زر گزشت کے دیباچے ’تزک یوسفی ‘ میں وہ لکھتے ہیں :’’ہمارے دور کے سب سے بڑے مزاح نگار انشا ؔکے بارے میں کہیں عرض کر چکا ہوں کہ ’بچھو کاکاٹاروتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے لیکن انشا ؔجی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے ۔جس ’شگفتہ نگار‘ کی تحریر اِس معیار پر پوری نہ اُترے اُسے یونیورسٹی کے نصاب میں داخل کر دینا چاہیے ‘‘وہی عظیم ابن انشاؔلکھتے ہیں کہ ’’اگر مزاحیہ ادب کے موجودہ دَور کو ہم کسی نام سے منسوب کر سکتے ہیں تو وہ یوسفی ہی کا نام ہے ‘‘ بعد میں ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے اسی قول انشا ء کو دوہراتے ہوئے اس طرح لکھاکہ ’’ہم اردو مزاح کے ’عہد ِ یوسفی ‘میں جی رہے ہیں ‘‘!
بلا شبہ شوکت تھانوی ،غلام احمد فرقت کاکوروی ،مرزا فرحت اللہ بیگ ،شفیق ا لرحمن ،کرنل محمد خان اور مجتبیٰ حسین بھی اقلیم طنز و مزاح کے حکمرانوں میں سے ہیں لیکن مشتاق یوسفی (۱۹۲۳۔۲۰۱۸)نے اپنی۹۵ سالہ زندگی میں ، صرف پانچ کتابوں(چراغ تلے ۱۹۶۱خاکم بہ دہن ۱۹۶۹زر گزشت ۱۹۷۶آب گُم ۱۹۹۰اور شام شعر یاراں۲۰۱۴ ) کے ذریعے جن کی مجموعی ضخامت دو ہزار صفحات سے بھی کم ہے ،طنز و مزاح کی دنیا میں جو ’مقام ِبلند‘ حاصل کیا ہے وہاں آج بھی صرف مشتاق یوسفی ہی متمکن ہیں ! بے شک اُنہیں حاصل اِس سعادت میں خدائے بخشندہ کی عطا اور اُن کا زورِ قلم دونوں شامل ہیں ۔
اپنی شگفتہ تحریروں سے ہمارے چہروں پر سدا مسکراہٹیں بکھیرنے والے آج (ابن سینا اکیڈمی )کے اِس جلسہ ءِتعزیت کے ’مرحوم خصوصی ‘ مشتاق احمد یوسفی کی جگہ شاید ہی کبھی کوئی پُر کر سکے !
ڈاکٹر خالد مبشر وہ اولین اردو ادیب ہیں جنہوں نے ۲۰ جون (۲۰۱۸)کو اُن کے انتقال کی خبر نشر ہوتے ہی سوشل میڈیا پر سب سے پہلے اُنہیں خراج عقیدت پیش کیا تھا :
’’آہ مشتاق احمد یوسفی ! دنیا تجھے طنزو مزاح نگار کہتی ہے لیکن میں تو تیرے ہر لفظ کی تہ میں ایک عظیم الشان تہذیب ِ رفتہ کے زوال کا نوحہ سنتا ہوں ۔تیرے الفاظ کا ملمع ہنستا ہے لیکن اس کے نیچے سسکیوں کی آوازیں صاف سنائی دیتی ہیں ۔ہجرت کا کرب ،نا آسودہ بشری خواہشات کی چیخیں اور یاد ماضی کی کربلا ۔۔ان لفظوں کی آہوں میں سبھی کچھ تو چھپا ہوا ہے !آہ مشتاق یوسفی ! تو نے ’چراغ تلے ‘کے سرنامے پر کبیر کا یہ دوہا لکھا تھا لیکن اس پر کسی کی نظر نہ گئی ۔۔:
لکڑی جل کوئلہ بھئی، کوئلہ جل کر راکھ ۔۔ میں پاپن ایسی جلی ،کوئلہ بھئی نہ راکھ ۔۔! ‘‘
زر گزشت کے دیباچے میں اپنی مزاح نگاری کا ’سبب‘ بیان کرتے ہوئے مشتاق یوسفی نے لکھا ہے کہ ’’جہاں سچ بول کر سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑتا ہے وہاں چتُر مزاح نگار الف لیلیٰ کی شہر زاد کی طرح ایک ہزار ایک کہانیاں سناکر اپنی جان اور آبرو صاف بچا لے جاتا ہے ۔‘‘
وہ نقاد تھے نہ ’دکتور ادب ‘ ، نہ کسی جامعہ میں اردوپڑھانے والے پروفیسر ۔وہ قانون کے گریجوئٹ(L L B) ،فلسفے کے پوسٹ گریجوئٹ MA in Philosophyاور پیشے سے ایک بنکارتھے ۔انہی کے لفظوں میں ’’(زرگزشت کے) واقعات ،مشاہدات اور مآثرات کا تعلق میرے بینکنگ کیرئر کے ان ابتدائی چھے سات برسوں سے ہے جب اِس پیشے کا ’بھرم ‘ قائم تھا ۔البتہ اِنشورنس ایجنٹوں سے لوگ چھُپتے پھرتے تھے ۔پھر وہ زمانہ بھی آیا کہ انشورنس ایجنٹ تک بینکروں سے منھ چھُپانے لگے ۔۔پھرتے ہیں سود خوار کوئی پوچھتا نہیں ۔۔مزاح نگار کو جو کچھ کہنا ہوتا ہے وہ ہنسی ہنسی میں اِس طرح کہہ جاتا ہے کہ سننے والے کو بھی بہت بعد میں خبر ہوتی ہے ۔میں نے کبھی کسی پختہ کار مولوی یا مزاح نگار کو محض تقریر و تحریر کی پاداش میں جیل جاتے نہیں دیکھا ۔لیکن ،مزاح کی میٹھی مار بھی شوخ آنکھ ،پُر کار عورت اور دلیر کے وار کی طرح کبھی خالی نہیں جاتی ۔۔(میں)اپنے وسیلہء اظہار ۔مزاح۔کے باب میں کسی خوش گمانی میں (بھی)مبتلا نہیں ۔قہقہوں سے قلعے کی دیواریں شق نہیں ہوا کرتیں ۔چٹنی اور اچار لاکھ چٹخارے دار سہی ،لیکن اُن سے بھوکے کا پیٹ نہیں بھرا جا سکتا ۔نہ سراب سے مسافر کی پیاس بجھتی ہے۔۔ہاں ،ریگستان کے شدائد (ضرور )کم ہو جاتے ہیں ۔ زندگی کے نشیب و فراز ،اندوہ و انبساط ، کرب و لذّت کی منزلوں سے بے نیازانہ گزر جانا بھی بڑے حوصلے کی بات ہے ! ۔۔مگر یہ بھی نہ بھولنا چاہیے کہ سبھی کی مسکراہٹیں اور ہنسی ایک جیسی نہیں ہوا کرتی ۔کوئی بڑا گرتا ہے تو چھوٹے ٹھٹھے لگاتے ہیں ۔قومیں جب اللہ کی زمین پر اِترا اِترا کر چلنے لگتی ہیں تو زمین اپنی زہر خند سے شق ہو جاتی ہے اور تہذیبیں اُس میں سما جاتی ہیں ۔شیر خوار بچے خوش ہوتے ہیں تو کلکاریاں مارتے ہمک کر ماں کی گود میں چلے جاتے ہیں ۔اُدھر مونا لیزا ہے کہ صدیوں سے مسکرائے چلی جا رہی ہے۔ اور ایک مسکراہٹ وہ بھی ہے جو ’نِروان ‘ کے بعد گوتم بدھ کے لبوں کو ہلکا سا خمیدہ کر کے اس کی نظریں جھکا دیتی ہے۔یہ سب سہی ،لیکن ،ماورائے تبسم ،وہ مزاح جو سوچ ،سچائی اور دانائی سے عاری ہو وہ دریدہ دہنی ،پھکڑ پن اور ٹھٹھول سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ۔زر ،زن ،زمین اور زبان کی دنیا،یک رخوں ،یک چشموں کی دنیا ہے ۔مگر تتلی کی سیکڑوں آنکھیں ہوتی ہیں ۔اور وہ ان سب کی مجموعی مدد سے دیکھتی ہے ۔’شگفتہ نگار ‘بھی اپنے سارے رنگ بکھیر کے کسی نئے اُفق ،کسی اور شفق کی تلاش میں گم ہوجاتا ہے ۔‘‘۔
مشتاق یوسفی اپنے سماج اور دنیا کو تتلی جیسی سیکڑوں آنکھوں سے دیکھنے والے ایسے ہی ’شگفتہ نگار ‘ تھے جن کے یہاں نہ پھکڑ پن ہے،نہ ٹھٹھول ، نہ دریدہ دہنی بلکہ جو کچھ ہے وہ صحرائے زندگی کے شدائد کم کرنے اور نشیب و فراز و اندوہ و انبساط کی منزلوں سے بے نیازانہ گزار دینے والا سوچ ،سچائی اور دانائی سے لبریز ماورائے تبسم مزاح ہے اور بس !
آخر میں ،ممتاز و منفرد ادیب و نقاد مجنوں گورکھپوری (مرحوم )کے اِن الفاظ پر ہم اپنے اِس خراج عقیدت کو تمام کرتے ہیں کہ :
’’اَدنیٰ سی اَدنیٰ بات کے کسی نئے پہلو یا زاویے پر ہلکی سی روشنی ڈال کر اُس کی طرف ہم کو متوجہ کر کے چونکا دینا اور پھر خود معصومانہ انداز میں آگے بڑھ جانا ہی یوسفی کے فن (شگفتہ نگاری )کی وہ نزاکت ہے جو (خاص)اُنہی کے حصے میں آئی ہے ۔یوسفی کا قلم جس چیز کو بھی چھوتا ہے اس میں نئی روئیدگی اور تازہ بالیدگی پیدا کر دیتا ہے ۔اُن کی کوئی سطریا لفظی ترکیب ایسی نہیں ہوتی جو پڑھنے والے کی فکر و نظر کو نئی روشنی نہ دے جاتی ہو ۔یوسفی ظرافت نگاری کا ایک نیا دبستان ہیں اور ان کی (شگفتہ نگاری) فن ظرافت کا ایک نیا عنوان ۔۔ْ‘‘