توہینِ مذہب اور یورپی ممالک کے قوانین

توہین آمیز خاکوں پر مبنی تہذیبی جنگ کا سلسلہ 2004 میں ڈنمارک سے شروع ہوا۔ یہ جنگ، آزادئ اظہاررائے کے نام پر شروع کی گئی، اس پراس وقت کے ایرانی صدر احمدی نزاد نے ہولو کاسٹ کے من گھڑت واقعے پر کارٹونسٹ مقابلے کا اعلان کر دیا، جس پر آزادئ اظہار رائے کے متوالوں کی جانب سے ایک طوفان کھڑا ہو گیا تھا۔ مغرب اور یورپ کا یہ دہرا معیار کوئی ڈھکا چھپا نہیں ۔ہولوکاسٹ پر ایک لفظ برداشت نہیں بلکہ اس پر تو بحث و مباحثہ پر بھی پابندی ہے اور پغمبر اسلام پر گستاخانہ خاکے پر کوئی قانون یا ضابطہ اخلاق لاگو نہیں۔ حالانکہ آزادئ اظہار رائے اور احترام مذھب کے حوالے سے یورپی کنونشن موجود ہے جس پر مغرب بھی دستخط کئے ہوئے ہے ، اس کے آرٹیکل 10 میں بہت واضح ہے کہ ” ہر شخص اظہاررائے کی آزادی رکھتا ہے اور یہ حق اسے کسی انتظامی رکاوٹ کے بغیر حاصل رہے گا،کسی ریاست کو یہ حق حاصل نیں ہے کہ وہ ریڈیو، ٹیلی ویزن، اِخبارات اور سینماؤں کے لئے لائسنس روکے ” مزید کہا گیا ہے ” یہ حق کچھ پابندیوں کے ساتھ حاصل ہو گا،ان کی خلاف ورزی پر سزا اور جرمانہ دونوں ہی دیئے جا سکتے ہیں ،یہ آزادی قومی سلامتی اور سوسائٹی کے امن و امان میں خلل نہ ڈالنے سے مشروط ہو گی ، ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی سلامتی،علاقائی خود مختاری، پبلک سیفٹی کے تمام تقاضوں کے پیش نظر لوگوں کی صحت،اخلاقیات اور دوسرے تمام بنیادی حقوق کو مذھب کی توہین کے جرم سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے” اس یورپی کنونشن کی ڈنمارک ،ناروے، فرانس اور جرمنی بھی توثیق کئے ہوئے ہیں۔جس کا مقصد مذھب کی توہین کے واقعات کو روکنا ہے۔
فرانس کا آرٹیکل 11 کہتا ہے “اظہار رائے کی آزادی ہر انسان کا حق ہے اور وہ اس حق کی بنیاد پر اپنی مرضی سے بول،لکھ اور اشاعت کر سکتا ہے لیکن یہ حق قانون کے اندر دی جانے والی پاپندیوں سے مشروط ہے ” ناروے میں بھی آئین کا آرٹیکل100 کہتا ہے کہ “ملک میں پریس کی آزادی ہو گی اور کسی شخص کو تحریر پر سزا نہیں دی جا سکے گی لیکن کوئی اگر ایسا عمل جان بوجھ کر یا کسی کے اکسانے پر کرے گا جس سے مذھب اور اخلاقیات کی توہین کا پہلو نکلتا ہو تویہ عمل قابل سزا ہو گا ”
جرمنی کے آئین کے آرٹیکل 11 ، جو مذھب اور زندگی کی فلاسفی کے متعلق ہے ،اس کے سیکشن 167 میں کہا گیا ہے کہ مذھب اور مذھبی عبادات کی توہین قابل سزا جرم ہے، اس کی سزا زیادہ سے زیادہ تین سال تک ہو سکتی ہے۔ اسی طرح نیوزی لینڈ کے کرائم ایکٹ 1967 کے پارٹ 7 میں درج ہے کہ مذھب اور اخلاقیات اور پبلک ویلفئر کے خلاف کہی ہوئی بات، لکھی ہوئی تحریر اور توہین آمیز مواد کی اشاعت پر ایک سال قید یا جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح آسٹریا میں آرٹیکل 189 ،فن لینڈ میں آرٹیکل 10 کے باب 17 میں پینل کوڈ موجود ہے ، ہالینڈ کریمنل کوڈ میں آرٹیکل 147 اور اسپین میں آرٹیکل 525 موجود ہے جس کے تحت مذھب کے بارے میں منفی اور توہین آمیز بات نہیں کی جا سکتی۔ اس حوالے سے آئر لینڈ میں بھی قانون موجود ہے اس کے قانون کے آرٹیکل 1اور 6 اور 40 کے مطابق یہ عمل قابل سزا جرم ہے۔ نیدر لینڈ جو حالیہ توہین آمیز خاکوں کے مقابلوں کے لئے نمایاں ہوا ہے اس کے آرٹیکل7 مذکور ہے کہ نفرت آمیز مواد کی اشاعت کی اجازت نہیں۔
ان قوانین کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مذھبی احترام اور کسی کی مذھبی طور پر دل آزاری نہ کرنے پر مغرب اور یورپ میں قوانین موجود ہیں اس لئے توہین آمیز خاکوں کے سلسلے کو روکنے پر متعلقہ حکومتوں کا معذوری ظاہر کرنا اور اس کو محض اظہار آزادئ رائے قرار دینے پر اصرار کرنا شدیدمتعصبانہ رویہ ہے۔ قوانین پر عمل درآمد نہ کر کے بد دیانتی کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ نیدر لینڈ میں حالیہ کارٹونسٹ مقابلوں کے روح رواں گیرٹ والڈر پر Speech Hateکے 13 مقدمات قائم ہو چکے ہیں لیکن کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ اور اس کا آسٹریا اور فرانس توہین مذھب کے واضح قوانین کے ہوتے ہوئے بھی پوری طرح ساتھ دے رہے ہیں۔
یہ طرز عمل اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں یورپ کے امتیازی رویے کا عکاس ہے۔ اس طرز عمل کے خلاف وہاں بسنے والے مسلمان عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں اور عالمی سطح پر بھی مسلم ممالک کو مل کر سنجیدہ طور اس امر کا ادراک کرتے ہوئے پورپ کو ان قوانین پر عمل درآمد کیلئے مجبورکرنا چاہیئے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں