محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد سے لے کر 1857 ء کی جنگ آزادی تک بر صغیر ہندوستان میں مسلم حکمرانوں نے گیارہ سو سال تک حکومت کی ہے۔ ہندوستان مختلف النسل اقوام کا مجموعہ ہے جس کے باشندے رنگ ، نسل اور مزاج کے اعتبار سے مختلف گروہوں میں متقسم ہیں۔ ہندوستان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں چندر گپت موریا اور اشوک کے علاوہ کوئی اور حکمران ایسا نہیں گزرا کہ جس نے ان تمام گروہوں کو ایک سلطنت میں ضم کرکے حکومت کی ہو۔ اس کے برعکس مسلم سلاطین نے برصغیر میں کئی مضبوط اور مستحکم سلطنتیں قائم کیں جن میں تغلق، خلجی، لودھی اور مغل سلطنتیں شامل ہیں۔
سب لوگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کے افسانہ ہو یا فلم یہ صرف تاریخی پس منظر رکھتے ہیں مگر اصل تاریخ سے بہت مختلف ہوا کرتے ہیں بلکہ قطعی مختلف بھی ہو سکتے ہیں، یہاں تک کے سارے تاریخ دا ں جس بات کو رد کرتے ہوں فلم میں تجارتی نکتہ نظر سے اس ا فسانہ یعنی پاپولر کلچر کو خوب خوب بڑھا چڑھا کر بیاں کیا جاتا ہے۔ جس کو مستند تاریخ نہ کوئی سنجیدہ شخص مانتا ہے اور نہ ہی کوئی منوانا چاہتا ہے۔
ہاں عامتہ الناس البتہ اس میں خوب دلچسپی لیتے ہیں اور اپنے اپنے نکتہ نظر سے فلم کی بیان کردہ تاریخ کو صحیح اور مستند یا جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے رہتے ہیں۔ سخت گیر حکمرانوں پر متوازن رائے قائم کر نا یوں بھی مشکل ہوتا ہے اور جب مسئلہ ہندو اور مسلم بھی ہو تو بر صغیر کی فضا متوازن رائے قائم کر نے کے لیئے کتنی سازگار ہے، سب جانتے ہیں۔
علاؤالدین خلجی پر بھارت میں حال ہی میں ایک فلم ریلیز ہوئی ہے۔فلم ریلیز ہوتے ہی سوشل میڈیا یعنی سماجی رابطوں کی دنیا میں ایک ہلچل سی مچ گئی، دیگر ذرائع ابلاغ پر بھی فلم پر لے دے شروع ہوگئی۔ تاریخ سے مکمل نابلد افراد نے بھی گفتگو میں بڑھ چڑھ کر رائے زنی کی اور اپنے اپنے حسابوں علاؤالدین خلجی کو دیوتااور نجات دہندہ قوم یا ظالم اور عیاش حکمراں ثابت کرنے کی کوشش کی، حالانکہ تجارتی نکتہ نظر سے بنائی گئی کسی بھی فلم میں بیان کردہ تاریخ ایک سِرے سے اس قابل ہی نہیں ہوتی کہ اس کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
ایک بے معنی بات کو اس قدر اہمیت دینا ہی اصل میں اس تحریر کا محرک بنا کہ مستند تواریخ سے علاؤالدین خلجی کی جو تصویر سامنے آتی ہے اسے بلا کم و کاست بیان کردیا جائے۔ فلمی فسانے کو حقیقت سے جدا کردیا جائے۔ تاریخ دان نہ جج ہوتا ہے نہ وکیل کہ وہ کسی کے اچھے یا برے ہونے پر دلائل دے یا کسی کے اچھے یا برے ہو نے کا فیصلہ صادر کرے۔ وہ صرف حقائق کی چھان پھٹک کرکے واقعات کو معروضی انداز میں پیش کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔اچھے برے ہونے کا فیصلہ قاری پر چھوڑتا ہے ورنہ مورخ اور فلمساز میں فرق کم رہ جائے گا۔ تاریخ کے بیان میں اگر ذاتی پسند یا نکتہ نظر شامل کردیا جاے تو بقول مختار مسعود کے ’’ایسے میں اگر نفس کا کہا مانیں تو تاریخ کا بڑا زیاں ہوتا ہے۔‘‘
سلطان علاؤالدین خلجی
1290 ء میں خاندان غلاماں کے زوال کے بعد دہلی کے نواح میں نو تعمیر شدہ شہر کیلو گڑھی میں ایک افغان امیر جلال الدین خلجی نے سلطانِ ہندوستا ن کا تاج اپنے سر پر رکھتے ہوئے خلجی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔سلطان جلال الدین خلجی ایک خدا ترس اور عوام پرور حکمران ثابت ہوا۔ 1293 ء میں ہلاکو خان کے پوتے نے ہندوستان پر ایک لشکر جرار کے ساتھ حملہ کردیا۔ سلطان جلال الدین خلجی نے تاتاریوں کو شکست فاش دے کر ہندوستان سے لوٹا دیا۔
علاؤالدین خلجی سلاطین دہلی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ وہ جلال الدین خلجی کا بھتیجا اور داماد تھا۔ جلال الدین اپنے معتمد امیر اور سالار کی حیثیت سے علاؤالدین کو مختلف مہمات اور بغاوتوں کی سرکوبی کے لیے بھیجتا رہتا تھا۔ اسی طرح کی مہمات کے دوران علاؤالدین مال و دولت جمع کرتا رہا یہاں تک کہ دیو گیر یا دولت آباد کی ریاست کی فتح کے بعد بے اندازہ دولت علاؤالدین کے ہاتھ لگی۔ دولت کے بل بوتے پر اس نے جلال الدین خلجی کے کئی امراء اپنے ساتھ ملا کر اپنے چچا کا تختہ الٹ دیااور اسے قتل کرکے 1296 ء میں دہلی کا سلطان بن بیٹھا۔
علاؤالدین خلجی کااپنے چچا کو قتل کرکے تخت و تاج کا حصول تومناسب نہیں مگر اقتدار کی جنگ میں یہی کچھ ہوتا چلا آرہا ہے۔ سلطنت کے حصول کے لیے برادر کشی کی روایت ہندوستان کی تاریخ کا حصہ ہے۔ ہندوستان کا ولی صفت سمجھا جانے والا بادشاہ اورنگزیب عالمگیر پانچ سال تک سلطنت کے لیے اپنے بھائیوں سے لڑتا رہا اور آخر کار اپنے تین بھائیوں کو قتل کرکے شہنشاہ ہند بنا۔ اس سے پہلے اورنگزیب عالمگیر اپنے والد شاہجہاں کو بھی ساڑھے سات سال نظر بند یا قید کرچکا تھا۔ اسی شاہجہاں نے اپنے والد جہانگیر کے خلاف کی گئی بغاوت کی معافی حاصل کرنے کے لیے اپنے کمسن بیٹوں اورنگزیب اور دارشکوہ کو بطور ضمانت ملکہ نور جہاں کے پاس رکھوایا تھا۔ اورنگزیب کا جد امجد ہمایوں بھی اپنے بھائی مرزا کامران سے سالوں تخت کی لڑائی لڑتا رہا تھا۔
ایک نظر علاؤالدین خلجی کے دور حکومت پر
آئیے اب ایک نظر علاؤالدین خلجی کے دور حکومت پر ڈالتے ہیں۔ سلطان علاؤالدین خلجی اپنے پیشرو سلطان جلال الدین خلجی کی نسبت ایک نہایت سخت گیر حکمران ثابت ہوا۔ اقتدار حاصل ہوتے ہی پہلے تو اس نے جلال الدین کے خاندان کا خاتمہ کیا اور جلال الدین کے بیٹوں اور داماد کو اندھا کروادیا۔ پھر اپنی ساس اور چچی ملکہ جہاں اور دیگر شاہی خواتین کو دہلی میں قید کردیا۔ اس طرح بغاوت کے تمام امکانات ختم کردیے۔
جلال الدین کے خاندان سے نمٹ کر علاؤالدین خلجی نے سلطنت دہلی کی وسعت کی طرف توجہ دی اور سب سے پہلے گجرات اور سیوستان فتح کئے۔ گجرات کا حاکم راجہ کرن رائے تھا۔ شکست کھا کر راجہ کرن رائے گجرات سے فرار ہوگیا اور گجرات کی رانی کنولہ دیوی کو مسلمان کرکے علاؤالدین خلجی نے اس سے نکاح کرلیا۔
اس طرح آہستہ آہستہ علاؤالدین خلجی ایک کے بعد ایک ہندوستان کی ریاستیں فتح کرتا رہا۔ گجرات اور سیوستان کے بعد دیو گیر، جھالور،سیوانہ، کرنا ٹک، تلنگانہ ، ملابار، اور رومنڈل کی فتح کے بعد ہمالیہ سے لے کر گجرات اور بنگال تک بر صغیر کا تقریباً تمام علاقہ سلطنت دہلی کے زیرنگین آگیا۔ اس طرح علاؤالدین خلجی دولت خلجی کا سب سے زبردست سلطان مانا جاتا ہے۔ اس کی فتوحات میں ملک کا فور نامی غلام کا بھی اہم کردار تھا جسے علاؤالدین نے سپہ سالار کا درجہ دیتے ہوئے ایک بڑے لشکر کی کمان دی ہوئی تھی۔ ملک کافور سے متعلق تاریخ میں مشہور اکثر باتیں بے بنیاد ہیں۔
بہر حال بطور فاتح سلطان علاؤالدین ایک کامیاب بادشاہ تھا ۔مگر بطور حکمران ایک جابر شہنشاہ تھا۔ معمولی سیاسی اغراض کے لئے مخالفین کو قتل کردینا اس کے لیے معمولی بات تھی۔
سلطان علاؤالدین خلجی کی کامیاب مالیاتی پالیسی
بطور منتظم علاؤالدین کامیاب حکمران تھا۔ اس کے دور حکومت میں قیمتوں پر سرکاری کنٹرول نہایت سخت تھا۔ ہر چیز کے سرکاری نرخ مقرر تھے جن سے انحراف ممکن نہ تھا۔ یہ ایک متضاد صفات کا حامل بادشاہ تھا۔ شراب کا رسیا تھا مگر عوام میں سختی کے ساتھ شراب نوشی پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔ قیمتوں پر سخت گرفت ہونے کے سبب عوام کواشیاء خورد نوش با آسانی دستیاب تھیں۔
علاؤالدین خلجی کا دورِ حکومت نہایت پر آشوب تھا کیونکہ اس کے دور حکومت میں ہندوستان کو منگول حملوں کا سامنا تھا۔ منگولوں سے لڑنے کے لیے علاؤالدین کو ایک زبردست فوج کی ضرورت تھی جس کے لیے کثیر رقم درکار تھی۔ علاؤالدین کے مشیروں نے اسے عوام پر ٹیکس عائد کرکے فوج کے لیے سرمایہ جمع کرنے کا مشورہ دیا مگر علاؤالدین خلجی نے کہا کہ ہندوستان کی عوام پہلے ہی مشکلات میں گھری ہوئی ہے ایسے میں مزید ٹیکس کی ادائیگی ان کے لیے دشوار ہوگی۔
چنانچہ فوجی ضروریات پوری کرنے کے لیے علاؤالدین خلجی نے ایک مکمل مالیاتی پالیسی تشکیل دی۔ اس پالیسی کے تحت اس نے مملکت کے بازاروں کو نرخوں کے حوالے سے ایک مربوط نظام کا پابند کرتے ہوئے ہر چیز کے نرخ مکمل طور پر اپنے دربار سے منسلک کردیے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں علاؤالدین خود طے کرتا اور پورے ہندوستان میں تاجر اشیاء ایک ہی نرخ پر فروخت کرتے۔ علاؤالدین نے باقاعدہ اناج منڈی، سبزی منڈی اور مویشی منڈی قائم کی۔ ان منڈیوں میں عوام کو عام استعمال کی اجناس اور مال مویشی سرکاری نرخوں پر دستیاب ہوتے تھے۔ علاؤالدین نے باقاعدہ تھوک اور پرچون کے علیحدہ بازار قائم کیے اور ان کے علیحدہ علیحدہ نرخ مقرر کیے۔ اگر کوئی تاجر ان نرخوں سے زائد قیمت وصول کرتے ہوئے پکڑا جاتا تو اسی بازار میں اسے سخت سزائیں دی جاتیں۔
اس پالیسی پر عمل کرتے ہوئے علاؤالدین خلجی کے زمانے میں ہندوستان کی عوام نہایت خوشحال ہوگئی اور حکومت کو محاصل کی مد میں کثیر رقم ملنے لگی۔اس طرح علاؤالدین خلجی کو تاریخ میں اعلیٰ درجہ کا مالیاتی ماہر تسلیم کیا جاتا ہے اور بعد میں یورپ میں کئی جگہ مالیاتی پالیسی سازی کے دوران خلجی کا مالیاتی ماڈل نقل کیا گیاہے۔
سلطان علاؤ الدین خلجی کو ہندوستان کا پہلا سوشلسٹ لیڈر بھی کہا جاتا ہے۔ وہ پہلا ہندوستانی حکمران تھا جس نے جاگیردارانہ نظام کو ختم کرتے ہوئے زمینداروں کی زمینداری محدود کردی۔ اس طرح اس کے دور میں کاشت کارخوشحال ہوگیا۔علاؤالدین نے باقاعدہ زرعی اصلاحات نافذ کیں۔
سلطان علاؤالدین خلجی کا ہندوستان کے باشندوں پر احسان عظیم
1219 ء میں قراقرم سے اٹھنے والا طوفان چنگیز خان کی سربراہی میں ماورا لنہر کے علاقوں سمرقند، بخارا، قوقند جیسے علم و فضل کے مراکز کو برباد کرچکا تھا۔ اس طوفان نے چین کی مملکت کے بعد خوارزم کی اسلامی حکومت کی بھی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔
چنگیز خان کے بعد اس کے پوتے ہلاکو خان نے 1258 ء میں بغداد کو تباہ کرکے خلاف عباسیہ کا بھی خاتمہ کردیا تھا۔ اس دوران مفتوحہ علاقوں میں تاتاریوں نے ظلم و ستم کی جو داستانیں رقم کی وہ بذات خود اپنے اندر بے شمار عبرت ناک کہانیاں لیے ہوئے ہیں۔
سقوط بغداد کے بعد منگول حملہ آوروں کا نشانہ سرزمینِ ہندوستان تھی۔ علاؤالدین سے پہلے بھی دہلی کے مسلم سلاطین نے تاتاری افواج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔ مگر سلطان علاؤالدین کے دور میں ہلاکو خان کے پوتے اور دیگر منگول سرداروں نے مسلسل حملے کئے۔ کئی دفعہ تو وہ دہلی تک بھی پہنچ گئے ۔ مگر علاؤالدین نے ہر دفعہ انہیں زبردست شکست دی اور دو ، دو لاکھ کے لشکر کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ علاؤالدین نے جلال الدین خلجی کے دور حکومت میں بھی تاتاریوں کو شکست دی تھی مگر اس کے اپنے دور میں تاتاری حملہ آور تعداد میں کئی گنا زیادہ تھے اور زیادہ منظم بھی مگر پھر بھی فتح ہر دفعہ علاؤالدین کا مقدر بنی۔ اس طرح ہندوستان کے باشندوں پر سلطان علاؤالدین خلجی کا یہ احسان عظیم ہے کہ اس نے اپنے زورِ بازو سے وحشی تاتاریوں کا سیلاب نہ صرف روکا بلکہ انہیں واپس ان کے علاقوں میں دھکیل دیا۔ اس طرح اہل ہند ان مظالم اور بربادی کی داستانوں سے محفوظ رہے جو سمر قند اور بخارا کے باشندوں کا مقدر بن گئی تھیں۔
رانی پدمنی یا پدماوتی کی فرضی داستان اور اس کی حقیقت
رانی پدمنی یا پدماوتی کی داستان صرف اور صرف ایک افسانہ ہے اور تاریخی طور پر اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ سارا افسانہ دراصل 1540 ء میں اودھی زبان کے مشہور شاعر ملک محمد جائیسی کی تخلیق ہے۔ اس نے لوک داستان کی طرز پر ایک نظم ’’پدماوت‘‘ لکھی تھی۔ ملک محمد جائیسی کی نظم ایک بولنے والے طوطے کے گرد گھومتی ہے جو اس لوک داستان کا مرکزی کردار ہے۔
علاؤالدین خلجی اور چتوڑ کی فتح
خلجی سلطنت میں وسعت کے حوالے سے 1303 ء میں علاؤالدین خلجی نے چتوڑ کے قلعے کا محاصرہ کیا۔ چتوڑ پر قبضہ کرنا علاؤالدین کی اپنی سرحدی حدود میں اضافہ کی پالیسی کا حصہ تھا، اس حملے کی اس کے سوا اور کوئی وجہ نہ تھی۔ باقی سب کچھ ملک محمد جائیسی کی خیال آرائی ہے اور اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا۔
28جنوری 1303 ء میں شروع ہونے والی اس مہم کا اختتام آٹھ ماہ کی جنگ کے بعد 26اگست1303 ء میں ہوتا ہے جب علاؤالدین خلجی فاتح کی حیثیت سے قلعے میں داخل ہوا۔
امیر خسرو کی گواہی
چتوڑ کی اس مہم میں مشہور شاعر اور موسیقار امیر خسرو بھی علاؤالدین خلجی کے ساتھ بطور درباری شریک تھا۔امیر خسرو نے اپنی تصنیف ’’خزائن الفتح‘‘ میں چتوڑ کی مہم کا احوال درج کیا ہے۔ اس میں امیر خسرو نے قلعے کا محاصرہ، منجیقوں کے ذریعے سنگ باری اور دوران محاصرہ برسات جیسے چھوٹے چھوٹے واقعات کا بھی ذکر کیا ہے۔ چتوڑ کی فتح کے بعد علاؤالدین نے قلعے میں محصور ہندوؤں کے قتل عام کا حکم جاری کیا جس میں تیس ہزار ہندو قتل کئے گئے ۔ اس کی بھی تفصیل ’’خزائن الفتح‘‘ میں ملتی ہے۔ مگر امیر خسرو نے کہیں بھی چتوڑ پر حملے کی وجہ کسی رانی کو قرار نہیں دیا بلکہ ’’خزائن الفتح‘‘ میں چتوڑ کی رانی کا ذکر ہی نہیں۔
چتوڑ کا راجہ جس کا نام تاریخ میں ’’رتنا سمہا‘‘ ملتا ہے اس کے بارے میں امیر خسرو لکھا ہے کہ اس نے علاؤالدین خلجی کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے تھے اور علاؤالدین نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہوئے اسے چتوڑ سے جانے کی اجازت دے دی تھی۔ امیر خسرو کے بیان کی تصدیق ’’تاریخ فیروز شاھی‘‘ کا مصنف ضیاء الدین برنی اور ’’فتح السلاطین‘‘کا مصنف عبدالمالک اسامی بھی کرتا ہے۔ جبکہ ملک محمد جائیسی نے راجا رتنا سمہا کا نام ہی تبدیل کردیا اور اسے راجہ رتن سین کے نام سے یاد کرتے ہوئے افسانوی انداز میں علاؤالدین خلجی کے ساتھ پیش کیا۔ مزید یہ کہ چتوڑ کی فتح کے بعد قلعے کی خواتین کا آگ میں کود جانے کا تذکرہ بھی امیر خسرو نہیں کرتا جبکہ فتح کے بعد اس وقت امیر خسرو قلعے میں ہی موجود تھا !
مختصراً یہ کہ رانی پدمنی یا پدماوتی کا ذکر چتوڑ کے حوالے سے کہیں بھی تاریخ میں نہیں ملتا بلکہ سولہویں صدی عیسوی کے مشہور مورخ محمد بن قاسم شاہ فرشتہ نے اپنی تصنیف ’’تاریخ فرشتہ‘‘ میں لکھا ہے کہ رانی پدمنی چتوڑ کے راجا رتنا سہما کی بیٹی کا نام تھا۔ اس طرح تو یہ پورا قصہ ہی باطل قرار پاتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب خلجی کے دورِ حکومت کے ڈھائی سو سال بعد ایک شاعر کے ذہن کی اختراع ہے جس کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔
سلطان علاؤالدین خلجی کے آخری سال
پے درپے کی کامیابیوں نے علاؤالدین خلجی کو حد درجہ مغرور اور خود پسند بنا دیا تھا۔ وہ اپنے آپ کو انسان سے بلند کوئی مخلوق تصور کرنے لگا تھا۔ اس نے ’’سکندر ثانی‘‘ کا لقب اختیار کرلیا تھا۔ اس کے زمانے کے دریافت شدہ سکوں پر بھی ’’سکندر ثانی‘‘ کا لقب واضح طور پر لکھا ملتا ہے۔ ایک وقت میں علاؤالدین کو ایک نیا مذہب ایجاد کرنے کا بھی خیال آیا اور وہ دعوٰی پیغمبری کرنے کا سوچنے لگا مگر امرائے سلطنت نے اسے اس ادارے سے باز رکھا۔ تقریباً 20سال تک حکومت کرنے کے بعد سلطان علاؤالدین خلجی کی موت1316 ء میں پراسرار انداز میں ہوئی ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ملک کافور نے اسے زہر دے کر مارا تھا۔ اس طرح برصغیر ہندوستان کا ایک عظیم مسلمان حکمران اپنے غلام کے ہاتھوں ہی مارا گیا۔
9 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
فلسطین میں جنگ بندی
فلسطینی مجاہدین کی استقامت رنگ لائی اس کا نتیجہ جنگ بندی کی صورت میں سامنے ہے۔ اسرائیلی حکومت جو کچھ عرصہ پہلے فلسطینیوں کوختم کرنے کے دعوے کر رہی تھی اب اپنے قیدی چھڑوانے کے لئے حماس کی شرائط کو ماننے پر مجبور ہے،یہ خدا کی مدد کی ایک جھلک ہے۔
فلسطینی مجاہدین کے عزم ہمت اور حوصلوں کی داستانیں ہر شخص کی زبان پر عام ہیں وہ جس بلند مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں وہ اللہ کو پسند ہے وہ اپنے وطن کی آزادی مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں انہوں نے اپنے گھر بار، عزیز ، رشتہ دار ، مال ، دولت حتی کہ اپنی جانیں بھی اس مقصد کے لیے قربان کر دیں۔ حماس کے رہنماؤں کی شجاعت زبان زد عام ہے ان کی زندگی ، ان کی ترجیحات کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ ظلم اور تشدد کے خاتمے کے لیے بد نیت اور بد اصل صیہونی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔
اسرائیل ایک عالمی دہشت گرد ہے اس کے وزیراعظم کو عالمی عدالت نے جنگی مجرم قرار دیا ہے جسے اپنے مذموم انتہا پسند عزائم کا اعلان کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے جنگ کے عالمی اصولوں کو بھی توڑا بچوں، عورتوں اور زخمیوں کا قتل عام کیا مگر آخر کار مجاہدین کی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور جنگ بندی پر مجبور ہو گیا۔
ہر چند کہ یہودیوں نے اسرائیل کی جنگ میں پیسہ پانی کی طرح بہا دیا نشریاتی اداروں کو خریدا سوشل میڈیا پر مہم چلائی تاکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر سکے لیکن شہیدوں کا خون رنگ لایا ، جذبہ جہاد کی بدولت مجاہدین کی مٹھی بھر فوج نے جدید ہتھیار رکھنے والی اسرائیلی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی حکومت کا غرور خاک میں ملا دیا اور اس نے جنگ بندی کے ساتھ حماس کی شرائط پر قیدیوں کے تبادلے کو قبول کر لیا۔
اسرائیل اپنے حواری امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی کی بدولت جنگ کو مسلسل پھیلا رہا تھا جس میں بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع اس کی انسانیت دشمنی کی کھلی دلیل ہے۔ سول آبادی پر بمباری اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنا دینے کے ساتھ کھلے عام فلسطینیوں اور ان کے بچوں تک کو ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کر کے اسرائیل نے ثابت کر دیا کہ اس کی نظر میں انسانیت کا کوئی احترام نہیں اس کے برعکس حماس کی مٹھی بھر فوج نے یہ ثابت کر دیا کہ حق بات کے لئے آواز اٹھانے اور مظلوم کی مدد کے لیے لڑنے والوں کا مددگار اللہ ہے وہ ان کا رعب دشمنوں کے دلوں پر طاری کر دیتا ہے جس کی بدولت دنیا کی کوئی قوت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
دنیا بھر کے مسلمانوں نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کے لیے آواز اٹھائی اور دعائیں کی۔ ان شاءاللہ فتح مجاہدین کا مقدر ہے مگر فلسطین میں اس وقت جنگ بندی میں مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ سبق ہے کہ جب حماس کی...
فیملی ولاگنگ کے معاشرے پر اثرات
معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی برائیوں میں سے ایک برائی فیملی ولاگنگ جس کو آپ عرف عام اپنی نجی زندگی کو پوری دنیا کے سامنے ظاہر کرنا ہے جس میں آج کل ولاگر شرم و حیا کا پاس رکھے بغیر خوشی خوشی اپنے گھر والوں کو جس میں خاص طور پر خواتین کو شامل کیا جانے لگا ہے شو کرتے ہیں اور پھر ایسی ویڈیوز بنا کر عوام میں پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا کا کردار جہاں ہماری زندگیوں میں مثبت اثرات پیدا کر رہا ہے وہیں پر منفی اثرات بھی جنم لے رہے ہیں۔
تفریح کے نام پر سوشل میڈیا کے ذریعے بے حیائی و فحاشی پھیلائی جارہی ہے جس کا ایک ذریعہ ولاگنگ ہے۔
پہلے پہل ولاگنگ کا آغاز صرف اور صرف اپنے کاروبار کی تشہیر کے لیے ہوا تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ رجحان تبدیل ہوا اور پھر ذاتی زندگی کو عوام کے سامنے لانا اور اپنے خاندان کے ساتھ پوری زندگی کا یہاں تک کے میاں بیوی کے نجی معاملت بھی منظر عام پر لائے جانے لگے۔
اپنے پورے دن کی روٹین کو، اپنے ذاتی معاملات کو اپنے ازداوجی زندگی کو دنیا کے سامنے پیش کیا جانے لگا اور دھیرے دھیرے حیا کا لبادہ اترتے اترتے نوبت یہاں تک آگئی کہ لوگ اپنے بند کمروں کے پیچھے ہونے والی روٹین کو بھی شوق کے ساتھ شیئر کرنے لگے جس کا مقصد صرف اور صرف چند لائیکس اور پیسہ کمانا ہے۔۔
اس فیملی ولاگنگ نے جہاں سوشل میڈیا کے مثبت کردار کو دھندلا دیا ہے وہیں معاشرے پر اور خاص طور پر نوجوان نسل پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس میں سب سے زیادہ ان کے اندر سے شرم و حیا کی تمیز ختم ہونا ہے۔
اپنے گھر کی عورتوں کو دنیا کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کرنا اور پھر ان کے ساتھ نازیبا حرکتیں کرکے تفریح کے نام پر نواجونوں کی منفی ذہن سازی کی جارہی ہے۔
نوجوانوں کے اندر دنیا پرستی کے ساتھ ساتھ دنیاوی آسائیشوں کے پیچھے بھاگ دوڑ کرنا اور اپنے کیئریر بنانے کے بجائے منفی عادتوں کو اپنانا اور پھر دھیرے دھیرے مادہ پرستی میں مبتلا ہوکر ذہنی مریض بن جانا اور معاشرے کے لیے کارآمد بننے کے بجائے ناسور بن جانا اس فیملی ولاگنگ کا سب سے بڑا برا اثر ہے۔۔
حکومت اور ملحقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی تفریحات کے نام پر ہونے والی بےحیائی پر فی الفور پابندی عائد کرے اور سوشل میڈیا کے مثبت استمعال کے فروغ کے لیے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے تاکہ نوجوان نسل اپنی صلاحیتوں کو اپنی ذات کی بہتری کے لیے کارآمد بنا سکیں۔
بچوں کی ذہنی نشوونما کیجئے
بچوں کے ذہن میں کثرت سے سوالات پائے جاتے ہیں۔ ان کے معصوم و نامعقول سوالات کے جوابات بہت ہی عقل مندی اور تحمل سے دینے چاہیے۔ہم سے بچے چھوٹے چھوٹے سوالات پوچھتے ہیں۔یہ ان کے سوالات ہمیں بے معنیٰ و بے مقصد نظر آتے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں بالکل عار نہیں ہے کہ ہمیں ان کے سوالوں کا مقصد ہی سمجھ میں نہیں آتا، اسی لیے ہم انہیں خاموش رہنے کو کہتے ہیں اس پر ہی اکتفاء نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں ’’ تمہیں توکچھ نہیں آتا‘‘ ،’’تم تو کچھ نہیں جانتے ‘‘،’’تم کواتنی سے بات بھی نہیں معلوم‘‘،ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں ان کے سوالات کو ایک رخ اور سمت دینا چاہیے۔اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے توہمیں خود اس سے سوال پوچھنے چاہیے۔ اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یاتو بچہ بات سمجھ گیا ہے یا پھر بچہ کا ذہن تشکیک کا شکار ہے۔ بچے سوال کیوں نہیں کرتے؟ ہمیں نہ صرف اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ بچوں کے سوالات کے تشفی بخش جوابات بھی دینے ہوں گے۔
ایک بچہ اپنے باپ سے سوال کرتا ہے کہ’’ اسے امتحان میں کم نمبر کیوں ملے ؟
باپ نے کہا ’’تم نے پڑھائی کم کی ہے اسی لیے نمبر بھی کم ملے ہیں۔ آئندہ زیادہ محنت سے پڑھوگے تو ان شاء اللہ نمبر بھی اچھے ملیں گے‘‘۔ بچے نے اگلی بار زیادہ محنت کی اور اچھے نمبر حاصل کیے۔ پھراگلی بار اس نے اور زیادہ محنت سے پڑھائی کی لیکن کم نمبر حاصل ہوئے۔ بچے نے والد سے پوچھا کہ میں نے بہت زیادہ محنت سے پڑھائی کی، پھر بھی مجھے مطلوبہ نمبر نہیں ملے، ایسا کیوں ہوا؟ باپ نے جھنجھلاکر کہا،’’یہ تمہاری قسمت ہے، اور کیا؟‘‘
بچے سے تمہاری قسمت کہنا یہ اس کے سوال کا درست جواب نہیں ہے۔اس کا درست جواب ہونا چاہیے کہ ’’بیٹے یہ میں نہیں جانتا۔‘‘ آئو ہم دونوں مل کر اس کی وجہ تلاش کر تے ہیں‘‘۔جب بچے کو معلوم ہوتاہے کہ اسے جواب تلاش کرنا ہے اسی وقت اس کی فکری صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں اور اس میں فکری عمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔
بچوں میں ذہانت کے فروغ کے لیے ان کے فکر ی سوتوں کو مہمیز کیاجائے! بچوں میں ذہانت کے فروغ سے مراد ان میں سوچنے کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔جب ہم بچوں میں تفکر و تدبر کی حوصلہ افزائی کا کام انجام دیتے ہیں اسی لمحے ان میں ذہانت کے فروغ کا عمل شروع ہوجاتا ہے اوران کی ذہانت میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔فکر و تدبر اور سوچنے کے عمل کو مہمیز کرنے کے کئی طریقے ہیں جو بچوں کے بائیں دماغ کو اور بعض اوقات دائیں دماغ کو فعال ومتحرک بناتے ہیں۔
دماغ و ذہانت کا فروغ اختیار کردہ فکر و تدبر کے انداز و طریقہ کار پر منحصر ہوتا ہے۔جن میں سب سے آسان طریقہ بچوں سے سوالات کرنا ہے۔جب بچے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے لگتے ہیں تو پھر یہ کوشش ان کے ذہن اور ذہانت کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔بچوں میں فکر...
فون کیوں نہیں کیا؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ ایک ایسی داستان بن چکا ہے جو قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتی رہتی ہے۔ یہ داستان ظلم، بے حسی، اور بین الاقوامی سیاست کے تلخ حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایک معصوم پاکستانی خاتون امریکی جیل میں زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہی ہے تو ہمارے حکمران کیوں خاموش ہیں؟ آخر انہوں نے امریکی صدر کو فون کیوں نہیں کیا؟
یہ سوال نہ صرف ہماری قیادت کی ترجیحات پر سوالیہ نشان ہے بلکہ ہماری اجتماعی قومی غیرت کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ امریکی صدر کو ایک فون کال کرنا شاید اتنا مشکل نہیں تھا جتنا ہمارے حکمرانوں کے لیے اپنی کرسی بچانا اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اہم ہے۔ یہ فون کال نہ صرف ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا ذریعہ بن سکتی تھی بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیتی کہ پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں طاقت اور مفادات کا کھیل ہوتا ہے، لیکن قوم کی عزت و وقار کا سودا کرنا کہاں کی حکمت ہے؟ کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ احساس نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ ایک قوم کی بیٹی ہے؟ وہ قوم جو ان سے جواب طلب کر رہی ہے کہ جب دنیا کے دوسرے ممالک اپنے شہریوں کے لیے ہر حد تک جاتے ہیں تو پاکستان کیوں خاموش تماشائی بنا ہوا ہے؟
شاید مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنی ترجیحات میں عوام اور قومی غیرت کو شامل ہی نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ فون کال ان کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتی تھی، اور یہی سوچ عافیہ کیس کو پسِ پشت ڈالتی رہی۔
اگر ہمارے حکمران امریکی صدر کو فون کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتے، تو یہ نہ صرف انصاف کا تقاضا ہوتا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے، یہ کال نہ کی گئی، اور ڈاکٹر عافیہ آج بھی اپنے وطن واپسی کی منتظر ہیں۔
ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہکیا ہم اپنی قیادت سے ایسے اقدامات کی امید رکھ سکتے ہیں جو قومی غیرت کے عکاس ہوں؟ یا ہمیں ہمیشہ یہی سننا پڑے گا کہ "فون کیوں نہیں کیا؟"
ہائے ایسی زبوں حالی میں میرےذہن میں آیا کہ میں تاریخ میں پلٹ کر دیکھوں میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عزتوں کی حفاظتوں کے متعلق کیسی حساسیت رکھتے تھےتومجھےکسی مسلمان کی نہیں بلکہ غیرمسلم کی بیٹی عدی بن حاتم کی بیٹی قیدیوں کی قطاروں میں کھڑی نظرآئی جس کےسرپہ دوپٹہ نہ تھا میرے نبی اپنی پاک ردا سے اس کے بدن کوڈھانپااور اس کو بحفاظت اپنے پاس رکھا۔جب اس کےاہلخانہ کے متعلق معلوم ہواتو آپ نے اپنے صحابہ کی معیت میں بحفاظت اس کواس کےگھرپہنچایا۔
اےمیری ملت کے حکماء و محافظو! آپ کس کے طریقے کی پیروی کرنے چل پڑےہیں؟ دیکھیں تو اسوۂ رسول کیسے انمول اسباق لیے ہمارے سامنے موجودہے یہاں سے سیکھیے۔اپنی بیٹی ،اپنی عزت،اپنادرد سمجھتےہوئےعافیہ کی حریت کےلیےاقدامات۔۔۔
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر !
یہ مہربانی نہیں بلکہ فرضِ عین ہےجس...
کرپشن سے چھٹکارا
بلاشبہ افراد قوموں کو بناتے ہیں اور فرد کا کردار قوم کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے ،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری ، پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، زخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقینااس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے ، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے ؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔
حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نیک اور صاحب کردار ہوتے ہیں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یعنی جیسے عوام ہوں ویسے حکمران ان پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے ۔ ایک حدیث میں خام النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ’’جیسی قوم ویسے حکمران‘‘۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال ، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر،اینٹوں ولکڑی کا بورا،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم،...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
خوب لکھتے ہیں آپ عدیل سلیم صاحب ، مزا آگیا تاریخ کے جھروکوں کے عمدہ اوراق ، سلامت رہیں
ماشاءاللہ عدیل ۔۔ آپ واقعی تاریخ کے بھولے بسرے دور کی سیر کروا دیتے ہیں۔
آپکے مضامین دلچسپ و معلوماتی بھی ہوتے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ بعد میں کسی وقت ان تمام مضامین کو کتابی شکل میں بھی شایع کیا جائے۔
اس سے پُرانی نسل کی یادیں تازہ بھی ہو جاتی ہیں اور ہمیں اپنی نئی نسل کو بھی تاریخ سے روشناس کرانا آسان ہو جائے گا۔
اعظم صاحب!
انشاءاللہ کوشش کریں گے
ماشاءاللہ بہت خوب ہمیشہ کی طرح ۔۔۔
تاریخ کے ایسے کئی متنازعہ موضوعات آپ کی توجہ کے منتظر ہیں عدیل صاحب۔
محنت اور جستجو جاری رکھیں۔
Really this is a lot intersting information
شکریہ عدیل صاحب
ماضی کے جھروکوں سے اہم اور سبق آموز واقعات ہم تک پہنچانے کے لیے….
امید ہے ہم اپنے مستقبل کو بہتر کر سکیں گے…
ڈھیر ساری دعائیں آپ کے لیے…
جزاک اللہ عبید الرحمن صاحب
ماشاء اللہ…. برادر عدیل سلیم تاریخی حقائق رواں دواں تبصرے کی صورت میں تاریخی کتب کے حوالہ جات کے ساتھ عام فہم انداز میں پیش کرتے ہیں. جس کی وجہ سے قاری کی دلچسپی شروع سے آخر تک برقرار رہتی ہے. کسی سنجیدہ موضوع پر اس طرح دلچسپی کا برقرار رہنا یقیناً ایک خوبی ہے. یہی وجہ ہے کہ اب برادر عدیل سلیم کے مضمون کا انتظار رہتا ہے اور تاریخ کے مختلف گوشوں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے. آج کل میڈیا کی مختلف جہات پر مشتمل مشینری کے ذریعے کسی بھی قسم کا منفی پروپیگنڈا کرنا بہت آسان ہو گیا ہے. پروپیگنڈا مشینری کا ایک طاقتور tool فلم بھی ہے. فلم کے ذریعے عوام الناس بہت آسانی کے ساتھ ایسے پروپیگنڈا کا شکار ہو جاتے ہیں. کچھ اسی نوعیت کا معاملہ مذکورہ بالا مضمون میں بھی پیش کیا گیا ہے. انڈیا کی میڈیا مشینری قیامِ پاکستان کے وقت سے پاکستان، بانیانِ پاکستان اور برصغیر پر ہزار سال تک حکمرانی کرنے والے مسلمان بادشاہوں کے خلاف مسلسل منفی پروپیگنڈا کر رہی ہے. جس کی ایک واضح مثال بابری مسجد کو رام مندر قرار دینا ہے جس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے، بلکہ خود ہندو مذہبی کتب میں رام کی جائے پیدائش کے مقام پر تضاد پایا جاتا ہے، جن کے مطابق رام کی جائے پیدائش بہرحال بابری مسجد کی جگہ ہر گز نہیں ہے. اسی طرح رانی پدما وتی کا قصہ بھی محض ایک شاعر کا تخیل ہے. شاعر کے مطابق اسے ایک طوطے نے سری لنکا کی ایک شہزادی کے حسن و جمال کے بارے میں بتایا. یہ بات راجہ تک پہنچی تو وہ کسی طرح سے رانی پدما وتی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا. اور پھر اس قصہ کو خواہ مخواہ علاوالدین خلجی تک طول دے کر مذکورہ فلم کے ذریعے ایک مسلمان بادشاہ کی شخصیت کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی. جب کہ برادر عدیل سلیم نے مسند تاریخی کتب کے حوالوں سے اس قصے کی حقیقت کو بخوبی عیاں کرتے ہوئے ہمیں اور جسارت کے قارئین کو اصل بات سے آگاہی فرمائی. بہت شکریہ برادر عدیل سلیم جملانہ…..
بہت خوب ماشاءاللہ