آئیں ! عورت  کی عورت کے ساتھ جنگ کا خاتمہ کریں  

عورت ہی  عورت کی  بد ترین دشمن ہے؛ یہ بات  شاید سننے میں  اچھی  نہ لگے مگر جب میں نے  عورت پر  ہونے والے  ہر ظلم کی  داستان کو اس کے پس منظر کے ساتھ دیکھا تو میں یہ کہنے پر مجبور ہو گئ کہ عورت ہی عورت کی اصل دشمن ہے ۔ میں تاریخ پڑھوں، یا حال پر نظر  دوڑائوں  تو  یہی  حقیقت  سامنے آتی ہے ایک  عورت کا دوسری عورت سے  خار کھانا  ہے ۔ اور یہ خار  آخر دشمنی میں  بدل جاتی ہے اور پھر ایک  عورت دوسری کو  تباہ کرنے کے لیے  کوئی کسر نہیں چھوڑتی اور اس میں  ہتھیار بنتا ہے  مرد  ۔۔مرد جب  پہلے ہی عقل سے کام لینے سے انکار کر چکا ہو تو پھر عورت کا کام اور آسان ہو جاتا ہے   اب عورت اسے دوسرے کے خلاف   اکساتی   ہے اور پھر  مرد    بم دھماکے کی طرح  قہر برسانا شروع کر دیتا ہے ۔

میں اس چیز کو  مانتی ہوں  کہ عورت کو  معاشرے میں  مکمل  حقوق  ملنے چاہیے ،  اسے  اس کی ذات کا تخفظ ملنا چاہیے ایک  مکمل اور  بھرپور انسان  ہونے کی حیثیت  سے ۔اسے ان حقوق  کو  حاصل کرنے کے لیے ہر جنگ لڑنی چاہیے  ۔بے شک اس  مردوں کے معاشرے میں  عورت  ہی ہے  جو  اسے  قائم  رکھتی ہے  مگر اس کے باوجود اسے بے شمار  ذلالت کا سامنا ہر روز رہتا ہے  اور اس کی سالمیت کو آئے دن خطرہ رہتا ہے ۔بےشک اس سب میں  بےشمار  سماجی خرابیاں ہیں، مردوں  کے معاشرے کا قصور بھی ہے، مگر  ایک  چیز  کہیں  ہم بھول نہیں رہے  کہ ان سب میں کہیں تھوڑا سا قصور عورت کا بھی تو نہیں ہے ۔

ذرا سوچئیے  !وہ کون ہے  جو دوسری  عورت  کے  راز افشاں کرتی ہے؟  وہ کون ہے جو دوسری عورت  پر الزام  تراشی کرتی ہے؟ وہ کون ہےجو دوسری عورت کو  بدکردار  کہتی ہے؟ وہ کون ہے جو دوسری عورت کو  جہنم واصل  کرتی ہے؟  وہ کون ہےجو دوسری عورت  کو سرعام رسوا کرتی ہے؟ وہ کون ہے جو دوسری عورت کے  پیدا ہونے پر ایک عورت کو منحوس کہتی ہے ۔وہ کون ہے جو مرد کے لئے دوسری عورت کو  ذلیل کرتی ہے؟ وہ کون ہے جو مرد کو اکساتی ہے  دوسری عورت پر قہر برسانے کےلئے ۔وہ ایک عورت ہے ،جو یہ سب کرتی ہے ۔وہ ایک عورت ہے جو ادھر کی بات ادھر کرتی ہے اور گھر تباہ کرتی ہے ۔اس سب کے پیچھے وہ غلط سوچ ہے وہ پچپن سے گھروں اور اردگرد سے ہمیں ملتی ہے ۔جہاں ایک ماں جب اپنے بیٹے اور بیٹی میں  فرق کرتی ہے، جہاں ایک ماں خود عورت ہونے کے باوجود  صرف  بیٹے کی  پیدائش  چاہتی ہے، جہاں  ایک ماں  بیٹا  ہونے  پر  فخر  کرتی ہے اور  بیٹی ہونے پر برا مانتی ہے، جہاں   ایک عورت  اپنا  حق   خود چھوڑتی ہے  اور  یہی  ترغیب دیتی ہے  ۔جہاں ایک ماں اپنی  بیٹی کو تو دنیا کی سب  خوشیاں دینا  چاہتی ہے مگر  دوسروں کی  بیٹی کو ایک  خوشی  بھی  نصیب  نہیں ہونے دیتی ۔

یہ مسئلہ تب بھی  بنتا ہے جب ماں اپنی بیٹی کو تو دنیا  کی سب سے  سندر، ذہین اور  سلیقہ شعار سمجھتی ہے اور اس کے سامنے دوسروں کی  برائیاں  کرتی ہے اور دوسروں کی  بیٹیوں کی تذلیل کرتی  ہے ۔جب وہ لڑکی  اس سوچ کے ساتھ گھر سے  باہر  زندگی کے میدان میں قدم رکھتی ہے  تو اسے حقیقت سے آگاہی ہوتی ہے کہ  کئی معاملات  میں دوسری لڑکیاں   اس سے زیادہ  خوبیاں رکھتی ہیں تو وہ اس چیز کو  قبول کرنے کی بجائے اپنے اندر مذاحمت پیدا کر لیتی ہے اور پھر  مقابلے بازی پر اتر آتی ہے  جو آگے چل کر حسد اور  تباہی کا  پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے ۔اس سب سے بچنے  کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے اندر  دوسروں کو  قبول کرنے کا  حوصلہ ہو  اور ہمیں معلوم ہو  کہ  کیسے اپنے  ساتھ  ساتھ  دوسرے کی اچھائیوں  کو بھی  ماننا ہے   اور اپنی  حامیوں  کو بھی  قبول  کرنا ہے ، ہمارے گھروں سے ہمیں  سب  ملتا ہے  سوائے  دوسروں کو  قبول کرنے کے  ظرف کے سوا ، مگر ہمیں دوسروں کو قبول کرنا سیکھنا ہے تاکہ ہم نہ صرف  اس مقابلے بازی سے محفوظ رہیں بلکہ اپنے اور دوسروں کی بھلائی کا باعث بنیں ۔

آئیں ! عورت  کی عورت کے ساتھ اس  جنگ کا خاتمہ کریں  اور ایک دوسرے کو  محبت اور احترام سے  قبول کریں  تب ہی ہم مل کر اس معاشرے کی برائیوں کا  مقابلہ کر سکیں گے، کیونکہ اگر عورت عورت کی ڈھال بن جائے گی تو  پھر  کوئی  اس ڈھال کا مقابلہ نہیں کرسکے گا ۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے ۔۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں