’’سیاسی پینترے ،عوامی شعور‘‘

ہمارے لیے ملک و ملت اہم ہے۔قانون کی حکمرانی ،عدل وانصاف کی فراہمی بلا تفریق ضروری ہے۔ہمیں کوئی عار نہیں کہ ہمارے کالم میں لکھے لفظوں کے تانے بانے کوئی اپنی ذاتی شخصیت کے منافی سمجھتا ہے ۔یا کوئی سیاسی چور وطن کے خزانے میں ڈاکہ زن ہو کر قوم کو چکما دیتا ہے اور ہم اسے بے نقاب کرتے ہیں تو وہ سیخ پا ہوجاتا ہے۔سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہمات کا زور دن بدن بڑھتا جا رہا ہے ۔25 جولائی سیاسی رن پڑے گا۔جب ہی اقتدار کی ہوس نے سیاست دانوں کے دماغ خراب کر دیے ہیں ۔سابقہ ریکارڈ میں اپنے نام کو چمکوانے والے سیاست دان عوام کوبے وقوف بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد کررہے ہیں۔لیکن عوام اب باشعور ہو چکے ہیں ۔انہیں معلوم ہو چکا ہے کون ا چھا ہے کون جھوٹا ہے۔اب کالے سیاہ کی پہچان آسان ہو گئی ہے۔
ایک بیمار وہ ہے جو دور کسی افتادہ گاؤں دیہات میں رہتا ہے۔اسے کوئی سروکار نہیں کہ اسلام آباد کی عالی شان عمارتوں میں نواز بیٹھے ، عمران خان بیٹھے یا زرداری سب پے بھاری رہے۔اس نا خواندہ عام سے پاکستانی کو بس مناسب سہولیات سے مزین زندگی چاہیے ۔اسے صاف پانی ، بجلی کی چوبیسوں گھنٹے بلا تعطل فراہمی ،بنیادی ضروریات زندگی تعلیم، صحت ، خواتین کے پیچیدہ امراض کاخاتمہ کرنے والے اعلی معیار کے اسپتال چاہئیں۔اسے کوئی غرض نہیں کہ کوئی یورپی اخبار نواز شریف کی 21 جائدادوں کی موجودگی کا انکشاف کرتا ہے۔آصف زرداری کے کراچی و لاہور کے بلاول ہاؤس کی مالیت کیا ہے۔اسے نہیں معلوم کہ بنی گالہ کا رقبہ کتنا ہے ،اور اس میں خان صاحب اٹیلین و برطانوی طرز کی زندگی گزار رہے ہیں۔اگر اسے بتا دیا جائے کہ ملک کی باگ ڈور کے متمنی نیازی صاحب ڈیڑھ کروڑ کا عمرہ کرتے ہیں تو وہ سر پکڑ کے بیٹھ جائے۔اپنی چھوٹی چھوٹی ضروریات سے لڑنے والا غریب کسان ناجانے سیاسی چوروں کی کن کن سودی اسکیموں کے جال میں پھنس چکا ہوگا۔جس کا اس کو پتا بھی نہیں ۔
ملکی سیاست اس وقت اہم دور سے گزرہی ہے۔سیاسی جماعتوں کاوژن کلیئر ہو جانے اور منشور عوامی ہو جانے کے بعد اگر انتخابی وعدے وہی سبز باغ ہیں تو عوام ووٹ سوچ کر نکالیں ۔ہر سیاسی جماعت نے اپنے حریف چن لیے ہیں ۔ کوئی کسی کو پچھاڑنے کی بات کررہاہے تو کوئی کسی کو مات دے کرعوم کے مسائل حل کرنے کا وعدے کررہا ہے۔پنجاب کی سیاست موروثی ہے۔یہاں عوام کو ایک عرصہ سے غلام بنا کر رکھا گیا ہے۔قوم کے مسائل ویسے ہی ہیں جو ہم نے بچپن میں دیکھے۔اب ایک اور نسل جوان ہو چکی ،مگر کمال یہ ہے کہ سیاست کا علم آج بھی ان ہی ہاتھوں میں ہے۔الیکشن دور میں بہت کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔برادری سسٹم میں ووٹ کا حق دار ڈیرہ ہوتا ہے ۔دراصل عوام جس خلوص اپنائیت سے علاقے کے وڈیرے کو ووٹ دیتے ہیں ،وہ ان کی محبت کا پلندہ بنا کر کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کے پاؤں کی پازیب بنا دیتا ہے۔پھر مہنگائی ،بے روزگاری کے ساتھ ساتھ انہیں دھتکار ملتی ہے۔المیہ یہ نہیں کہ ووٹ لینے کے بعد ہمارے منتخب کردہ نمائندے عنقا ہو جاتے ہیں ،المیہ یہ ہے کہ ہم ستر سالوں سے کنویں کے مینڈک بنے ہوئے ہیں۔
ووٹ حاصل کرنے کے لئے یہ سیاسی لوٹے الیکشن کے دنوں میں کیا کچھ نہیں کرتے۔سوشل میڈیا پر وائرل پنجاب کے ایک پسماندہ گاؤں کی تصویر دیکھی ۔گاؤں کی کچی مسجد میں کوئی کارنر میٹنگ جاری تھی ۔معززین علاقہ کی بڑی تعداد جمع تھی ۔ہم حیران اس وقت ہوئے جب ہمیں ایک سیاسی لیڈر بیٹھا نظر آیا ۔ایسے سیاسی لیڈر جن کی آنکھوں میں نہ شرم کی سرخی نظر آتی ہے نہ ضمیر جاگتا ہے۔ عرصہ دراز سے یہی روایت چلی آرہی ہے کہ ایسے سیاسی لیڈر پانچ سال میں ایسے علاقوں کا ایک دورہ کرتے ہیں ،اور عوام میں سے عوام کی زبان میں بات کرنے والوں کا انتخاب کرکے ووٹ ہتھیا لیتے ہیں ۔ایسے لیڈر پانچ سال میں ایک مرتبہ جو غریب کی چوکھٹ کو دیکھتے ہیں تو ضمیر پر منوں من پتھر کا بھار سمجھ کر کرتے ہیں۔یہ غریب کی کچہری سے اٹھ کر ناک پہ رومال رکھ لیتے ہیں۔انہی سیاست دانوں کا نظریہ غریب کے بارے میں یہ ہے کہ انہیں جاہل گنوار ہی رکھا جائے،تاکہ مستقبل میں ان میں سے پڑھ لکھ کر کوئی ان کا مقابلہ نہ کرے۔
عوام کو الیکشن کے بعد منتخب ہونے والی حکومت سے کیا کیا امیدیں وابستہ ہو جاتی ہیں۔وہ اپنے حکمرانوں سے اچھے برتاؤ کی توقع رکھ کر اپنے دن پھرنے کے سہانے خواب دیکھتے ہیں۔عوامی سطح کے مسائل کتنے ہیں ان کی کوئی حدود نہیں۔ملک کے بڑے شہروں کی مجموعی حالت دیکھیں تو حالیہ بارشوں میں لاہور سنگاپور تو نہیں بنا ،ہاں البتہ عوام ضرور سینگ مارتی نظر آئی۔یہ ملک کی سب سے طاقت ور جماعت کے آسمانوں جتنی بڑی کارکردگی تھی۔یہی حال شہر قائد کا بھی ہے۔یہا ں ملک کی سب سے بڑی جمہوری پارٹی کا راج رہا ۔وسائل کا رونا روتے پانچ سال پورے ہو گئے ۔شہر قائد کو صاف بنانے کی بجائے پی پی پی نے ماحولیاتی آلودگی میں کراچی کوپانچویں نمبرپہ لا کھڑا کیا اور لازمی بات ہے یہی قابل تحسین کام ہی تھے جس کی وجہ سے بلاول بھٹو لیاری سے ناکام لوٹے۔سیاست دانوں کو یہ بات پلے باندھ لینی چاہئے اب ان کے مکروہ فریب ، ڈھکوسلے بازیاں نہیں چلنے والی کیوں کہ ان کے سیاسی پینتروں سے ہی عوام میں شعور پیدا ہوا ہے۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں