ڈگری نہیں ہنر دیجئیے

جب کوئی قوم ترقی کرنے لگتی ہے تو اس کے کارخانے اور کتب خانے آباد ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ اور جب کوئی قوم زوال پذیر ہوتی ہے تو اس کے مالز اور ہوٹلز آباد ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ آپ کو دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں لوگ ہوٹلوں سے لے کر بسوں اور ٹرینوں تک میں کتابوں کے ساتھ نظر آئینگے ۔ اور دنیا کی ہر ترقی یافتہ قوم کے گلی محلوں اور گاؤں دیہاتوں تک میں کارخانے ملینگے۔

1600 صدی عیسویں دنیا کی تارٰیخ اور بالخصوص مسلمانوں کے زوال کی صدی تھی ۔ اس صدی کے بعد سے ایجادات ، تخلیقات  اور تحقیقات کا سلسلہ سست روی کا شکار ہوتے ہوتے بالآخر ” ختم شد ” ہوگیا ۔جبکہ دوسری طرف یورپ میں تسلسل کے ساتھ جدید سائنسی تھیوریاں ، سائنسدان ، تخلیقات اور ایجادات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا  اور یہ ترقی محض کسی ایک شعبے میں نہیں تھی بلکہ ہر شعبے میں شروع ہوچکی تھی ۔

 سولہ سو صدی عیسویں میں ہونے والی ایجادات میں 1608 میں ٹیلی اسکوپ ایجاد ہوا ۔ 1620 میں سب میرین۔ 1624 میں سلائیڈ رول ، 1629 میں اسٹیم ٹربائن ، 1636 میں مائیکرو میٹر ، 1642 میں بلیس پاسکل نے ایڈنگ مشین ایجاد کی ۔ 1643 میں بیرومیٹر ، 1650 میں ائیر پمپ ، 1656 میں پینڈولم کلاک ، 1663 میں جدید ٹیلی اسکوپ ، 1674 میں انٹون وین نے بیکٹیریا دیکھنے کا آلہ ایجاد کیا  اور  1675 میں پاکٹ واچ –

1879 میں ایڈیسن نے بلب ایجاد کردیا ۔ ریڈیو 1899 میں ایجاد ہوا ۔ٹیلیفون 1876 میں ایجاد کیا گیا  جبکہ 1979 میں پریشر ککر ایجاد ہوا۔اس سے پہلے اور اس کے بعد بے تحاشہ ایجادات اور تھیوریاں ہیں جو مسلسل یورپ اور امریکا کی طرف سے آتی رہیں ۔

اس دوران مسلمان اندلس سے لے کر دہلی تک یا تو عیاشیوں میں مصروف تھے یا پٹنے میں۔اور یہ پٹائی تعلیم سے لے کر جنگ تک ہر میدان میں جاری تھی ۔ خدا  کو اپنی اس کائنات کو چلانے کے لئیے لوگ درکار ہیں اور اسکا کوئی تعلق اس بات سے نہیں ہے کہ آپ کتنے نمازی ، حاجی اور متقی ہیں ۔ اگر آپ نے سیاست سے لے کر تعلیم تک ہر میدان کو چھوڑ رکھا ہے تو  پھر خدا  امامت آپ کے ہاتھ سے لے کر ان کو دیگا جو نمازی اور حاجی نہ ہونے کے باوجود بھی اس کے اہل ہونگے ۔

جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا نے ایک دفعہ پھر کروٹ لی۔ چھوٹی آنکھوں اور چپٹی ناکوں والے پوری دنیا مٰیں اس راز کو پاچکے تھے کہ دنیا میں ترقی کیسے کرنی ہے اور کیسے آگے بڑھنا ہے ؟ 1948 میں آذادی حاصل کرنے والا چین ، پہلے 1958 میں برطانیہ سے اور پھر 1964 میں ملائیشیاء سے آذادی لینے والا سنگاپور ۔ 1945 میں اپنے دونوں شہر صفحہ ہستی سے مٹوانے والا جاپان ۔ امریکا سے سخت مقابلہ کرنے والا ویتنام اور 1958 میں کراچی کو بطور مثال اپنے شہر سیئول کو کاپی کرنے والا جنوبی کوریا ۔اسوقت دنیا کی معیشت اور تجارتی منڈیوں پر انھی کا راج ہے ۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو آپ دنیا کی بڑی بڑی برانڈز اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو سمجھ آجائیگی۔

دنیا کی آٹو موبائل ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور الیکٹرونکس انڈسٹری میں خصوصا ان ممالک کا دور دور تک کوئی مقابلہ کرنے والا نہیں ہے ۔ٹیوٹا ، ڈاہٹسو ، ڈاٹسن ، ہینو ، ہونڈا ،سوزوکی ، کاواساکی ، لیکسس ، مزدا ، مٹسوبشی ، نسان ، اسوزو اور یاماہا یہ تمام برانڈز جاپان کی ہیں جبکہ شیورلیٹ ، ہونڈائی اور ڈائیوو جنوبی کوریا بناتا ہے ۔ آپ اندازہ کریں اس کے بعد دنیا میں آٹو موبائلز رہ کیا جاتی ہیں ؟ آئی – ٹی اور الیکٹرونکس مارکیٹ کا حال یہ ہے کہ سونی سے لے کر کینن کیمرے تک سب کچھ جاپان کے پاس سے آتا ہے ۔ ایل – جی اور سام سنگ جنوبی کوریا سپلائی کرتا ہے ۔2014 میں سام سنگ کا ریوینیو305 بلین ڈالرز تھا ۔ ” ایسر ” لیپ ٹاپ تائیوان بنا کر بھیجتا ہے جبکہ ویتنام جیسا ملک بھی ” ویتنام ہیلی کاپٹرز کارپوریشن ” کے نام سے اپنے ہیلی کاپٹرز اور جہاز بنا رہا ہے ۔ محض ہوا ، دھوپ اور پانی رکھنے والا سنگاپور ساری دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے ۔ اور کیلیفورنیا میں تعمیر ہونے والا اسپتال بھی چین سے اپنے آلات منگوا رہا ہے- خدا کو یاد کرنے کے لئیے تسبیح اور جائے نماز تک ہم خدا کو نہ ماننے والوں سے خریدنے پر مجبور ہیں ۔

دنیا کے تعلیمی نظاموں میں پہلے نمبر پر فن لینڈ جبکہ دوسرے نمبر پر جاپان اور تیسرے نمبر پر جنوبی کوریا ہے ۔ انھوں نے اپنی نئی نسل کو “ڈگریوں ” کے پیچھے بھگانے کے بجائے انھیں ” ٹیکنیکل ” کرنا شروع کردیا  ہے۔ آپ کو سب سے زیادہ ایلیمنٹری اسکولز ان ہی تمام ممالک میں نظر آئینگے ۔ وہ اپنے بچوں کا وقت کلاس رومز میں بورڈز کے سامنے ضائع کرنے کے بجائے حقائق کی دنیا میں لے جاتے ہیں ۔ ایک بہت بڑا ووکیشنل انسٹیٹیوٹ اسوقت سنگاپور میں ہے اور وہاں بچوں کا صرف بیس فیصد وقت کلاس میں گذرتا ہے باقی اسی فیصد وقت بچے اپنے اپنے شعبوں میں آٹو موبائلز اور آئی – ٹی کی چیزوں سے کھیلتے گذارتے ہیں ۔

دوسری طرف آپ ہمارے تعلیمی نظام اور ہمارے بچوں کا حال ملاحظہ کریں ۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں ۔ بی – ای ، بی – کام ، ایم – کام ، بی – بی – اے ، ایم – بی – اے  ، انجینئیرنگ کے سینکڑوں شعبہ جات میں بے تحاشہ ڈگریاں اور اس کے علاوہ چار چار سال تک کلاس رومز میں جی – پی کے لئیے خوار ہوتے لڑکے لڑکیاں کونسا تیر مار رہے ہیں ؟ آپ یقین کریں ہم صرف دھرتی پر ” ڈگری شدہ ” انسانوں کے بوجھ میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ یہ تمام ڈگری شدہ نوجوان ملک کو ایک روپے تک کی پروڈکٹ  دینے کے قابل نہیں ہیں ۔ ان کی ساری تگ و دو اور ڈگری کا حاصل محض ایک معصوم سی نوکری ہے اور بس۔

ہم اسقدر “وژنری ” ہیں کہ ہم لیپ ٹاپ اسکیم پر ہر سال 200 ارب روپے خرچ کررہے ہیں لیکن لیپ ٹاپ کی انڈسٹری لگانے کو تیار نہیں ہیں ۔ آپ ہمارے ” وژنری پن ” کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پوری قوم سی –  پیک کے انتظار میں صرف اسلئیے ہے کہ ہمیں چائنا سے گوادر تک جاتے 2000 کلو میٹر کے راستوں میں ڈھابے کے ہوٹل اور پنکچر کی دوکانیں کھولنے کو مل جائینگی اور ہم ٹول ٹیکس لے لے کر بل گیٹس بن جائینگے۔اوپر سے لے کر نیچے تک کوئی بھی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔

آپ فلپائن کی مثال لے لیں ۔ فلپائن نے پورے ملک میں ” ہوٹل مینجمنٹ اینڈ ہاسپٹلٹی ” کے شعبے کو ترقی دی ہے ۔اپنے نوجوانوں کو ڈپلومہ کورسسز کروائے ہیں ۔ اور دنیا میں اسوقت سب سے زیادہ ڈیمانڈ فلپائن کے سیلز مینز / گرلز ، ویٹرز اور ویٹرسسز کی ہے ۔ حتی کے ہمارا دشمن بھارت تک ان تمام شعبوں میں بہت آگے جاچکا ہے ۔ آئی – ٹی انڈسٹری میں سب سے زیادہ نوجوان ساری دنیا میں بھارت سے جاتے ہیں ۔جبکہ آپ کو دنیا کے تقریبا ہر ملک میں بڑی تعداد میں بھارتی لڑکے لڑکیاں سیلز مینز ، گرلز ، ویٹرز اور ویٹریسسز نظر آتے ہیں ۔ پروفیشنل ہونے کی وجہ سے ان کی تنخواہیں بھی پاکستانیوں کے مقابلے میں دس دس گنا زیادہ ہوتی ہیں ۔اور دوسری طرف لے دے کر ایک ” مری ” ہی ہمارے لئیے ناسور بن چکا ہے ۔جہاں کے لوگوں کو سیاحوں کی عزت تک کرنا نہیں آتی ہے ۔

چینی کہاوت ہے کہ ” اگر تم کسی کی مدد کرنا چاہتے ہو تو اس کو مچھلی دینے کے  بجائے مچھلی پکڑنا سکھا دو “۔ چینیوں کے تو یہ بات سمجھ آگئی ہے ۔ کاش ہمارے بھی سمجھ آجائے ۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ ” ہنر مند آدمی کبھی بھوکا نہیں  رہتا ہے “۔ خدارا ! ملک میں ” ڈگری زدہ ” لوگوں کی تعداد بڑھانے کے بجائے ہنر مند پیدا کیجئیے ۔ دنیا کے اتنے بڑے ” ہیومن ریسورس ” کی اسطرح بے قدری کا جو انجام ہونا تھا وہ ہمارے سامنے ہی ہے ۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں