ووٹ کو بیچنا مت

پاکستان کی جمہوریت کو معلوم ہے کیوں استحکام نہیں ملا ؟کیوں کہ پاکستانیوں کے گھروں میں جلنے والے چولھوں کو مکمل طور سے جلنا میسر نہیں آیا۔ اگر یہ چولھے بدستور جلتے رہتے ان چولھوں کے آس پاس بیٹھے لوگوں کو چولھے پر پکنے والے کھانے سے پیٹ بھر کھانا ملتا رہتا تو شائد پاکستان مستحکم ہوجاتا ۔ ہر جماعت انتخابات سے قبل انتخابی منشور پیش کرتی ہے۔یہاں اس بات کو اجاگر کردوں کے اقتدار کے حصول کیلئے بنائے گئے منشور کی سمجھ علم والوں کو نہیں آتی تو آدھی سے زیادہ قوم تو تعلیم کے آس پاس بھی نہیں بھٹک پارہی تو اتنے طویل اور ضخیم منشور کیسے سمجھ آئے گا،پھر سوچنے اور سمجھنے کیلئے تو وقت درکار ہوتا ہے مزدوروں کے اس دیس میں جنہیں سورج کے نکلنے کا تو پتہ چلتا ہے لیکن محنت مشقت میں مگن ہم لوگوں کو سورج کے ڈھلنے کا پتہ نہیں چلتا اتنی محنت اور انتھک مشقت کے باوجود دو وقت کی ہی روٹی اپنے بچوں کو دے پاتے ہیں، ہم لوگ کہاں منشور کے چکر میں الجھ سکتے ہیںیا اس کی بنیاد پر اپنے حکمران چن سکتے ہیں ۔ یہ وہ ایک بنیادی وجہ ہے کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔نا علم ہوگا نا اچھے برے میں فرق پتہ چل سکے گا۔ہاں بس انتخابات کے دنوں میں جہاں زیادہ کھانے پینے کا سلسلہ چل رہا ہوگا تو ظاہر سی بات ہے ووٹ بھی اسی کا ہوجائے گا۔ بہت دکھ اور افسوس کیساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ ایک پلیٹ چاول یا دو روٹی قورمہ کے ساتھ مل جانا ہی ووٹ دینے کیلئے کافی سمجھا جا سکتا ہے ۔بھوک کے بدلے ووٹ مانگتے ہیں کیسے ظالم لوگ ہیں۔
لیکن حالات اور واقعات اب یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اب ووٹر اپنا ووٹ ایک وقت کے کھانے میں نہیں بیچے گا بلکہ اب ووٹر اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو مد نظر رکھ کر اپنا قیمتی ووٹ ڈالے گا۔ آئیں ذرا یہ بھی دیکھ لیں کہ ہماری بنیادی ضروریات کیا ہوسکتی ہیں یہ ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہونا چاہئے کیونکہ جب تک ہمیں یہی نہیں پتہ ہوگا تو ہم کیسے اس بات کا اندازہ لگائیں گے کہ کس کی اہلیت کیا ہے ۔ ہماری اولین اور بنیادی ضروریات میں پانی کی فراہمی کا باضابطہ جدول ، بڑھی ہوئی آبادی اور رہائشی منصوبوں کیساتھ نکاسی آب کا بہترین بنیادی ڈھانچے کے ہونے کو یقینی بنانا، بجلی اور گیس کی بغیر تعطل کے فراہمی کو یقینی بنانا، ملک میں ٹریفک کا مسئلہ بھی دیگر مسائل کے شانہ بشانہ کھڑا ہوچکا ہے جس کیلئے نا صرف ٹریفک قوانین میں ترامیم اور انکا بھرپور اطلاق اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے انتہائی ضروری ہوچکا ہے ساتھ ہی لوگوں میں ٹریفک کا شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ، برائے مہربانی یہ پیسے بانٹنے بند کریں کسی بھی پروگرام کے قطعی کسی کو پیسے نا دیئے جائیں بلکہ چھوٹی چھوٹی صنعتیں لگائی جائیں اور وہاں لوگوں کو روزگا ر دیا جائے جس سے اپنی محنت اور مشقت سے ملک کو بھی فائدہ پہنچائیں اور اپنے خاندان کی پرورش بھی رزق حلال سے کریں ناکہ انہیں بھکاری بنا کر چھوڑدیں۔ تھانہ کلچر سے نجات دلائی جائے پولیس کو حقیقی معنوں میں عوام کا خدمت گزار ہونا چاہئے نا کہ عوام خصوصی طور پر شریف لوگ پولیس کو دیکھ کر راستہ نا بدل لیں۔ سرکاری اداروں میں اخلاقیات کا فقدان ہے کہ بدعنوانی عروج پر ہے اس سے نمٹنے کیلئے واضح اور جامعہ حکمت عملی پیش کی جائے ۔یکساں تعلیمی نظام کے لئے بھرپور کوششیں کی جائیں گی اور ایک ایسا تعلیمی نظام رائج کیا جائے گا جو سب پاکستانیوں کیلئے ہو۔اسکولوں اور مساجد کو آبادی کے لحاظ سے تقسیم کیا جائے گا ہر کسی کو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد یا اسکول بنانے کی قطعی اجازت نہیں دی جائیگی۔
یہ وہ چند عوامل ہیں جن پر بھرپور توجہ کی ضرورت ہے ۔ آپ لوگوں کو کہیں سے تو بہتری کی امید دلائیں ، آپ جس حلقے سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں وہاں رہیں اور معمول کی زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں عوام کو یہ باور کرائیں کہ آپ کوئی خلائی مخلوق نہیں ہیں کہ آپ کی گاڑیوں کے شیشے کالے اور ساتھ اسلحہ بردار لوگ اس بات کی دلیل ہوتے ہیں کہ آپ نے کہیں نا کہیں بدعنوانی کر رکھی ہے جسکی وجہ سے آپ کو کسی خطرے نے گھیرا ہوا ہے۔
ہم پاکستانیوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ووٹ ایک انمول حیثیت کی چیز ہے اس کی بولی نہیں لگنی چاہئے اس کا تعلق ہمارے ضمیر سے ہے اس کا تعلق ہماری عزتوں سے ہے۔ یہ ایک ایسی چابی ہے جو ہمارے مستقبل کا راستہ کھرا یا کھوٹا کرسکتی ہے۔ ہم کب تک یونہی اپنے ووٹ کبھی اپنی انا کو دے دیتے ہیں، کبھی روٹی کو دے دیتے ہیں تو کبھی کسی کو،اب کی بار ذرا سا سوچ لیجئے کہ ہم نے کبھی پاکستان کیلئے ووٹ دیا ہے یا پھر ہم نے ہمیشہ اپنا ووٹ بیچا ہے ۔ جلسے جلوس ختم ہوچکے ہیں شور شرابا ختم ہوچکا ہے اب بیٹھ جائیے اور کچھ وقت اپنے اطراف کا جائزہ لیجئے اپنے بچوں کی طرف دیکھئے اور آئینے میں کھڑے ہوکر خود کو دیکھئے، راستوں کو سوچئے ، گلیوں کو سوچئے ، تھوڑی سی دیر کی بات ہے اچھی طرح سوچ سمجھ لیجئے ۔ ووٹ تو ڈالنا لازمی ہے لیکن ووٹ ڈال کر اپنے اوپر کہیں کوئی بوجھ نا لاد لیجئے گا۔ آخری فیصلہ اب بھی ووٹر کا ہی ہوگا۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں