوئےایسے افراد جو آپ کے اپنے ہی ہیں خود بھی دیانت دار ہیں اور انکی قیادت بھی جن کے قائد کی صداقت و امانت کی گواہی سپریم کورٹ نے دی۔ یہ واحد جماعت ہے جو اس ملک کو حقیقی اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا سکتی ہے مغربی ممالک کی ناپاک جسارت کے خلاف ناموس رسالت کے لئے پہلی اٹھنے والی آواز بن سکتی ہے کرپشن مہنگائی بےروزگاری اور لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ کر سکتی ہے اور فرقہ واریت کا خاتمہ کرتے ہوئے ملک میں موجود تمام مکاتب فکر کو ایک جھنڈے تلے جمع کر سکتی ہے بلکہ شیعہ سنی دیوبندی بریلوی اور اہلحدیث کو متحدہ مجلس عمل کے جھنڈے تلے جمع کر چکی ہے اب عوام کا کام ہے کہ متحدہ مجلس عمل پر اپنے اعتماد کا اظہار کریں اور کتاب کو ووٹ دیں ملک کو لادینی قوتوں سے بچائیں اور پاکستان کا اسلامی تشخص بحال کریں۔ایسے لوگوں کے ہاتھ مضبوط کریں جو ملک کو ایٹمی اسلامی قوت بنا سکتے ہیں واحد ایٹمی اسلامی قوت جو آس و امید ہے کشمیر برما شام اور فلسطین کے مسلمانوں کی۔اگر آج ہم نے اپنے ووٹ کے ذریعےکرپٹ لوگوں کو نکال باہر کیا تو پھر کل انشاءاللہ پاکستان کےغیرت مند حکمران وطن عزیز کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع کےساتھ ساتھ جغرافیائی سرحدوں کا بھی دفاع کریں گے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات رکھتے ہونگے بھارت کی سرحدی دہشت گردی اور آبی جارحیت کے خلاف خاموش تماشائی نہیں بنیں گے بلکہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی آواز بنیں گےاور یہ اس صورت ممکن ہے کہ ہمارا ووٹ ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے ہو۔