لمحوں کی خطاء

گزشتہ رات ایک بہت ہی مخلص دوست کے ہاں جانا ہوا ،وہ بڑی دیر سے مجھے یہ کہتا تھا کہ یار کبھی ہمارے گھر بھی آجائیں ، ہمیں بھی خدمت کا موقع دیں،ہماری دعوت بھی کبھی قبول کرلیں ،طویل عرصہ سے اسرار کرنے کی وجہ سے میں نے ان سے ان کے گھر ملاقات کا ارادہ بنا لیااور اس سے رابطہ کیا کہ میں آپ کے پاس آج شام کو آرہا ہوں،تو وہ میرے آنے کی خبر سن کر بہت خوش ہوا اور کہتا ہے جناب اس میں بتانے کی کیا ضرورت تھی، آپ کا اپنا گھر ہے جب چاہیں آئیں ،تو میں نے آگے سے کہا کہ میں یہ مناسب نہ سمجھا کہ آپ کو بتائے بغیر آجاؤں ،ہو سکتاہے کہ آپ کسی کام کے لئے گھر سے باہر گئے ہوں۔
تو خیر میں اپنی گاڑی پرسوار ہوا اور اپنے دوست کی جانب رخت سفر باندھا ،جب میں وہاں پہنچاتووہ میرے استقبال کے لئے اپنے گھر سے باہر کھڑا میرے آنے کاانتظار کررہاتھا ، اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی ،اس نے اپنی حیثیت کے مطابق میری اچھی میزبانی کی،ماضی کی باتیں شروع ہو گئی اور ساتھ ہی موجودہ حالات کے مطابق انتخابات کی باتیں بھی زور وشور سے ہونے لگیں ۔اب جس کا وہ سپورٹر تھا اس کو میں پسند نہیں کرتا تھا اور جس کو میں سپورٹ کرتا تھا،اسے وہ پسند نہیں کرتا تھا ،ہماری دوستی بڑی پکی اور دور طالب علمی سے تھی، لیکن اس انتخابات کی بحث نے ہم دونوں کو آپس میں لڑنے ،جھگڑنے تک آمادہ کردیا۔لیکن بچ بچاؤ ہو گیا وہ نوبت نہ آئی کہ ہم آپس میں دست و گریباں ہوتے۔
اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم آپس میں ہی کہنے لگ پڑے کہ چھوڑ یار کس بات پر ہم اپنا دماغ خراب کررہے ہیں،کیوں آپس میں ہی اتناجھگڑا کر رہے ہیں ۔پھر یوں ہوا کہ آخر میں ہم دونوں کا اتفاق ہو ہی گیا کہ جو اچھا لیڈر ہے ،لوگوں کا حقیقی ہمدرد ہے ،دین اسلام کا لحاظ رکھنے والا ہے اور اس کے علاوہ جو دیگر سیاسی جماعتیں ہیں ان کے لیڈروں سے اچھا ہے، صرف اسے ہی سپورٹ کیا جائے ۔اب قارئین کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہو گا کہ وہ کونسا لیڈر ہے کہ باقی لیڈروں میں سے اچھے لیڈرکی تمیز ہوگئی ،تو میں اس سوال کاجواب ہر گز نہیں دوں گا۔کیونکہ ہم اشرف المخلوقات ہیں ہم انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات سے ممتاز پیدا کیا ہے اور ہم سب کواللہ تعالیٰ نے عقل اور بصیرت سے نوازا ہے ہم میں سے ہر ایک خود فرق کر سکتا ہے۔
بہر حال میرے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کتنے ہی ایسے گھرانے ہوں گے جو ایسی ہی سیاسی بحثوں میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور پھر ساری زندگی کے لئے اپنے دلوں میں نفرتوں اورتعصب کے پودے کو پروان چڑھاتے رہتے ہیں ۔جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اتفاق واتحاد کی فضا زہر آلود ہوجاتی ہے تو پھر کتنے ہی گھرانے ایسی زہر آلود فضا میں زندگی گزارتے ہیں ،ان کی زندگیاں پُر سکون اور پُر لطف نہیں گزرتی پھر یہ ہوتا ہے کہ’’لمحوں کی خطا پائی ،صدیوں نے سزا کاٹی‘‘۔
آج ہم سب کے لئے یہ جو موجودہ ایام جا رہے ہیں بہت ہی نازک اور پر کٹھن ایام ہیں ان ایام میں آپ کہیں بھی چلے جائیں، آپ کو اگر باتیں سننے کو ملیں گی توصرف الیکشن کے بارے میں ،جگہ جگہ لوگوں کا ہجوم لگاہوگا ، ہر کوئی اپنی اپنی پسند کے مطابق سیاسی پارٹی کا دفاع کر رہا ہو گا اورکہیں کہیں آپ کسی کو یہ بھی کہتا ہوا پائیں گے کہ فلاں امیدوار اچھاہے، اسے ووٹ دو اور فلاں امیدوارٹھیک نہیں ہے ،اسے ووٹ نہ دینا،الغرض کوئی شہر،بستی ،بازار ،گلی اور گھرایسا نہیں ہو گاجو اس سیاست سے بچا ہواورجہاں یہ بحث نہ ہو رہی ہو ۔
خیر یہ بھی ضروری کاموں میں سے ایک کام ہے اس کا بھی انکار ناممکن ہے، لیکن اس میں ایک بات کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ ہم میں سے ہر ایک کی طبائع مختلف ہیں ،تو طبیعتیں مختلف ہونے کی وجہ سے آپس میں اختلاف رائے کابھی انکار نہیں بلکہ لازمی ہے توپھر کیا ہم اس اختلاف رائے کو آپس میں نفرت ،بغض اور لڑائی جھگڑے کی شکل دے دیں؟ہرگز نہیں بلکہ اختلاف رائے ضرور کریں لیکن اتفاق واتحاد کی فضا کو خراب نہ ہونے دیں۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں