جنون انسانی خون مانگتا ہے

انتقام اور وہ بھی خونی، اس کی آگ اس وقت تک سرد نہیں ہوتی جب تک انسانی خون دریا کی طرح نہ بہادیا جائے بلکہ سچی بات یہ ہے کہ بعض اوقات انسانی خون کا ہر قطرہ اس آگ کو سرد کرنے کی بجائے اور بھڑکا دیتا ہے۔ اوس و خزرج کا جب بھی ذکر آتا ہے تو ان کے درمیان ہونے والے خونی کھیل کو جو چالیس برس سے بھی زیادہ کھیلا جاتا رہا، جہالت کا نام دیکر دل کو بہلالیا جاتا ہے لیکن اس پڑھے لکھے دور میں لوگ ویتنام، فلسطین، کشمیر اور افغانستان میں نہ ختم ہونے والی خونریزی کو کیا نام دیں گے۔ پاکستان میں سقوط ڈھاکہ جیسے خونخوار واقعات کو کس نام سے پکاریں گے اور 1958 سے جاری فوجی اور سویلین رسہ کشی میں ہونے والے مسلسل خون خرابے کو کس خانے میں فٹ کریں گے۔

لگتا ہےخون خرابے کے اس کھیل کا تعلق کسی کے جاہل ہونے یا بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ملک نے اس دنیا میں ہونے والی سب سے بڑی جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے ہیرو شیما اور ناگاساگی کو پلک جھپکتے میں راکھ کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا تھا۔ لاکھوں انسانوں کو لقمہ اجل بنانے کے بعد بھی اس کے دل میں دنیا کے دوسرے ملکوں کے خلاف انتقامی جنون کی آگ تاحال ٹھنڈی ہو کر نہیں دے رہی ہے بلکہ انسانی خون کے ہر قطرے کے ساتھ انتقامی شعلوں کے لپٹے بلند سے بلند تر ہوتے چلے جارہے ہیں اور یہ شعلے اس وقت تک بلند سے بلند تر ہوتے رہیں گے جب تک وہ خود بھی اسی آگ کی لیٹ میں آکر جلی ہوئی راکھ میں تبدیل نہ ہوجائے۔

اتنی خوفناکیت میں شاید کسی کو ہنسی مذاق کی یہ بات جس کو میں بیان کرنا چاہ رہا ہوں سخت ناگوار گزرے لیکن جب انسان کی بے بسی اس کو پاگل کردے تو پاگل جو کچھ بھی بک جائے اس کو سننا ہی پڑتا ہے۔ اس لئے کسی کو گوارہ ہو یا ناگوار، ایک بے کس اور پاگل کی بات کو سننا بھی پڑے گا اور گوارہ بھی کرنا پڑے گا۔

ایک عدالت میں ایک خاتون نے ایک مقدمہ دائر کیا کہ اس کے شوہر نے اس کو ایک تھپڑ مارا ہے لہٰذا اسے انصاف فراہم کیا جائے۔ یہ “اسلامی  جمہوریہ پاکستان” کی عدالت تو تھی نہیں کہ خنجر کے 27 چرکے کھانے والی عورت کے مجرم کو یہ کہہ کر چھوڑدے کہ “خاتون صاحبہ، جانے دیں، زندگی میں خواتین کے ساتھ نہ جانے کیا کیا ہوجاتا ہے آپ تو ابھی تک زندہ سلامت ہیں”۔ خواتین کے حقوق کی حفاظت کرنے والی عدالت نے شوہر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے پولیس کو حکم دیا کہ شوہر کو ہر صورت میں عدالت کے رو برو حاضر کیا جائے۔ چنانچہ مقررہ تاریخ اور وقت پر شوہر کو عدالت میں اس حالت میں پیش کیا گیا کہ وہ اسٹریچر پر تھا اور اس کے جسم کا کوئی عضو بھی ایسا نہیں تھا جو سفید پٹیوں سے آزاد ہو سوائے ناک، کان، منھ اور آنکھوں کے تاکہ وہ دیکھ سکے، سن سکے، کھا پی سکے اور سانس لے سکے۔ اس خاتون کے شوہر کو اس حالت میں دیکھ کر جج صاحب محاورتاً نہیں حقیقتاً اچھل پڑے اور خاتون سے اضطراری طور پر چیختے ہوئے کہا کہ کیا اس شخص نے تمہیں مارا ہے؟۔ خاتون نے نہایت اطمنان اور سکون کے ساتھ جواب دیا، جی ہاں، لیکن یہ مارنے سے پہلے اس حالت میں نہیں تھا۔

میں نے ایک کالم “الیکشن یا ناک” میں صاف صاف لکھ دیا تھا کہ جب تک وہ ادارہ جو الیکشن کے نتائج اپنے مرضی کے نکلوانے پر تلا ہوا ہے، وہ اس وقت تک اس ملک میں الیکشن نہیں ہونے دیگا جب تک اسے اس بات کا یقین نہ ہوجائے کہ نکلنے والے نتائج اس کی مرضی کے مطابق ہی ہیں۔ نتائج کیا آنے ہیں اور کیا نہیں، لیکن اس کے دل میں خوف و دہشت کی وہ پھانس جو بار بار اسے دہشت زدہ کئے ہوئے ہے کہ شاید اس مرتبہ عوام کا لب و لہجہ اور ارادہ اور ہی کچھ ہے، نکل کر نہیں دے رہی۔ نواز شریف اور مریم نواز کی واپسی نے زمین پیروں تلے اور کھسکائی ہوئی ہے۔ ان کو تحریر سے بھی روک دیا گیا ہے، تصویر اور تقریر پر بھی پابندی لگادی گئی ہے، ہر قسم کے میڈیا کو بھی سخت ترین ہدایات جاری ہیں کہ کوئی ایسی تحریک نہ پیدا کی جائے جو “ن” کیلئے ایندھن کا کام کرے لیکن دل میں جو کھٹک ہے وہ جا کر ہی نہیں دے رہی اور ایک نامعلوم دھڑکا ہے جو دل کے ساری دھڑکنوں کو بار بار اوپر نیچے کئے ہوئے ہے۔

بات فقط اتنی ہے کہ جب خلاف آئین و قانون اور دل و ضمیر کے خلاف کوئی کام سر انجام دیا جاتا ہے تو فطرت اس کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن جایا کرتی ہے اور اس کے کچواس پر سکون کی نیند بھی حرام کر دیتے ہیں۔ کچھ یہی حال ہمارے ایک مخصوص ادارے کا ہو کر رہ گیا ہے جو اپنی تمام تر منصوبہ بندیوں کے باوجود بھی اپنی کامیابیوں کیلئے مطمئین نہیں اور ہر اس فرد کو جو اس کے کامیاب امید واروں کی ناکامی کا سبب بن سکتا ہو، کسی نہ کسی بہانے راستے سے ہٹانے میں سرگرم عمل ہے۔

اسے اب اس بات کی بھی کوئی پروہ نہیں رہ گئی ہے کہ اس کا یہ طرز عمل پاکستان کی کتنی جگ ہنسائی کا سبب بنا ہوا ہے اور اس کی بندوق کی نوک پاکستان کی عدلیہ کو بھی دنیا میں مذاق بنا کر رکھے ہوئے ہے اور دنیا حیران ہے کہ پاکستان میں یہ سب کیا ہو رہا ہے۔

خبر ہے کہ شیخ رشید کی راہ کا سب سے بڑا کانٹا، حنیف عباسی نہ صرف الیکشن لڑنے سے معذور کر دیا گیا ہے بلکہ اسے زندگی بھر کی قید کی سزا بھی سنادی گئی ہے۔ یہ کیسا پاکستان ہے جہاں ایفاڈرین تو ایسا نشہ ہے جس کی خرید و فروخت گناہ عظیم ہے جبکہ اسے دواسازی میں اس طرح استعمال کیا جاتا ہے جیسے “الکوہل” لیکن شراب جس کو قرآن حرام کہتا ہے اور ام الخبائث کا نام دیتا ہے وہ ملک کے طول و عرض میں اسلامی جمہویہ پاکستان کے اجازت نامے (لائسنس) کے ساتھ 24 گھنٹے نہ صرف فروخت کی جاتی ہے بلکہ پاکستان میں یہ اتنی وافر مقدار میں موجود ہے جتنی تعداد میں پینے کا صاف پانی بھی عوام کو میسر نہیں۔ یہی وہ عدالت ہے جس میں ایک شخص کو دواؤں میں استعمال ہونے والے کیمیکل فرخت کرنے پر عمر قید کی سزا سنادی جاتی ہے لیکن وہی عدالت ایک شخص کی یہ درخواست کہ جو لوگ بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ان سب کا خون ٹسٹ ضروری سمجھا جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہ “شراب” بینے کا عادی تو نہیں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی یہی عدالت اس نیک انسان کی درخواست یہ کہہ کر خارج کر دیتی ہے کہ پاکستان کے آئین میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جس میں شراب پینے والے کو الیکش لڑنے سے نااہل قرار دیدیا جائے۔ وہی شخص جب حوالہ دیتا ہے کہ 62-63 میں گناہ کبیرہ کا مرتکب “صادق اور امین” نہیں تو اس کی اس بات پر کوئی توجہ دیئے بغیر کیس کو عدالت سے خارج کر دیا جاتا ہے۔

میں کسی بھی قسم کی نشئی شے کو خواہ وہ الکوہل ہو، چرس ہو، کوکیکن ہو، ہیروئن ہو، بھنگ ہو یا ٹھرا، سب کو حرام سمجھتا ہوں اور کسی بھی نشئی یا نشہ کرنے والے کی حمایت میں کوئی ایک لفظ تو کیا، اشارہ ابرو کو بھی انتا ہی بڑا گناہ سجھتا ہوں جتنا بڑا گناہ کا ایسا گناہ کرنے کا مرتکب ہوتا ہے اس لئے حنیف عباسی کو جو سزا ملی شاید وہ اس کی موت سے بھی کم ہو اس لئے کہ جن جن افراد کے ہاتھوں ہوتی ہوئی یہ ایفاڈرین  لوگوں کی رگ و پے میں اتری ہوگی وہ سب لوگ اس قابل ہی نہیں رہے ہونگے جو دنیا میں نشے کے علاوہ کچھ اور کر اور سوچ بھی سکتے ہوں۔ پھر یہ کہ نشہ میں ایک انسان کیا کرتا ہے اور کیا کچھ کر سکتا ہے، اس کا احساس اور علم ہر ذی عقل کو خوب ہے۔ اگر حنیف عباسی نے اس کو “دوا” کے علاوہ بھی کسی اور مقصد کیلئے فروخت کیا ہے تو اسے جو بھی سزا سنائی گئی ہے وہ اس کے گناہ اور جرم سے کم ہے لیکن میرا سوال صرف اتنا ہے کہ یہ کیس ابھی کا تھا؟۔ اس مقدمے کو تو سال ہا سال بیت چکے تھے تو کیا چار دن اور صبر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مطلب تو پھر یہی نکلے گا کہ جو جو بھی “مرضی” کی راہ میں حائل ہوگا اور اس کو کسی نہ کسی صورت “صاف” کیا جا سکتا ہوگا، صاف کر دیا جائے گا؟۔

پھر ذرا اس جانب بھی توجہ دی جائے کہ اگر فیصلہ ہوجانے کے بعد “محفوظ” ہی کرلیا گیا تھا تو اعلان کے مطابق دن کے ساڑھے 11 بجے کی بجائے رات کے ساڑھے 11 بجے تک کس نے روک کر رکھا۔ ایک عدالت جس کے متعلق “ترجمان” بار بار یہ بات دہراتا نظر آتا ہے کہ ہمارا کوئی دباؤ اس پر نہیں تو وہ کون سا دباؤ تھا جو ایک “محفوظ” فیصلے کو سنانے میں 12 گھنٹے تاخیر کا شکار رہا۔ ایسا کچھ پہلی بار نہیں ہو رہا، ماضی میں اور اب بالکل حال میں ایسا ایک تسلسل کے ساتھ ہوتا رہا ہے اور ہو بھی رہا ہے۔

حنیف عباسی اب الیکشن میں قصہ ماضی بن چکے ہیں اور جرم ہے کہ وہ نشہ فروخت تھے لیکن کیا اسی نشست پر ایک زنا کا اقراری مجرم “شیخ رشید” کیلئے بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی سزا ہے یا نہیں؟۔ یا تو مجھے سنگسار کیا جائے کہ میں بہتان لگا رہا ہوں یا پھر مجھے شیخ رشید کے ایک جملے کا مطلب سمجھا یا جائے۔ ایک ٹی وی انٹر ویو میں اینکر کے ایک سوال “آپ شادی کیوں نہیں کرتے” کے جواب میں فرماتے ہیں “جب بازار میں بھینس کا دودھ دستیاب ہو تو بھینس رکھنے کی کیا ضرورت ہے”۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ انتقام کی آگ کو انسانی لہو کی وہی آگ ٹھنڈا کر سکتی ہے جو خود اس کو بھی بھسم کر کے رکھ دے۔ جس طرح ایک خاتون کی انتقامی کارروائی بھی اس کے دل کی تسکین نہ بن سکی اسی طرح ایک مخصوص ادارے کی “ناک” کا سوال پورے پاکستان کو تباہ و برباد کرتا نظر آرہا ہے۔ دنیا ہنس رہی ہے، ادارے کو اب عام لوگ ہی نہیں، عدالتوں کے ججز بھی روک ٹوک رہے ہیں، سوشل میڈیا ٹھٹھے لگا رہا ہے، بین الاقوامی مبصرین زہریلی مسکراہٹیں بکھیر رہے ہیں پھر بھی اس بات کا دور دور تک کوئی امکان نہیں کہ ادارہ اپنا رویہ تبدیل کرے۔ اب تو ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے آسمان ہی سے کوئی فیصلہ اترے تو اترے فی الحال جو زمین والے ہیں ان کے جسم پر بے ضمیری نے زنجیریں خوب اچھی طرح جکڑی ہوئی ہیں جن کو کوئی معجزہ ہی توڑے تو توڑے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں