ووٹ نہ دینے کا انجام معلوم ہے آپ کو؟

ووٹ کی پرچی بظاہر ایک معمولی سا کاغذ کا ٹکڑا ہے ،مگر اس کی اہمیت کا آپ کو اندازہ نہیں تو جان لیں کہ اگلے پانچ سال یا تو کرپٹ حکمرانوں کے منتخب ہوجانے کی صورت میں آپ پانی، بجلی، سڑکیں، ٹرانسپورٹ، مہنگائی، بے روزگاری ، بدعنوانی، نا انصافی، عریانی و فحاشی، نت نئی بیماریوں ،تعلیم اور دین سے دوری کا سامناکریں گے یا پھر ایک حقیقی اسلامی ، خوشحال ،فلاحی پاکستان چاہیں گے۔کہنے کو تو یہ ایک چھوٹا سا چند منٹ کاعمل ہے جس میں پانچ سال بعد ایک دن ملک بھر میں تعطیل ہوتی ہے ۔اس دن اپنے گھر سے نکل کر عموماًکسی قریبی اسکول کی عمارت میں صبح 8سے شام6کے درمیان جا کر ،شاید کچھ لائن میں لگ کر ،کچھ انتظار کی تکلیف اٹھا کر،اپنا شناختی کارڈ ووٹر لسٹ سے میچ کروا کر ایک کاغذ کے ٹکڑے پر نو خانوں والی ایک مہر احتیاط سے لگا کر ڈبہ میں ڈال دیتے ہیں ۔بات ختم ،لیکن اگر آپ نے ایسا نہیں کیا یا پھر غلط انتخاب کرڈالا تو بہت پچھتائیں گے۔
آپ یقین مانیں قیامت کے دن اس عمل کا پورا حساب ہوگا۔قرآن مجید ( سورۃ النساء) میں اللہ تعالیٰ ہم سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ ’’ امانتیں اہل افراد کے سپر دکرو‘‘۔اس لیے ملک و قوم کے خزانے جو آپ کی دولت سے ،آپ ہی کی خدمت کے لیے بھرے جاتے ہیں اُن کی سپردگی بھی ایک حقیقی امانت ہی ہے ۔اس لیے جا ن لیں آپ اپنا ووٹ جس امیدوار کے حق میں استعمال کریں گے اس کے صحیح اور غلط عمل میں حصہ دار ہونگے ۔ارے ڈریے مت ۔اس چکر میں کہیں گھرنہ بیٹھ جائیے گا، کیونکہ ووٹ نہ دینے کی بھی جواب دہی ہوگی۔اپنے درمیان اہل افراد کو پہچانیں ، ایسے اُمیدوار کو ووٹ دیں جو آپ کے نیکی کے پلڑے کو بھاری کرے ۔
حالات کی تبدیلی چاہتے ہیں تو اپنی رائے کا اظہار کرنا ہوگا۔اس نظام میں اب بھی خرابیاں سہی لیکن فی الحال دستیاب تو یہی ہے، راستہ بھی یہی ہے ۔ دن میں کتنے دوست احباب آپ سے رابطہ کرتے ہیں اور پوچھتے ہونگے کہ فلاں چیز لینی ہے ،کوئی اچھی جگہ بتاؤ۔فلاں بیماری ہے کوئی اچھا ڈاکٹربتاؤ، کپڑے ،چپل لینے ہیں کوئی اچھی دکان بتاؤ ، ہر چیز کی کریڈیبلیٹی ،معیار آپ اپنی عام زندگی میں چیک کرتے ہیں ۔توپھر میرے بھائی اپنے حالات بدلنے کے لیے حکمرانوں کی اچھی طرح چھان بین کیوں نہیں کرلیتے۔کیوں موسیقی کی دھن،مخلوط جلسوں ، ایک پلیٹ بریانی، شور شرابا، رنگ برنگی چکا چوند ، تعصب پر مبنی دلفریب نعروں جیسی بے وقعت چیزوں میں یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ہماری زندگی ، ہماری نسلوں کے لیے اہم ترین فیصلہ ہے۔
چلیں اتنے گنجلک ماحول میں کچھ اعداد و شمار کی روشنی میں آپ کی رہنمائی کرتا ہوں تاکہ آپ یہ نہ کہہ سکیں کہ مجھے پتہ نہیں تھا۔ایک ایسے ماحول میں جب ابھی تازہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے سرکاری خزانے سے پونے دو لاکھ کی چائے صرف دو صحافی ٹیموں کو پلائی ہو۔ ایک ایسے ماحول میں جب وہ پشاور میٹرو بس میں اربوں روپے کی کرپشن کے جواب میں یہ کہہ رہے ہوں کہ ہمیں تجربہ نہیں تھا؟جب ایک پارٹی کا سربراہ جیل میں ہو ، ایک جماعت کے سربراہ کے ’اعلیٰ کردار ‘ پر کتابیں لکھی جا رہی ہوں۔ایک اور جماعت کے سربراہ کوایف آئی اے نوٹس دے چکی ہو۔یہ تو سربراہ کا حال ہے اُن کے نیچے عہدیداروں کا تو اندازہ کرلیں۔
اب ذرا دوسری جانب ، ملک میں قائم دینی جماعتوں کے سب سے بڑے اتحاد متحدہ مجلس عمل پر نظر ڈالتے ہیں۔
*متحدہ مجلس عمل کے موجودہ صدر مولانا فضل الرحمٰن کی شخصیت پر اعتراضات کرنے والے وہ تمام افراد بتائیں کہ کُل ملا کر وہ کتنے الزام لگا سکتے ہیں اُن پر؟
ریکارڈ گواہ ہے کہ آج تک کسی نیب، کسی تحقیقاتی ادارے نے اُن پر کسی قسم کی کرپشن کا الزام بھی نہیں لگایا ، نہ کوئی نوٹس ایشو ہوا۔اُن کے والد بھی ایک صوبہ کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں مگر اُن پر بھی آج تک کوئی حرف نہیں اٹھا سکا۔واضح رہے کہ مسلم لیگ کے بدگو رہنما خواجہ آصف نے 1996میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کوایک غلط اورسیاسی مخالفت کی بناء پر تضحیک آمیزنام سے پکاراتھا اور اسی نام کو بطور پروپیگنڈہ استعمال کیا جاتا رہا ،جبکہ اس کا کرپشن سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اسی طرح *نائب صدر متحدہ مجلس عمل اور امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق ۰ سابق سینئر وزیر کے پی، وزیر خزانہ کے پی) پر کسی بھی قسم کی مالی، اخلاقی، سیاسی ، معاشرتی کرپشن کے الزامات کی کوئی فہرست تو بنائیں؟شاید کوئی ایک بھی نہ مل سکے۔
*مولانا شاہ احمد نورانی ( متحدہ مجلس عمل کے پہلے صدر ) قاضی حسین احمد (ؒ متحدہ مجلس عمل کے دوسرے صدر )ذراِ ان دو شخصیات کے بارے میں کچھ الزامات تو جمع کر کے دکھائیں ۔اپنے بڑوں سے پوچھ لیں، گوگل کرلیں۔اخبارات دیکھ لیں۔
*چلیں 2002میں متحدہ مجلس عمل کی صوبہ سرحد حکومت کی کارکردگی میں کوئی سیاہ نقطہ ہی ڈھونڈ لائیں ۔آپ کیسے عالمی بینک کی جانب سے سراج الحق کی بطور صوبائی وزیر خزانہ اعلیٰ کارکردگی کے اعتراف کو جھٹلائیں گے ؟اُن بجٹ ریکارڈ کو کیسے رد کریں گے جن کے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ کس طرح دیانت و امانت کے ساتھ قوم کا پیسہ خرچ کیا گیا عوامی منصوبوں پر۔
آج پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کو بدترین خطرات لاحق ہیں ۔ ان خطرات کا مقابلہ کبھی بھی چور ، بدعنوان، نا اہل اور کرپٹ لیڈر شپ نہیں کر سکتی ۔نہ ہی وہ لوٹے کر سکتے ہیں جو اقتدار کے لالچ میں ایک سے دوسری پارٹی میں چھلانگیں لگا رہے ہیں ۔اسلامی قوانین خصوصاً ناموس رسالت ﷺ کے قانون کے درپے قوتوں کا سامنا اور مقابلہ کبھی بھی سیکولر و لبرل نہیں کر سکتے ۔معاشی طور پر پاکستان کو جس غلامی میں دھکیلا گیا ہے اُس کے لیے ایسی قیادت ہی درکار ہے جو سابقہ حکمرانوں کی طرح عیاش نہ ہو۔عوام کا درد رکھنے والے ، عوام کے درمیان بسنے والے ہی عوام کے لیے کچھ کر سکتے ہیں ۔
متحدہ مجلس عمل میں شامل تمام جماعتوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ بطور خلیفتہ اللہ فی الارض ، خالق کائنات کی جانب سے اس کی کتاب کے نظام کو قائم کرنا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے ۔ اس کتاب میں ہمارے لیے کامیاب سیاست، معیشت، معاشرت، خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی سمیت تمام اصول بیان کیے گئے ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ جب اس زمین پر اللہ کی کتاب کا نظام نافذ ہوا تو آسمان و زمین سے رزق ،امن اور خوشحالی کے دروازے کھلے ۔یہ منظر بھی تاریخ میں رقم ہے کہ اس کتاب کے نظام کی برکت سے لوگ ٹوکروں میں زکوۃ لیے پھرتے اور خوشحالی کا عالم یہ ہوتا کہ کوئی ضرورت مند لینے والا نہ ہوتا۔
اس لیے متحدہ مجلس عمل نے اپنے انتخابی نشان یعنی ’کتاب‘ کو اپنے نظریات ، فکرسے ہم آہنگ اور اپنے منشور ،پالیسی کو سمجھانے کے لیے عوام الناس میں ابلاغ کیا ہے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل قرآن مجید کے نظام کونافذ کرنے میں ہے۔یہ بات آئین پاکستان میں موجود قرارداد مقاصد سے بھی ہم آہنگ ہے ۔
متحدہ مجلس عمل نے جو عوامی فلاحی منشور پیش کیا ہے وہ پاکستان کی خوشحالی اورترقی کا حقیقی ترجمان ہے ۔جس میں قانون کی مکمل حکمرانی ہوگی اور عدل و انصاف سب کو بلا تفریق اور آسانی سے دستیاب ہوگا۔ہر شہری کے لیے لباس، خوراک ،مکان، تعلیم کے ساتھ روزگار بھی ہوگا۔قومی دولت لوٹنے والوں کا بے لاگ احتساب ہو گا کیونکہ جب احتساب کرنے والے کا دامن پاک ہوگا تب ہی ایسا ممکن ہوگا ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ ایک چور نے دوسرے کو راستہ ہی دیا ہے ۔توانائی اور پانی کی کمی کا مسئلہ جامع منصوبوں کے ساتھ دور کیا جائے گا،اختیارات کی منتقلی نچلی سطح تک ہوگی۔سودی نظام کا خاتمہ ہوگا اور اُس کی برکات سے پورا ملک معاشی ترقی کے پھل سے فیضیاب ہوگا۔پانچ بڑی بیماریوں کا مفت علاج کیا جائے گا۔دیانت دار افراد کے آنے سے کرپشن ، بے ایمانی، لوٹ مار ، کمیشن کلچر، رشوت ،ملاوٹ ختم ہوگی تو مہنگائی کی شرح بھی نیچے آئے گی ۔ایٹمی صلاحیت کا مکمل تحفظ کرتے ہوئے اسلامی ممالک کاموثر بلاک بنایا جائے گا۔اقلیتوں کے تمام حقوق کا تحفظ ہوگا جو اسلام نے مقرر کیے ہیں ۔
یہ سب خواب نہیں حقیقت بن سکتا ہے کیونکہ اس پر عمل کرنے کے لیے آپ کے سامنے متحدہ مجلس عمل کاکوئی بھی اُمیدوار کرپٹ، لوٹا ، بے ایمان، نہیں ہے بلکہ ایک تعلیم یافتہ، باصلاحیت ، خوف خدا رکھنے والا انسان ہے ۔یقین مانیں۔کتاب کودیے جانے والا ووٹ نہ دُنیا میں آپ کو شرمندہ کرے گا نہ ہی آخرت میں رُسوا ہونے د یگا۔

حصہ
mm
سلمان علی، یوں تو ابلاغ عامہ میں ڈاکٹریٹ کی کوششوں میں مصروف ہیں،تاہم اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے کچھ وقت مشقِ سخن کےلیے بھی نکال لیتے ہیں،سہ ماہی جہان اعصاب،ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل، سنڈے میگزین و دیگر جرائد میں لکھتے رہتے ہیں،سوشل میڈیا اورصحت عامہ سے متعلق موضوعات کے گرد رہنا پسند کرتے ہیں۔...

جواب چھوڑ دیں