صباحت ، انوشے دو سہیلیاں یونیورسٹی میں سال اول کی طالبات ہیں۔الیکشن کے دن قریب آئے توایسا لگ رہاتھا سب کا پسندیدہ موضوع یہی الیکشن ہے۔دونوں ابھی امتحانات سے فارغ ہوئیں تھیں ۔دوسرےے سیمسٹر کا آغاز 16 جولائی سے ہوگیا تھا۔چھٹیوں کے بعد جب ملیں تو لگادو بچھڑے ساتھی مل گئے۔حالانکہ واٹس اپ میسنجر پر روز بات ہوتی تھی۔دونوں نے خوب جی بھی کے باتیں کیں۔اب جب الیکشن کا ذکر ہوا تو انوشے بولی:
ہاں یار یہ الیکشن کے گانے رات بھر سر پر بجتے ہیں ۔جلد ختم ہوں یہ مصیبت،میں تو ووٹ نہیں دیتی لیکن یہ سب ہنگامے ہم بھی برداشت کریں ۔
صباحت :ووٹ نہیں دوگی کیا؟
انوشے:یار کسےووٹ کریں سب ایک جیسے ہیں ۔پہلے عمران خان سے کچھ امید تھی لیکن اب اسکے پاس بھی کرپٹ عناصر کا ٹولہ ہے۔میں تو کسی کو ووٹ نہیں ڈالوں گی ۔بس اس دن آرام سے سوئیں گے گھر میں ۔تم بتاؤ؟
صباحت:یار میں تو اپنا ووٹ برباد نہیں ہونے دوں گی ضرور ووٹ ڈالنے جائوں گی۔
انوشے :یار تمہارے ووٹ ڈالنے سے کچھ نہیں ہونے والا سب ویساہی رہے گا۔
صباحت:یار میں اپنا حق ادا کروں گی نیک لوگوں کو ووٹ دوں گی تاکہ پانچ سال تک پچھتاتی نارہوں،اور پلیز تم بھی اپنا ووٹ ضائع ناکرو۔
دیکھو بیٹا دروازے پرکون ہے!
مسز عفان نےکچن سے بیٹے عماد کوآواز دی۔
امی محلے والی سائرہ آنٹی ہیں ،آپ کوبلارہی ہیں۔بیٹاانہیں کمرے میں بٹھاؤ، میں آتی ہوں۔
تھوڑی دیر بعد مسز عفان کمرے میں داخل ہوئیں۔خیر خیریت کے بعد سائرہ باجی کے پوچھنے پر مسز عفان بولیں: باجی ہم تو کسی کو ووٹ نہیں ڈالتے سب ایک جیسے ہیں۔
سائرہ:آپ اپنا ووٹ اپناحق ضائع کردیتی ہیں؟
مسزعفان:مطلب؟
سائرہ باجی:ووٹ آپکا حق ،ایک امانت ہے۔اگر آپ کے ووٹ نادینے کے باعث کرپٹ افراد برسر اقتدار آجائیں تو قصور کس کا ہوا؟ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف 40 فیصد لوگ اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہیں اور ہم پر کرپٹ اشرافیہ مسلط ہوجاتے ہیں۔ہمارا ووٹ اگر ہم نہیں دیتے تو دھاندلی کے باعث ہمارا ووٹ کاسٹ ہوجاتا ہے۔اگلے پانچ سال ہم پر وہ لوگ مسلط کردئیے جاتے ہیں جن کو ہم کبھی حکمراں نہیں بنانا چاہتے۔
مسز عفان:بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔ میری پڑوسن بتارہی تھی وہ پچھلے سال 4 بجے ووٹ ڈالنے گئی تو پتاچلا اسکا ووٹ پہلے ہی کاسٹ ہوچکاتھا۔
سائرہ باجی: جی اسی لئے حق کی گواہی دینے والی بنیں ۔بہت سے کرپٹ افراد میں کچھ اچھے لوگ بھی کھڑے ہیں جو آپ کے محلوں میں رہتے،جوآپ کے مسائل کو اپنا سمجھتے ہیں۔آپ اس بار حق کوکامیاب بنانے میں ان کا ساتھ دیجئے،ووٹ دینا ایک شرعی ذمہ داری ہے اور کسی اہل آدمی کو ووٹ دینے سے گریز کرنا شرعی جرم ہے اور نیک قابل امیدوار کو ووٹ دینے کا فائدہ اس دنیا میں بھی آپ کو ملے گا اور آخرت میں بھی آپ کے لیے اجر کا باعث ہوگا۔
مسز عفان: اچھاجب آپ ووٹ ڈالنے جائیں تو مجھے بھی ساتھ لے لیجئے گا۔
ہمیشہ باس آفس ٹائمنگ ختم ہونے کے بعد ہی میٹنگ رکھتے ہیں۔ارسلان نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ہاں یہی طریقہ ہوتا ہے ہر آفس مینجمنٹ کایہ اپنے مزدوروں کو زیادہ سے زیادہ کام اور کم سے کم تنخواہ پر رکھنا باعث فخر سمجھتے ہیں،اسامہ نے کہا۔کب ٹھیک ہوگا یہ نظام ،ارسلان نے مایوسی سے کہا۔
اسامہ:جب تک ہمارے اوپر کرپٹ مافیامسلط رہے گا۔
ارسلان:تم یامیں اس مافیا کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے۔
اسامہ:نہیں ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرکے ہم اس قانون کو بدل سکتے ہیں،ہم نیک لوگوں کو اسمبلیوں میں لاکر مزدور کے متعلق اسلامی قانون کابل پاس کرواسکتے ہیں جس میں مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کی جائے گی،جہاں مزدور سے اس کے مطلوبہ وقت سے زیادہ کام نالیاجائے گا۔
ارسلان:ایسا کبھی نہیں ہوا ،اب کیسے ہوسکتاہےاور ویسے بھی پورے ملک میں یہ جابرانہ نظام نافذ ہے اس سے چھٹکاراممکن نہیں اور ووٹ دینے سے کب کس کی حالت بدلی ہے ۔
اسامہ:تم بتاو ا ب تک کتنی بارووٹ دیا؟
ارسلان :مجھے انتخابات کی شفافیت پر بھروسہ نہیں اسلئے میں نے تو ایک دفعہ بھی ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔
اسامہ:یار ہم خود نہیں چاہتے کہ ہمارے حالات تبدیل ہوں،اگر ہم اپنا ووٹ نیک لوگوں کودیں تو ہمارے نظام میں اسلامی نظام کے ثمرات نظر آجائیں اور پھر معاشرتی ناہمواریاں خود بخود دور ہوجائیں،بشرطیکہ ہم اپنا کردار ادا کریں۔
ارسلان:میرے یاتمہارے ووٹ ڈالنے سے کچھ تبدیل نہیں ہونے والا۔
اسامہ:ارسلان ابراہیمؑ کی چڑیا کاکردار اداکرناہے اگر اس نمرود کی لگائی ہوئی آگ سے بچنا ہے۔تم 25جولائی کوتیار رہناہم دونوں ساتھ ووٹ ڈال کر آئیں گے ۔ان شاء اللہ حق کامیاب و فتح یاب ہوگا،اور نابھی ہوا تو روزمحشر ہم آگ بجھانے والوں میں کھڑے ہوں گے ناکہ نمرود کی آگ کو بھڑکانے والے۔
ارسلان:چلو یار ٹھیک ہے۔
عمومی رجحان یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ ووٹ کاسٹ نہیں کئے جاتے اور اگر دئیے جاتے بھی ہیں تو قومیت،عصبیت،نظریاتی بنیادوں پر۔ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے۔اپنا ووٹ کسی غلط آدمی کو دینے سے پہلے یہ سوچ لیجیے کہ آپ ایک کبیرہ گناہ میں شریک ہورہے ہیں جس کی جوابدہی آپ کو روز قیامت کرنی ہے۔ہمیشہ سچائی کاساتھ دینے والے بنیے تاکہ قیامت کی کامیاب حاصل کی جا سکے اور اپنا ضمیر بھی مطمئن رہے۔
آیئے پہلے ووٹ کی شرعی حیثیت کے بارے میں جانتے ہیں ۔ووٹ کی ایک حیثیت شہادت، یعنی گواہی کی ہے۔ جس شخص کے حق میں انسان ووٹ ڈالتا ہے تو وہ درحقیقت اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ امیدوار دیانت و امانت کے ساتھ اس کام کی قابلیت رکھتا ہے۔اگر کوئی شخص اس بات کو جانتے ہوئے کہ وہ امیدوار ان اوصاف کا حامل نہیں ہے اور پھر بھی اس کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرتا ہے تو وہ جھوٹی گواہی کا مرتکب ہوا جو گناہ کبیرہ ہے جس کی آخرت میں جوابدہی کرنی ہوگی۔
ووٹ کی دوسری حیثیت سفارش کی ہے۔ یعنی ووٹ دینے والا امیدوار کے حق میں سفارش کرتا ہے کہ اس کی رائے میں یہ امیدوار اس منصب کا اہل ہے۔ اگر سفارش بجا اور ٹھیک ہوئی تو ایسی سفارش کا کرنے والے کو بھی کا اجر ملے گا اور اگر یہ ناجائز ہوئی ہے تو اس کا گناہ سفارش کرنے والے کو بھی ملتا ہے۔اس پہلو سے بھی ووٹ دینے والے کو یہ جان لینا چاہیے کہ اگر اس کا ووٹ کسی نااہل اور بددین کو پڑ گیا تو اس کے ذریعے ہونے والی تمام تر برائیوں میں وہ بھی اس کا شریک سمجھا جائے گا جس کا وہ آخرت میں جواب دہ ہوگا۔
ووٹ کی تیسری حیثیت کسی کو اپنا وکیل بنانے کی ہے۔یعنی ووٹ دینے والا امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے۔لیکن اس وکالت کا اثر صرف اس کی ذات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کے تمام افراد تک اس کا نفع اور نقصان پہنچتا ہے اس لحاظ سے بھی ووٹ دینے والے کو اپنا وکیل مقرر کرتے ہوئے دیکھ لینا چاہیے کہ وہ کسی اہل فرد کو یہ منصب سونپ رہا ہے۔ بصورت دیگر اس نااہل کی تمام بداعمالیوں میں وہ بھی اس کا شریک ہوگا۔
ووٹ کا صحیح استعمال آپ کے حق میں اجر و ثواب کا ذریعہ ہے اور اس کا غلط استعمال کرنے کی صورت میں آپ کا منتخب کردہ نااہل نمائندے کے تمام اعمال کے آپ برابر کے ذمہ دار ہیں اور وہ تمام لوگ جن کے حقوق اس نااہل نے ضائع کیے وہ بھی روز قیامت اللہ کے سامنے اس نااہل کو وٹ دینے والے سے اپنے حقوق کے طلب گار ہوں گے۔ اور یہ ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں ہوں گے اس لیے اپنے ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہر شخص کے لیے لازم ہے اس لیے کہ قیامت کے دن حقوق العباد کا معاملہ بہت سخت ہوگا۔
اب آتے ہیں ووٹ کس کو دیا جائے اور کیو ں؟نواز شریف اور زرداری کی کرپشن سے صرف پاکستان کی عوام نہیں پوری دنیاواقف ہے۔عمران خان کی پارٹی بھی تبدیلی تبدیلی کی بات کرتے ہوئے بس انہیں لوٹوں الیکٹیبل افراد کو پارٹی نشست دی جو پہلے سے آزمائے ہوئے ہیں،اب آتے ہیں ایم ایم اے متحدہ مجلس عمل۔ان کو ووٹ دینا صرف ہمارا دینی تقاضہ اور ملکی مفاد ہی نہیں مجبوری بھی ہے۔وہ کس طرح آئیے قائد سالار سراج الحق کی کچھ تقریر کےحصے آپ ساتھ شئیر کرتی ہوں۔امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ایم ایم اے کی بحالی سے سیکولر طبقات خوفزدہ ہیں ،سیاسی برہمنوں اور پنڈتوں کا دور ختم ہونے والا ہے ، یہاں ٹرمپ کی سیاست اور جمہوریت نہیں چلے گی،ہم گالی اور گولی کی سیاست کو مسترد کرتے ہیں ،وطن عزیز کو دجالی سیاست اور مغربی کلچر سے پاک کرنے کے لئے منبر و محراب مضبوط مورچے ہوں گے ۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ انگریز نے برصغیر میں آ کر دینی اور علمی مراکز کو تباہ و برباد کیا۔ اسی طرح غرناطہ اندلس مصر اور دوسرے ممالک میں مسلمانوں کے علمی اور تحقیقی اداروں اور مراکز کو جلایا گیا۔یورپ کے کئی شہروں میں ہمارے اسلاف کی کتابیں لائبریریوں اور کتب خانوں میں اب بھی موجود ہیں ۔انگریزوں کی آمد کے وقت سندھ کے شہر ٹھٹھہ میں 400 اور دہلی میں1000 مدارس موجود تھے ۔انہوں نے کہا کہ9 /11 کے بعدامریکا نے مسلم ممالک کے تعلیمی نصاب میں من پسند مضامین شامل کرائے۔ پاکستان کے جنرل پرویز مشرف نے امریکی ڈکٹیشن پر نصاب میں سے جہادی آیات اور دیگر اسباق نکال دیئے تھے۔انہوں نے کہا کہ دشمن مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کے لئے طرح طرح کے منصوبے بناتا ہےمگر علماءحق نے ہمیشہ اُمت کو جوڑنے اور اتحاد اُمت کے لئے کام کیا ہے۔ نظام تعلیم کے حوالے سے حکومت کا کوئی وژن نہیں ہے۔ مغرب کی غلامی کے لئے نوجوانو ں کو کلرک بنایا جا رہا ہے۔ امریکی سفیر نے سکھر میں طالبعلموںکو کہا کہ وہ اپنے ناموں سے لفظ محمد ختم کردیں کیونکہ ہمارا کمپیوٹر محمد کا لفظ قبول نہیں کرتا۔ افسوسناک صورتحا ل ہے کہ ہمارے وزراءکو سورہ فاتحہ نہیں آتی اور ایسے بھی ہیں کہ جن کو وضو کا طریقہ بھی معلوم نہیں ہے ۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ 33 لاکھ طلبا دینی مدارس میں زیر تعلیم ہیں حکمرانوں کے اصطبل باغیچوں اور کچن کے لئے بجٹ میں رقم مختص کی جاتی ہے مگر دینی مدارس کے طالبعلموں کے لئے کوئی پیسہ نہیں ہے۔ ہمیں موقع ملا تو تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے تعلیمی بجٹ کو 2 فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کریں گے۔ہر بچے کو تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ مستقبل اسلام کا ہے، اللہ کا دین غالب ہوگا۔
مجبوری یہی ہے کہ ہمارے پاس یہی ایک آپشن ہے اور وہ ہے ایم ایم اے۔جہاں تک عمران خان کامعاملہ ہے۔ اس پر جمعیت علماءاسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے بڑے بڑے لوگوں نے عمران خان کے یہودی لابی اور مغربی تہذیب کا ایجنٹ ہونے کا اعتراف کیا انہوں نے کہاعقیدے اور نظریے پر کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی ۔آج سے کم و بیش 20 سال پہلے حکیم محمد سعید نے بھی اپنے ایک مضمون میں عمران خان کے یہودی کی ایماء پرحکومت کرنے کیم پیشن گوئی کی تھی۔تو اب آپ سب اپنی اس مجبوری کا فائدہ اٹھائیں ۔ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں
جب دھرتی کروٹ بدلے گی جب قید سے قیدی چھوٹیں گے
جب پاپ گھروندے پھوٹیں گے جب ظلم کے بندھن ٹوٹیں گے
اس صبح کو ہم ہی لائیں گے وہ صبح ہمیں سے آئے گی
اللہ کی رحمت چھائے گی
سنسار کے سارے محنت کش کھیتوں سے ملوں سے نکلیں گے
بے گھر بے در بے بس انساں تاریک بلوں سے نکلیں گے
دنیا امن اور خوشحالی کے پھولوں سے سجائی جائے گی
وہ صبح ہمیں سے آئے گی اللہ کی رحمت چھائے گی