اور کوا مر گیا۔۔۔

علی الصبح میں اپنے گھریلو کاموں میں مصروف تھی کہ اچانک زوردار دھماکے نے سارے کام ٹھپ کر دیئے کیونکہ بجلی جا چکی تھی کووں کا شور سنائی دے رہا تھا، کھڑ کی سے جھانکنے پر معلوم ہوا کہ ساری کارستانی اس کوے کی تھی جو اب بجلی کے تاروں سے لپٹ اس جہان فانی سے کوچ کر چکا ہے اور باقی سارے اسکی میت پر شور و غل مچا رہے تھے ۔کچھ دیر تک یہی سلسلہ جاری رہا اور پھر سارے کوے اپنے اپنے مسکن کی طرف چل دیئے نہ جانے کیوں مجھے اس کوے کو دیکھ قرآن کریم کی وہ مثال یاد آگئی کہ جب قابیل نے اس روئے زمین پر پہلا قتل کیا تو اللہ تعالی نے رہنمائی کے لئے دو کووں کو بھیجا اور جب ایک کوے نے دوسرے کی لاش کو مٹی میں دبایا تو قابیل حسرت سے یہ کہتا رہ گیا کہ میں تو اس کوے کی طرح بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش کو چھپا سکتا۔

اس واقعہ کو جو قرآن کریم کی توسط سے ہم تک پہنچا ہے ہزاروں سال گذر چکے ہیں یہ انسان کے ابتدائی دور کا واقعہ تھا لیکن آج کا انسان ہر نہج پر نقطہ کمال کی بلندیوں کو چھو رہا ہے، فضاؤں اور خلاؤوں میں کمندیں ڈال دیں  دریاؤں اور سمندر کے اندر راستے بنا ڈالے گویا دنیا کی ہر شے کو مسخر کرنےکی جستجو کا عمل جاری ہے لیکن اس ساری جستجو میں جہاں خیر کا عمل جاری ہے وہیں شر اور بربادی کا عمل بھی جاری و ساری ہے۔ میزائیل اور کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری اور انسانی جانوں پر اس کے استعمال کی بدولت انسانی تہذیب کے ترقی یافتہ دور میں آج بھی انسان اس قابل نہیں کہ اپنے بھائی کی لاش کو اکرام کے ساتھ مٹی تلے دباسکے ۔ رہنمائی کےدریچے آج بھی کھلے ہیں مگر انسانی عقل اس سے ماورا ہے۔

 

حصہ

جواب چھوڑ دیں