الیکشن کا دور دورہ ہے، ہر طرف ووٹ اور ووٹر کا تذکرہ ہے. سیاست دان سیاسی مہم چلا رہے ہیں ہر ایک اپنے وزٹرز بڑھانے کی تگ و دو کر رہا ہے وہ سیاست دان جو پانچ سال میں کبھی بھولے سے بھی اپنے حلقے میں نہیں گئے اب وہاں کے چکر لگاتے اور ووٹر سے منت سماجت کرتے نظر آتے ہیں، اس بار عوام بھی ان کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہے کیونکہ انہیں بھی پتا چل گیا ہے کہ ایک بار اگر انہیں ووٹ مل جائے تو وہ کبھی اس طرف کا رخ بهی نہ کریں. پورے ملک میں الیکشن کا چرچا ہے، میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت سی تحریکیں چلائی جا رہی ہیں کہ نکلو اور ووٹ ڈالو ، پاکستان کی تقدیر بدلو.
ایسے میں ایک سوال ہر وقت مجھے ستا تا رہتا ہے کہ کس کو ووٹ ڈالوں ، آپشنز تو وہی پرانے ہیں بس کور بدلے ہیں . ملک کی بڑی جماعتوں کی طرف دیکھتا ہوں تو احاطہ ذہن میں تین جماعتیں آتی ہیں. پاکستان مسلم لیگ ن :- جو پچھلے پانچ سال سے ملک پر حکومت کر رہی ہے .جس کے صدر اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کرپشن کے جرم میں سزا کاٹ رہے ہیں. کیا یہاں ووٹ کروں مگر یہاں تو کرپشن ہی کرپشن ہے ، ہاں مانتا ہوں کچھ کام ہوئے ہیں ان کے دور میں مگر بہت سی خرابیاں ساتھ ہی ہیں جو ناقص منصوبہ بندی کی نشاندہی کرتی ہے اور ان کی اپنی پارٹی میں مسلے چل رہے ہیں یہ ان کو حل نہیں کر پا رہے ہمارے مسائل کیسے حل کریں گے .ان کے اپنے لوگ ناقص منصوبہ بندی کی پناہ پر انہیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں ان میں چوہدری نثار اور دیگر شامل ہیں جو اب آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑ رہے ہیں اور کئی امید وار ان کے ساتھ ہیں اور یہ مسلم لیگ کے بڑے سینئر رہنما ہیں. انہوں نے تسلیم کیا ہے پارٹی پر خاندان کی بادشاہت ہے اور ان کا مسئلہ یہ ہے کہ پہلے ماں باپ کی بادشاہت برداشت کی اب بچوں کی بھی کریں ،اس سے آپ کو ہماری جمہوریت کا اندازہ ہوتا ہے .یہاں صرف نام کی جمہوریت ہے کام تو سارے بادشاہوں والے ہیں اور عوام تو ان کی لپیٹ میں آرہی ہے ۔ایک طرف یہ جماعت ہے جو ابھی تک عدالت کے فیصلے کو تسلیم نہیں کررہی اور نہ ہی آگے بڑھ رہی ہے ان کی سوئی ابھی تک وہیں اٹکی ہوئی ہے. ان کا منشور تویہ ہونا چاہیے ، “توسی وی کھاؤ تے سانوں وی کهان دوں” اور ان کے دور میں جو صوبے میں تفریق رکھی گئی وہ کسی طور مناسب نہ تھی۔
دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی پاکستان کی سینئر جماعت جو آج بھی 1971 میں ہے ، باقی ہر چیز کو چھوڑ دو بس بھٹو زندہ ہے ۔ایک مزاح بھی اس حوالے سے بہت مشہور ہوا تھا کہ انڈیا کو ہم جنگ کرنی ہے تو پہلے ہمارا بھٹو مار کہ دکھائے. یہاں کے زرداری صاحب بھٹو اور بی بی کے نام ووٹ اکٹھا کرنا چاہتے ہیں جب یہاں سندھ کی حالت نہیں بدلی وہاں پاکستان کیسے بدلے گا ۔یہاں مزارع آج بھی جمہوریت کے ہوتے ہوئے جاگیر دار انہ نظام کا شکار ہیں جو ان کا بری طرح استحصال کررہے ہیں .ان کا منشور آج بهی وہی ہے روٹی کپڑا مکان 1971 کا اس سے آپ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہو کہ کتنی امپروو منٹ آئی ہے .انہیں اج بهی بی بی کا پاکستان بچانا ہے ہمارا نہیں .بلاول کا ابھی ابتداء ہے انہیں خود سیاست سمجھنے کیلئے وقت چاہیے.اور ایک طرف پاکستان تحریک انصاف رہتی ہے جن کے عمران خان کا تبدلی کا دعویٰ ہے اور یہ دعویٰ وہ سچ بهی کر کہ دکھا رہے ہیں اپنی زبان سے. چلے عمران خان نئے ہیں اور کرپشن سے بھی پاک ، نیت بھی صاف مان لیتے ہیں .مگر کیا یہ اپنی موجودہ صلاحیتوں کے ساتھ ایک حکمران بن سکنے کے اہل ہیں تو جواب مشکل لگتا ہے. کیونکہ جس طرح انہیں یو ٹرن لیتے پایا گیا اور خاص طور پر انہیں اپنی زبان پر بالکل اختیار نہیں ہے یہ ملکی پالیسیوں کو سنوارتے کم اور اپنے مخالفین پر گولہ باری کرتے زیادہ دکھائی دیتے ہیں یہ مخالف کی ذاتیات تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک اچھے انسان ہوں مگر ایک اچھے لیڈر کے لیے اس کے علاوہ بھی بہت سی صلاحیتوں کا مالک ہونے چاہیے۔ اسے ہر معاملے کو عقل اور تحمل مزاجی سے دیکھنا چاہئے نہ کہ جذبات میں بہ کر ایسے اقدامات اٹھائے چاہیے وہ غیرمناسب ہوں .عمران خان ہمیشہ دوسری جماعتوں کے کارکنوں پر کھل کر تنقید کرتے ہیں انہیں چور ڈاکو اور لٹیرے کہتے مگر جب یہی کارکن عمران خان کے ساتھ مل تو وہ پاک ہو جاتا ہے، ان کی ٹکٹوں کی تقسیم اسی غیر منصفانہ رویے کی عکاسی کرتا ہےابهی اور بهی لوگ جو ہماری بھلائی کا روگ لیے سیاست کا روگ لیے بیٹھے ہیں مگر درحقیقت اپنے فائدے میں سرگرم ہیں . ان میں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم،اور دیگر جماعتیں ہیں .اسلامی جماعتیں جس طرح مذہب کا نقاب اڑے سیاست میں آئی ہیں، ان کی دوہری سیاست ہم سے چھپی نہیں ہے ، جو ہر حکومتی جماعت کے ساتھ مل جاتی ہیں اور بعد میں ان کی مٹی پلید کرتی ہیں .ایم کیو ایم نے جو کراچی کا حال کیا ہے اس کے بعد تو اللہ ان سے بچائےاب ایسے حالات میں ووٹ کس کو دیں ، مگر حالات جو بھی ہو ں ہمیں ووٹ دینا ہے کیونکہ ایک یہی ذریعہ ہے جس سے ہم تبدلی لا سکتے ہیں اس لیے نکلنا ہے پاکستان کے لئے اور ووٹ ڈالنا ہے ۔ اس کے لیے سوچ وچار سے کام لینا ہے ، ووٹ اسے دیجئے جو ملک کے اور آپ کے مفاد کے لیے بہتر ہو ،خدا را اس بار اپنے لیے، اپنی نسلوں کے لئے ووٹ کا درست استعمال کرنا ہے ، کسی پھوپھا، تایے کے کہنے پر کسی ماموں، خالو کو ووٹ یوں ہی مت نہیں دینا ، پہلے ایک بار صحیح آدمی کی جانچ کر نی ہے ،خدا را نسلوں برادریوں کے چکروں سے نکلنا ہے اور ملک کو کالے بھیڑیوں سے پاک کرنا ہے جنہیں ہم نے اپنا ضمیر بیچ کر لایا ہے، اس بار نہ پانچ دو سو پر بکنا ہے، نہ سائیکل ، موٹر سائیکل لینی ہے، نہ بریانی کی پلیٹ کھانی ہے ۔ ہر فرد کو اپنی مرضی سے، اپنی سوچ اور فہم کے مطابق ووٹ کا حق حاصل ہے اور اس نے ہی اسکا درست استعمال کرنا ہے ۔ ووٹ صرف اسے دینا ہے جو اس کے قابل ہے اور اس کے لیے ہر طبقے اور ذات کے فرق کو پس پشت ڈال کر اچھے کردار اور قابل انسان کو چننا ہے اور انہیں آگے لانا ہے تا کہ ہم سب کی بہتری ہو سکے نہ کہ چند طبقوں کی۔
چلیے مل کر سوچتے ہیں ووٹ کس کو دیں۔