خلیفہ ہارون الرلشید کے دو بیٹے امام اصمعیؒ کے پاس زیر تعلیم تھے ۔ امام صاحب دونوں شہزادوں کو تعلیم دینے کے لئیے شاہی محل تشریف لایا کرتے تھے ۔ایک دن خلیفہ دور کھڑا ہوکر امام صاحب اور اپنے دونوں بیٹوں کو دیکھتا رہا ۔ جب چھٹی کا وقت ہوا تو ایک بیٹے نے امام اصمعیؒ کی چپلیں اٹھائیں اور جلدی سے جاکر زمین پر رکھ دیں ۔ خلیفہ نے اگلے روز امام اصمعیؒ کو روکا اور فرمایا ” حضرت ! مجھے لگتا ہے کہ میرے بچوں کی تربیت پر آپ کی نظر کچھ کم ہے ؟”۔ امام صاحب نے حیران ہوکر خلیفہ کو دیکھا اور پوچھا آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے ؟ ۔ خلیفہ نے جواب دیا کیونکہ کل میں نے دیکھا کہ میرے ایک بیٹے نے تو آپ کے جوتے لاکر زمین پر رکھے لیکن دوسرا فارغ کھڑا تھا ۔
آپ اندازہ کریں خلیفہ کی نظر میں تعلیم سے کہیں زیادہ اپنے شہزادوں کی تربیت ضروری تھی ۔ ابتدائی تعلیم و تربیت بچے گھروں پر حاصل کرتے اور پھر مزید تعلیم کے لئیے مختلف اساتذہ کے پاس روانہ ہوجاتے ۔ استاد بھی کمال کے تھے ۔ وہ استاد سے زیادہ ” مربی ” تھے ، وہ کتابوں سے زیادہ اپنے عمل سے سکھاتے تھے ۔
امام بخاریؒ ساری زندگی مسلسل سفر میں رہے مختلف مربین( مینٹورز) سے علم حاصل کرتے رہے ۔ امام غزالیؒ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے گھر کے قریب ہی ایک رئیس کا بیٹا رہتا تھا ۔ جو استاد اس رئیس کے بیٹے کو پڑھانے آتا ۔ ان کے واپس جاتے ہوئے امام غزالیؒ گھوڑے کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے اور مختلف سوالات پوچھ پوچھ کر اپنے علم کی پیاس بجھاتے رہتے تھے ۔
امام ابو حنیفہؒ انتہائی کم عمری میں مدینہ تشریف لائے اور امام مالکؒ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا ۔ بو علی سینا نے ایک سال تک بادشاہ کے ذاتی کتب خانے میں بند ہوکر مسلسل دن رات کتابوں کا مطالعہ کیا اور پھر وہاں سے پہلے قاہرہ پھر بغداد اور انھی دونوں شہروں کا مسلسل سفر کرتے رہے تاکہ اساتذہ کے تجربوں سے استفادہ کرسکیں اور بالآخر طب پر 200 کتابیں تصنیف کرڈالیں جو آج بھی کئی آپریشنز اور سرجریز کی بنیاد ہیں ۔
لیکن پھر ہم نے اپنے بچوں کو ذہنی غلام بنانا شروع کردیا ۔ ہم نے ان کو چند گھنٹوں ، چند اساتذہ ، چند کتابوں اور چند امتحانات تک محدود کردیا ۔ بچے کو بورڈ اور پیپر کا غلام بنادیا ۔ وہ جو علم کا سفر ملکوں ملکوں پھیلا ہوا تھا ہم نے اسے چار دیواری میں قید کردیا ۔ جو محض کسی استاد کا نہیں بلکہ استاد کی صورت میں ایک مینٹور ( مربی ) کا متلاشی تھا ہم نے اس کو رٹے کے پیچھے لگادیا ۔ ہم نے تعلیم کو محدود کردیا ۔ تعلیم کو سکھانے کے بجائے کمانے کا ذریعہ بنادیا ۔ وہ ابتدائی تعلیم جو گھروں میں دی جاتی تھی اسے ہم نے اسکولوں کے حوالے کردیا ۔ وہ تربیت جو 7 ، 8 سال کی عمر تک ماں ، باپ اور گھر کے بڑوں کی ذمہ داری تھی ہم نے اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور تعلیم ، تعلیم اور محض تعلیم کے” نام” پر تربیت سے جان چھڑالی ۔
وہ تعلیم بھی دراصل کو ئی ” تعلیم ” نہیں تھی ۔ وہ تو لگے بندھے ، رٹے رٹائے ایک سلیبس کا نام ہم نے ” تعلیم ” رکھ دیا۔ جس میں بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا کھل کر ” قتل عام ” مچایا گیا ۔ اگر کسی بچے نے ” مس ” یا ” سر ” کے لکھے ہوئے الفاظ سے ذرا بھی ادھر ادھر کچھ اور لکھنے کی کوشش کی تو اسے سزا کا حقدار ٹہرا کر امتحانات میں نمبر کاٹ لئیے گئے یعنی بچوں کو لکیر کا فقیر بنادیا گیا ۔ نام نہاد ” کورس ” کی کتابوں کے علاوہ ہر قسم کی کتاب پڑھنے کو چھوڑیں اٹھانے کو بھی منع کردیا گیا اور اگلی کلاس میں جاتے ہی پچھلی تمام ” اہم ” کتابوں کو ردی کا ڈھیر بنادیا گیا ۔
ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں ۔ لیکن ہمیں تعلیم کے معاملے میں اب واپس ہزار سال پیچھے جانا ہوگا ۔ ہمیں رٹے لگوانے اور عقلوں کے غلام بنانے والے استاد نہیں چاہئیے ہیں ۔ ہمیں بچوں کو راستہ دکھانے ، علم حاصل کرنے پر اکسانے والے اور اپنے تجربے اور تربیت کی روشنی میں آسانیاں پیدا کرنے والے مربین (مینٹورز ) درکار ہیں ۔ اب ماں باپ کو بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہونگی ۔ ہوم اسکولنگ پر فوکس کرنا ہوگا ۔
یہ تھامس ایڈیسن کی ماں ہی تھی ۔ جس نے اپنے ” کند ذہن ” بچے کو 1249 ایجادات کا موجد بنادیا تھا ۔ یہ راولپنڈی کے حارث نذیر کی ماں ہی تھی جس نے گھر میں تعلیم دے کر اپنے 8 سال 11 مہینے اور 27 دن کے بچے کو او – لیولز کے 17 پرچے دلوا کر کامیاب کروادیا اور کیمبرج کی آٹھ سو سالہ تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا ۔
گوگل کے مطابق اب کوئی بھی شخص خواہاں وہ بڑا ہو یا چھوٹا اگر کسی بھی ایک موضوع پر مسلسل تین گھنٹے گوگل کرلے تو وہ اسی موضوع پر دس سال کا تجربہ رکھنے والے شخص کے علم کے برابر آجائیگا ۔ اب آپ اس نسل کو عقل کا غلام نہیں بناسکتے ہیں ۔اب 13 سالہ” تن – مے بخشی ” گوگل کا لاکھوں میں تنخواہ لینے والا ایمپلائی ہے جو آئی – بی – ایم کی آرٹی فیشل انٹیلی جینس پر کام کررہا ہے اور ان ایک کروڑ 25 لاکھ کے لئیے اسے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہے ۔ہندوستان کے شہر کارنل سے تعلق رکھنے والے پانچ سالہ “کاٹلی پنڈت ” گوگل بوائے بن کر دنیا کو حیران کر رہا ہے ۔
اور ہم ابھی تک گریڈز ، پوزیشنز اور ڈگریوں کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں ۔ بچوں کی صلاحیتوں اور ان کے دماغوں کو آذاد چھوڑ دیں ۔ ہر قسم کے امتحان ، ہر قسم کے گریڈ اور پوزیشن سے ۔انھیں خود سے سیکھنے دیں ، ہاں البتہ انھیں تربیت ضرور دیں ، انھیں کمانا نہیں جینا سکھائیں کمانا وہ خود سیکھ جائینگے ۔ انھیں پیسوں سے زیادہ عزت لینے والا بنائیں ۔ایڈیسن نے کہا تھا ” کامیاب ہونے سے کہیں زیادہ اہم اپنی پہچان بنانا ہے “۔انھیں معاشرے میں پہچان بنانا سکھائیں ۔ دولت ان کے پیچھے بھاگتی ہوئی آجائیگی ۔اقبال نے کہا تھا :
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
خرد کو غلامی سے آذاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
اس لئیے خدارا ! جوانوں کو پیروں کا استاد بننے دیں کیونکہ اس صدی کے ساز اور راگ دونوں الگ ہیں ۔
بہت اہم تحریر ہے
بچوں کو رائج سسٹم سے کیسے ہٹا سکتے ہیں؟ آج کے استاد کا کوئی وژن ہی نہیں ہے پھر بھی بہت کم بچے والدین کو کسی خاطر میں لاتے ہیں۔ بچے کو اس کی مرضی سے کام پڑھائی وغیرہ کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ وہ الگ تھلگ ہوجاتے ہیں اور کسی کام کے نہیں رہتے۔ ہاں اگر کہیں ابراڈ نکل جائیں تو ان کا کیرئر بن جاتا ہے ۔ اس موضوع پر آپ ضرور لکھیں
بہت اعلیٰ۔