مجھے یہ تو معلوم نہیں کسی بات کو بار بار دہرائے جانے کا کیا مطلب ہوتا ہے اور نہ ہی اس بات کی خبر کہ ترجمان پاک فوج کا وضاحتی بیان اسلام آباد ہائی کورٹ کے تحریری حکم نامے کے پس منظر میں ہے جس میں آرمی چیف سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے لوگوں کو ججز کو ڈرانے دھمکانے سے روکیں اور دباؤ ڈالنے اور اپنی مرضی کے “بینچ” تشکیل دینے کی کوششوں نہ کیا کریں۔ حسب سابق پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے دہرایا ہے کہ “عام انتخابات میں براہ راست مداخلت نہیں کر رہے، سول اداروں کو مضبوط بنانے اور انہیں تعاون فراہم کرنے کی کوشش میں ہیں”۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ماضی قریب میں سابق امیر جماعت اسلامی جناب سید منور حسن نے ایک بیان دیا تھا جو بظاہر عسکری ادارے کے فیور میں نہیں تھا یا باالفاظِ دیگر “ریاست” کی بنیادوں کو نقصان پہنچانے کے مترادف تھا۔ ان کے اس بیان کے فوراً بعد، بلاتوقف، پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے اس بات کی وضاحت طلب کی گئی تھی کہ جماعت اسلامی اس بات کی وضاحت کرے کہ سید منور حسن نے جو بیان دیا ہے جو “ریاست” دشمنی کے مترادف ہے، یہ ان کا ذاتی حیثیت میں بیان ہے یا جماعت اسلامی کی پالیسی ہے؟۔ جناب امیر جماعت اسلامی کی جانب سے بھی کسی توقف اور تامل کے بغیر بحیثیت جماعت اسلامی کے امیر، بلا خوف و خطر دلیرانہ جواب جاری ہوا تھا جس میں واشگاف الفاظ میں کہا گیا تھا کہ عسکری ادارہ کیا وضاحت طلب کرنے کا کوئی قانونی اختیار رکھتا ہے؟۔ میں سابق امیر جماعت اسلامی جناب منورحسن کے جواب الجواب پر کسی قسم کا تبصرہ کئے بغیر اتنا عرض کرنا چاہونگا کہ جواب الجواب کے بعد اس بات کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہجاتی تھی کہ اس کو جماعت اسلامی کی پالیسی نہ سمجھا جائے نیز یہ کہ کیا ترجمان کا بیان “مداخلت” میں شمار نہیں کیا جائے گا؟۔
میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ میں سابقہ جواب اور اس کے بعد جوب الجواب پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہونگا لیکن یہ جو موجودہ دہرایا جانے والا بیان ہے کیا اس کے ہر لفظ میں “دخل اندازی” موجود نہیں؟۔
پاکستان کے کس آئین میں عسکری ادارے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ سیاستدانوں کی تربیت کرے، ان کی کمزوریوں کو دور کرکے ان کو اس قابل بنائے کہ وہ اچھی “حکومت” چلاسکیں اور یہ کہ وہ “تعاون” فراہم کریں۔ پاکستان ہی کیا، دنیا کے ہر ملک میں جتنے بھی ادارے ہوتے ہیں وہ حکومت کے تابع ہوتے ہیں۔ کوئی ادارہ بھی ایسا نہیں ہوتا جس کو “حکومت” پر بر تری حاصل ہو۔ حکومت اور ریاست اس حد تک ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں کہ اگر فوجی حکومت (مارشل لا) بھی آئے تو اس کو بھی فوری طور پر حکومت تشکیل دینا پڑتی ہے اس لئے دنیا کی تاریخ میں اور اس روئے زمین پر آج تک کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جس کی کوئی “حکومت” ہی نہ ہو۔ حکومت کا دوسرا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں ہوتا جو یہ دعویٰ کرے کہ اصل طاقت اس کے پاس ہے اور اس کے فرایض میں یہ بات شامل ہے کہ وہ “حکومت” کو مستحکم کرے اور مزید احسان کرتے ہوئے جب وہ “تعاون” طلب کرے تو وہ تعاون “فراہم” کرے۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی مملکتیں ہیں وہ نہ تو عسکری اداروں کی محتاج ہوتی ہیں کہ وہ ان کو مضبوط کریں اور نہ ہی وہ تعاون طلب کیا کرتی ہیں۔ وہ ملک کے سارے اداروں کو مضبوط و مستحکم بناتی ہیں اور حکم دیا کرتی ہیں تعاون طلب نہیں کیا کرتیں۔
یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا تو ریاستیں مضبوط، باوقار اور طاقتور بنیں گی ورنہ اس بات کا کوئی امکان ہے ہی نہیں کہ ریاستیں اپنا وجود برقرار رکھ سکیں اور دنیا میں باوقار کہلائیں۔ یہ ایک بہت سیدھا اور سادہ سا اصول ہے اور اس کو جتنی جلد تسلیم کر لیا جائے گا، پاکستان مضبوطی کی جانب گامزن ہو جائے گا۔
موجودہ الیکشن بھی ایک طرح کے الیکشن کی بجائے ریفرنڈم کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اگر تمام تر ایسی کوششیں جو بقول ترجمان سول حکومت کو “مضبوط” بنانے کیلئے کی جارہی ہیں، نتائج اس کے بر عکس نکلیں اور عوام کسی ایسی حکومت کی تشکیل کے حق میں فیصلہ دیدیں جو دو تہائی اکثریت رکھنے کے باوجود بھی کمزور، جاہل، نکمے اور نااہل لوگوں پر مشتمل ہو تو پھر “ناک” کے مسئلے کا کیا بنے گا۔ میرے نزدیک اس کے دو ہی راستے ہیں۔ یا تو مطیع ہوجانے کا فیصلہ کر لیا جائے یا پھر سب کا تختہ کر دیا جائے۔ یقین مانیں پاکستان میں سب لوگ عسکری طاقتوں کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں ماضی کی طرح “مستحکم” ترین حکومت قائم ہو جائے گی اور پاکستان دنیا کے صف اول کے ممالک میں ٹھیک اسی طرح شامل ہوجائے گا جس طرح ماضی میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔
افواج پاکستان کی ہر قسم کی الیکشن یا سیاسی مداخلت والی بات جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ امور کے اجلاس میں جی ایچ کیو کے نمائندے کی حیثیت سے پیش کی۔اجلاس میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کوآرڈینیٹر، وفاقی سیکرٹری داخلہ و دفاع، سیکرٹری الیکشن کمیشن، چاروں صوبوں کے آئی جیز و سیکرٹری داخلہ سمیت اہم اراکین نے شرکت کی۔کمیٹی نے آئی جی پنجاب اور سیکرٹری داخلہ پنجاب کی غیرحاضری پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ آصف غفور نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ فوج الیکشن کمیشن کی ہدایت پر امن و امان کی صورتحال بہتر رکھنے کے لیے کام کر رہی ہے،الیکشن کے عمل یا نتائج پر براہ راست اثر انداز ہونے کی کوشش کا تاثر درست نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ 3 لاکھ 71 ہزار فوجی جوان ملک بھر کے پولنگ اسٹیشنز پر تعینات ہوں گے،کچھ افواہیں تھیں کہ فوجی جوانوں کو مختلف احکامات جاری کیے گئے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی کے حوالے سے ہم نے ہر جگہ کا تجزیہ کیا ہے، پلاننگ کا معاملہ ہم پر چھوڑدیں، ہمیں پتا ہے کہ کس جگہ کتنے افرادتعینات کرنے ہیں،جب تک پولیس کی استعداد نہیں بڑھتی،ہمیں پولیس کی ڈیوٹی بھی دینی ہے۔ ترجمان کے بقول فوج کسی سیاستدان کی سیکورٹی کی براہ راست ذمے داری نہیں لے رہی، سیاسی امیدواروں کی سیکورٹی حکومت کی اور الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔
تبصرہ و تنقید اپنی جگہ، لیکن یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ عسکری ادارہ ملک کے امن و امان کے لحاظ سے نہایت چاق و چوبند اور فکر مند ہے۔ ادارے کی پوری پوری کوشش ہے کہ الیکشن کے دنوں میں کوئی ایسی بات جو امن و امان کی صورت حال کے بگاڑ کا سبب بنے، پیدا نہ ہوسکے اور پورے ملک میں پولنگ کا عمل نہایت امن اور سلامتی کے ساتھ مکمل ہو جائے۔ رہی یہ بات کہ پولیس کا ڈپارٹمنٹ کب اس قابل ہوگا کہ وہ حالت امن میں شہروں کو ٹیک اوور کرسکے، بڑی تشویش ناک ہے اس لئے کہ یہ بالکل ایسا ہی معاملہ ہے جیسے ہسپتالوں میں کامیاب آپریشنز کے بعد نہ تو “ریکوری” کا عملہ ہو اور نہ ہی ہسپتال میں آئی سی یو والے ہوں تو کیا اس مریض کا زندہ رہنا جس کا آپریشن کیا جاچکا ہو، یقینی بنایا جا سکتا ہے؟۔
یہ بات تو سنتے سنتے سر کے بالوں میں چاندی اتر آئی ہے کہ پولیس کا ڈپارٹمنٹ اتنی استعداد کار نہیں رکھتا کہ وہ حالت امن میں بھی شہروں کو سنبھال سکے لیکن آج تک ہم نے یہ نہیں دکھا کہ پولیس کو اس قابل بنانے میں کوئی توجہ دی گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے وہ عسکری ادارے جن کا کام سرحدوں کی محافظت ہے وہ شہروں میں پولیس کی دیوٹیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ حیران ہوں کہ یہ مجبوری آخر کب ختم ہوگی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پولیس کے کردار کو فعال بنائے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں، اس جانب سے گزشتہ چالیس پچاس سال سے کوئی توجہ نہ دینا کیا پاکستان کو مضبوط بنانے کی حکمت عملی ہے؟۔ جب بنا پولیس کی استعداد کار بڑھائے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا تو یہ لازمی ہے کہ اس شعبے پر جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے۔
ایک جانب تو یہ صورت حال ہے کہ دنیا اس تذبذب کا شکار ہے کہ آیا پاکستان میں اصل “مقتدر اعلیٰ” کون ہے اور دوسری جانب دنیا مسلمانوں اور اسلام کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہے۔ ایک تسلسل کے ساتھ سماجی ویب سائیڈ پر اسلام، مسلمانوں اور شعائر اسلام کا مذاق بناکر مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا جاریا ہے اور ان کو مشتعل کرنے کی کوشش جاری ہے۔ توہین آمیز خاکوں کے بعد دیگر بد گوئی کا سلسلہ تو جاری ہی تھا لیکن اب اسلام مخالف کارٹونوں کا ایک نیا فتنہ کھڑا کیا جا رہا ہے جو مسلمانوں کے جذبات کو بر افروختہ کرنے کے مترادف ہے۔ خبر کے مطابق پاکستان نے اسلام مخالف کارٹونوں کی اشاعت پر شدیداحتجاج کیا ہے۔ جمعرات کو پریس بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان دفترخارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے بتایا کہ ہالینڈ کی سفیر آرڈی اوس براکن کو طلب کرکے اسلام مخالف کارٹون مقابلے پر شدید احتجاج ریکارڈ کروایا گیا ہے جبکہ یورپی یونین کے سفیر جین فرانسسکو کوٹین کو بھی طلب کرکے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر احتجاج کے لیے دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانوں نے بھرپور اقدامات کیے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان نے ڈچ سفیر پرواضح کردیا ہے کہ کارٹون مقابلے عالمی سطح پر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور اشتعال پھیلانے کا باعث بنیں گے۔ترجمان کے مطابق اس سلسلے میں وزیر خارجہ عبداللہ حسین ہارون نے سیکرٹری جنرل اوآئی سی کو خط لکھا ہے اور او آئی سی کا اجلا س بلانے کی تجویز پیش کی ہے جب کہ مسلم ممالک کے سفیروں کوبھی احتجاج کرنے کے بار ے میں تجویز دینے پر غور کررہے ہیں۔
ایک تسلسل کے ساتھ اس قسم کے واقعات عالم اسلام کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہیں۔ تمام عالم اسلام کو یہ بات نہایت سنجیدگی سے لینی چاہیے۔ ایک جانب مسلمانوں کیلئے دنیا جینا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ قتل عام، تقسیم در تقسیم کے بعد ان کو آپس میں جنگ و جدل کی صورت حال میں رکھنے کا عمل تو ایک مدت سے جاری ہے ساتھ ہی ساتھ ان کے دلوں کو چھیدنے کیلئے توہین آمیز خاکے اور کارٹوںوں کی نئی لہر ان کی دل آزاری کا سبب بنتی جارہی ہے۔ حکومت پاکستان کا احتجاج اپنی جگہ لیکن اس کو موثر بنانے کیلئے مضبوط و مستحکم خارجہ پالیسی کی شدت سے ضرورت ہے۔ کمزور حکومتیں اپنا کوئی بھی اثر دنیا کے کسی بھی ملک پر نہیں چھوڑ سکتیں۔
اس موقعہ پر ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ بھارت دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت سے باز رہے، نئی دہلی میں’ فری بلوچستان دفتر، کا قیام پاکستان کے خلاف بھارت کے ناپاک عزائم کا عکاس ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور دشمن کبھی گل پاشی نہیں کیا کرتا۔ پاکستان دشمنی میں بھارت کہیں تک بھی جاسکتا ہے۔ بلوجستان فری کا دفتر ہو یا افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشتگردانہ سرگرمیوں کو کنٹرول کرنا، یہ سب دشمنی کے منھ بولتے ثبوت ہیں۔ جہاں بھارت کو ان تمام وارداتوں پر ہر سطح پر منھ توڑ جواب دینا ہے وہیں اپنے رویوں پھر بھی غور کرتے رہنا بہت ضروری ہے۔ بنگلہ دیش کا معاملہ ہو یا سندھ، بلوچستان یا کے پی کے کا معاملہ، یہ سب پاکستان تھا اور ہے لیکن ان میں پائی جانے والی بے چینی اور ابتری یا بغاوت جیسی صورت حال کے پیدا ہوجانے والے رویوں پر بھی غور کرنا ہوگا۔ پاکستانی ہونے کے باوجود بھی غیر پاکستانی افعال و اعمال کے پیدا ہونے میں کہیں نہ کہیں ہماری اپنی بھی کوئی کوتاہی ہو سکتی ہے۔ بھارت سے شدید احتجاج کے ساتھ ساتھ ہر گزرنے والے لمحوں کا جائزہ اس قسم کی تحاریک کا خاتمہ کر سکتا ہے۔
امید ہے کہ ہر ہر امور کو نہایت سنجیدگی سے لیا جائے گا اور پاکستان کو مضبوط سے مضبوط بنانے کا عمل جاری رہے گا۔