تقسیم کے فورا بعد مہاجرین بڑی تعداد میں پاکستان آنا شروع ہوگئے ۔ انکا سب سے بڑا ٹھکانہ کراچی تھا ۔ یو – پی ، سی –پی ، دہلی ، بمبئی ، بنارس ، حیدر آباد دکن اور بہار سے آنے والے یہ تمام ہی مہاجرین خاصے پڑھے لکھے اور زیادہ تر بیورو کریسی سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے ۔ اسٹیشنوں پر ان مہاجرین کا استقبال کرنے لئیے جو لوگ روز مرہ ضروریات زندگی کے ساتھ موجود تھے وہ جماعت اسلامی کے کارکنان تھے ۔ جماعت اسلامی نے دامے ، درمے ، قدمے ،سخنے مہاجرین کی ہر ممکن مدد کی ۔ سید ابو الاعلی مودودیؒ نے جماعت کے سارے کاموں کو روک کر صرف ہندوستان سے لٹے پٹے آنے والوں کی امداد کا اعلان کردیا ۔ اس طرح کراچی والوں کو پہلی دفعہ جماعت اسلامی سے آشنائی نصیب ہوئی ۔
آنے والے دنوں میں جماعت اسلامی ” گراس روٹ لیول ” پر کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی لیکن بدقسمتی یہ تھی کہ یا تو جماعت اسلامی کو انتخابی سیاست راس نہیں آئی یا انتخابات جماعت اسلامی کو راس نہیں آئے ۔ بہرحال جو بھی تھا لیکن 1970 کے انتخابات نے یہ تو طے کردیا کہ ملکی سطح پر ہونے والے انتخابات میں کراچی کی عوام شاید جماعت اسلامی کو خاطر خواہ سیٹیں نہ دے ۔ 70 ہو یا 77 کراچی کی عوام نے شاہ احمد نورانی پر ضرور بھروسہ کیا لیکن جماعت اسلامی کو کھالوں اور نوٹ تک ہی محدود رکھا ۔
9 نومبر 1979 کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں عوام نے پہلی دفعہ جماعت اسلامی پر بھروسہ کیا اور اس طرح عبد الستار افغانی کراچی شہر کے مئیر منتخب ہوگئے ۔بطور مئیر انھوں نے شہر کے انفرا اسٹرکچر اور تعمیر و ترقی پر بے انتہا توجہ دی اور اسی پرفارمنس کے نتیجے میں 7 نومبر 1983 کو ایک دفعہ پھر کراچی کی عوام نے افغانی صاحب کو مئیر منتخب کرلیا ۔ شاید عوام کی اکثریت کو معلوم نہ ہو کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سمیت شہری ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے کئی اداروں کے بانی دراصل عبدالستار افغانی صاحب ہیں ۔انھوں نے اسوقت کے صدر اور ڈکٹیٹر آرمی چیف جنرل ضیاء الحق سے اس بات کا پرزور مطالبہ شروع کردیا کہ 70 فیصد وہیکل ٹیکس دینے والے شہر کا اس ٹیکس پر حق بھی سب سے زیادہ ہے ۔ یہ مطالبہ عوامی حمایت اختیار کرگیا ۔ شہر بھر میں احتجاج شروع کردیا گیا جو یقینا صدر صاحب کی طبعیت پر گراں گذرا ۔انھوں نے بلدیاتی اسمبلیاں تحلیل کر کےمئیر کراچی سمیت سینکڑوں نمائندوں کو جیل میں ڈال دیا ۔
یہاں تک تو معاملہ ٹھیک تھا لیکن اس دوران کوٹہ سسٹم جیسے قانون پر جماعت اسلامی نے یکسر آنکھیں بند کئیے رکھیں ۔ شاعر نے کہا تھا :
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اردو بولنے والوں کے بنیادی مسائل سے انحراف کی سزا اسٹیبلشمنٹ نے جماعت اسلامی کو یہ دی کہ اس کے سامنے ” مہاجر قومی مومنٹ ” اور
” الطاف بھائی ” کو لاکر کھڑا کردیا ۔ کہتے ہیں محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے یہاں تک کے ناجائز بھی ۔ بس پھر کراچی والوں اور مہاجرین کو کچھ بھی یاد نہ رہا ۔2001 میں جنرل مشرف نے پہلے ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانے کا فیصلہ کیا ۔ ایم- کیو -ایم بائیکاٹ پر چلی گئی ۔ شہر میں خوف کی فضا تاحال قائم تھی ۔ جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی الیکشن لڑنے کی ویسے بھی ہمت نہیں کرسکتا تھا ۔ انتخابات ہوئے ، برائے نام ہوئے اور ایک دفعہ پھر جماعت اسلامی شہر کے سیاسی دھارے میں شامل ہوگئی ۔ شاید جماعت اسلامی کو بھی یقین تھا کہ ” ابھی نہیں تو کبھی نہیں “۔
نعمت اللہ خان سٹی ناظم منتخب ہوئے اور اس 72 سالہ ” جوان ” نے کمال کردیا ۔ ہر یوسی کے اندر خوبصورت ماڈل پارکس بنوائے ، شہر کی تاریخ میں پہلی دفعہ 6 انڈر پاسسز کا سنگ بنیاد رکھا گیا ۔ پلوں اور سڑکوں کے جال بچھائے گئے ۔ 32 نئے کالجز بنوائے گئے ، بڑے پیمانے پر شہر میں سیوریج کی لائینیں ڈالی گئیں ۔ کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیسیسز جیسے ادارے فراہم کئیے گئے اور پانچ سو گرین لائن بسوں کا تحفہ کراچی کو دیا گیا ۔ پانی کے لئیے کے –تھری منصوبہ مکمل کیا گیا اور کے – فور کی فزیبلٹی رپورٹ تک بنا کر دے دی گئی ۔ جاپان کی کمپنی جائیکا سے سرکلر ریلوے پر نوے فیصد معاملات طے پاگئے ۔چین کی کمپنی سے سرجانی ٹاؤن میں دس لاکھ ٹن کچرے سے 50 میگاواٹ بجلی کا پلانٹ لگانے کا معاہدہ طے پاگیا اور ناروے کی کمپنی سے سمندر کنارے واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹ لگانے کا معاہدہ بھی ہوگیا ۔ نعمت اللہ خان جب 2004 میں گئے تو 55 پروجیکٹس پینڈنگ میں تھے اور ان پروجیکٹس کی رقم بھی خزانے میں موجود تھی ۔ کراچی کا بجٹ 4 ارب سے 42 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا ۔ بلدیاتی اداروں میں کرپشن صفر ہوچکی تھی ۔ شہر کا ناظم تک کھانے کا ٹفن گھر سے لے کر آتا تھا اور جاتے جاتے 4 سال کی تنخواہ بھی زلزلہ زدگان کے حوالے کرگیا ۔
کارکردگی کا یہ حال تھا کہ جنرل مشرف نے ایک دن نعمت اللہ خان کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور کہا میں آپ کو صوبے کا گورنر بنانا چاہتا ہوں لیکن دو شرائط ہیں :
1) جماعت کی رکنیت سے استعفی دے دیں ۔
2) میری پالیسیوں کی حمایت کریں ۔
نعمت اللہ خان نے دو اور دو چار کی طرح مشرف صاحب کو جواب دیا کہ :
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
دوسری طرف سے جنرل صاحب نے بھی جماعت اسلامی کو ” جواب ” دے دیا ۔2004 میں دوبارہ بلدیاتی انتخابات ہوئے ۔ گلشن اقبال کی 11 میں سے 9 یوسیز جماعت اسلامی جیت گئی ۔ شہر میں منظم دھاندلی کے باوجود سینکروں یونین کونسلوں میں جماعت کے نمائندے منتخب ہوگئے ۔ اس دفعہ عوام نے پرفارمنس کی بنیاد پر ووٹ دیا اور اس کی سزا 22 اگست 2016 تک کراچی کی عوام کو بھگتنا پڑی ۔
جماعت اسلامی ان سہانے دنوں کے انتظار میں تھی کہ درمیان میں تحریک انصاف کسی ولن کی طرح فلم میں داخل ہوگئی ۔2013 کے عام انتخابات ہوئے ۔کراچی کی عوام نے جماعت اسلامی پر اعتماد کیا لیکن تحریک انصاف کے بعد اور جماعت اسلامی شام 5 بجے تک تحریک انصاف کے ووٹوں کی حفاظت کرنے کے لئیے تیار نہیں تھی ۔ آخر کو تین دفعہ بلدیاتی حکومت اور شہر سے 6 ایم – این – ایز اور ایم – پی – ایز رکھنے والی پارٹی اس طرح تو اپنا شیرازہ بکھرتا نہیں دیکھ سکتی تھی ۔اسلئیے دوپہر 1 بجے بائیکاٹ کا اعلان کردیا گیا ۔
حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی کی نئے امیر منتخب ہوئے اور جماعت کی ڈولتی نیا کو سنبھالا ۔ جماعت اسلامی جس پر یہ چھاپ تھی کہ وہ سوائے مقامی مسائل کے سارے آفاقی مسائل کا درد رکھتی ہے نے کے – الیکٹرک ، نادرا اور پانی کے مسائل پر بھر پور مہم چلائی نہ صرف یہ کہ لوگوں کو واقعی یہ محسوس ہونے لگا کہ کوئی ہماری سننے والا بھی ہے بلکہ حکومتی ایوانوں میں بھی ہلچل محسوس کی گئی ۔ لیکن پھر سراج الحق نے متحدہ مجلس عمل بنالی ۔خود حافظ نعیم الرحمن بھی جس کے شدید مخالف تھے ۔
بہرحال اب فیصلہ ہوچکا ہے ۔ جماعت اسلامی نے کتاب کے نشان پر الیکشن لڑنا ہے ۔ جماعت اسلامی کراچی اگر اپنے نام کو زیادہ نمایاں کر ے اور اپنے نمائندوں کو کیش کروائے تو زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہے ۔سارے شہر کا درد رکھنے کے بجائے مخصوص نشستوں پر ٹارگٹڈ اور فوکس ہوکر کام کرے ، اپنی مالی اور افرادی قوت بھی انھی نشستوں پر لگائے تو کم از کم پانچ قومی اور آٹھ صوبائی کی نشستیں حاصل کرسکتی ہے ۔ جب کے اتنی ہی سیٹوں پر دوسرے نمبر پر بھی آسکتی ہے جو کہ یقینا آگے آنے والے کسی بھی انتخابات میں جماعت اسلامی کو فائدہ دے سکے گا ۔اس دفعہ بے خوف و خطر ہونے والے کراچی کے الیکشن جماعت اسلامی کے لئیے بھی ایک کڑا امتحان ہے کیونکہ اب جماعت اسلامی کے پاس بھی یہ آخری موقع ہے ۔