ابن آدم ہے تو ،تو بنت آدم ہوں میں

 کہیں  تیزاب گردی تو کہیں آگ میں جلانا ،کہیں مارنا پیٹنا اور کہیں عزت کے نام پر قتل، شاید اب تو لوگ اس کے عادی ہو گئے ہونگے  ۔عزت کے نام پر قتل تو ہماری  ثقافت کا حصہ ہے ،جس پر نہ کوئی قانون کام کرتا ہے  اور  نہ  سماج اور سب سے اعلٰی بات تو یہ ہے کہ یہ حق صرف مرد کو حاصل ہے  ۔کیونکہ ساری کی ساری عزت مرد کی ہے عورت کی تو کوئی عزت ہے ہی نہیں ۔سنا ہے  عورت کے لئے  عزت کی چادر چھوٹی ہی رکھوائی جاتی ہے اس ڈر سے کہ کہیں وہ زیادہ عزت دار نہ ہو جائے ۔ سوچتی ہوں اگر عورت عزت کے نام پر قتل شروع کر دے تو، بانو قدسیہ کے لازوال  الفاظ احاطہ ذہن میں گونجے لگتے ہیں کہ ایک بھی عزت دار مرد زندہ نہ بچے ۔  شاید   جہاں عزت کی چادریں بیٹیوں کے لیے چھوٹی ہوں کہ سر ڈھانپنے پر پیر اور پیر ڈھانپنے پر سر نظر آئے وہاں  بیٹیاں سوال و جواب کا حق نہیں رکھتیں ۔  سنا اور پڑھا تھا کہ زمانہ جاہلیت میں بیٹی کی پیدائش کا افسوس کیا جاتا تھا، عورت کے ساتھ امتیازی سلوک رکھا جاتا تھا  اسے کسی قسم کا کوئی حق حاصل نہیں تھا مگر اسلام نے آ کر اس جاہلیت کا قلع قمع کر دیا اور بیٹی کی پیدائش کو رحمت قرار دیا، عورت کو عزت اور احترام عطا کیا  ہر جگہ   اسکو  مرد کے ساتھ  اہمیت دی    اور عورت سے اچھے سلوک کا حکم دیا حتی کہ  وراثت میں اس کا حصہ مقرر کیا ۔

مگر آج تو اکیسویں صدی ہے دنیا کا ماڈرن ترین دور ہے مگر لگتا ہے کہ ہم اسی جاہلیت کے زمانے میں جی رہے ہیں  اور ہمارے لیے  صرف نام کا مسلمان ہونا کافی ہے جو اب اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کی بجائے ونی، کاروکاری اور قرآن سے شادی کرکے زندہ درگور کررہے ہیں۔ تو کہیں خواتین کو بزنس کانٹریکٹ اورتعلقات بڑھانے کیلئے شو پیس کے طورپر استعمال کیا جارہا ہے۔ کہیں لڑکیوں کی پیدائش کو چھپایا جارہا ہے تو کہیں انہیں علم سے محروم کیاجارہا ہے۔ انہیں  وراثت میں سے ان کا حق نہیں ملتا اور یہاں تک کہ  شادی جیسے اہم معاملے میں بھی انہی کی رائے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا اور اگر وہ  انکار کریں تو وہی عزت کے نام پر قتل ۔ مرد کہتا  ہے عورت نے  آزادی کے لئے یہ سب  حقوق  نسواں لگا رہا ہے  اور اگر ایسا ہے بھی تو غلط نہیں، آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے وہ مرد ہو یا عورت مگر یہاں تو عورت نہ آزادی چاہتی ہے نہ قید وہ بس وہ حقوق چاہتی ہے جو اسلام نے اسے دئیے ہیں  مگر ابن آدم تو اسے  وہ دینے کو بھی تیار نہیں ۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ نے اپنی عورتوں کے وہ تمام  حقوق ادا کیےہیں  جو اللہ نے ان کے لیے مقرر کیے ہیں ،کیا آپ نے ایک کے بعد دوسری بیٹی کی پیدائش پر افسوس کا اظہار نہیں کیا اور اسے اللہ کی رحمت سمجھا، کیا آپ نے اس کی ویسی ہی پرورش کی جیسی اپنے بیٹے کی کرتے ، کیا آپ  نے اپنی بیٹی کو ویسی ہی تعلیم دلوائی ہے  جیسی بیٹے کو  دلاتے ۔کیا آپ نے  اپنی   بیٹی کی شادی میں اسکی مرضی جانی ہے ،جیسا کہ نبی پاک  صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے، کیا آپ نے اپنی  بیوی کو وہ عزت دی  ہے جس کا حکم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  نے دیا ہے ۔کیا آپ نے اپنی بہن  بیٹی کو وراثت میں سے حصہ دیا  جیسا کہ اللہ نے مقرر کیا، کیا آپ نے اپنی  ماں کو وہ مقام دیا جو اللہ نے  نے دیا ہے ، کیا آپ گھر میں موجود خواتین کو وہ رتبہ دے رہے  ہیں جو ان کا حق ہے۔ یا پھر آپ کی مسلمانی نماز روزے تک محدود ہے۔ اللہ نے اسلام کو معاملاتی دین بنایا ہے۔ صرف ایک لمحے کے لئے اپنی ذات کا احتساب کیجئے،کیا آپ ایک اچھے باپ، خاوند ،بیٹے اور بھائی ہیں؟ صرف ایک لمحے کو اپنے آپ کو اپنے گھر کی خواتین کی جگہ رکھ کر سوچئے اور اس اذیت اور درد کو محسوس کیجئے جو آپ کی گھر کی خواتین جھیل رہی ہیں۔ صرف ایک لمحے کیلئے اپنی ذات کی آگاہی حاصل کیجئے  ۔

ہمارے ہاں عورت کی تعلیم اس کے بالوں سے شروع ہو کر اس کے کپڑوں تک ختم ہو جاتی ہے اور اس کے علاوہ اسکی روحانی، اخلاقی، معاشرتی اور ذہنی تعلیم کے متعلق کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے ۔بات شوہر کی ذات سے شروع ہو کر بچوں تک ختم ہو جاتی ہے اور اس کی ذات کے مقام کو برقرار رکھنے کے متعلق کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔اب وہ ذات جس کے دم سے سب مقام قائم ہیں وہ اگر خود ہی بے مقام ہوتو  دوسرے اپنا مقام کیسے حاصل کر سکتے ہیں، ذرا سوچئے

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں