ہمارے نزدیک نہ کیوبک (کناڈا) میں گزشتہ ہفتے منعقدہ سات بڑوں (گروپ ۷)کی چوٹی کانفرنس کا ہنگامہ غیر متوقع ہے نہ سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کا،بقول ایس ایم مُشرِف(سابق آئی جی پولیس مہاراشٹر) وطن عزیز کی ’’سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم‘‘ کے اجلاس میں شریک ہونا کسی حیرت کا باعث ہے،نہ شجاعت بخاری جیسے حقیقی داعی امن کشمیری صحافی کا شرم ناک اور بہیمانہ قتل اور نہ آسٹریا کے وزیر اعظم ( چانسلر) سیباستین کرز (Sebastian Kurz)کا ’یہودو مشرکین ‘ جیسا اسلام دشمن اور انسانیت دشمن اقدام کہ قرب ِقیامت کے اِس آخری زمانے میں اِن سے بھی زیادہ حیرت ناک ،اندوہناک ،عبرت ناک اور وحشت ناک خبروں کے لیے ہم سب کو ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے ۔
ابھی تو دنیا کے دیگر ملکوں کو بھی یاہوؔ ،مودیؔ ،ٹرمپ ؔ اور کرزؔ جیسے بلکہ اُن سے بھی گئے گزرے حکمرانوں کا قاہرانہ تسلط دیکھنا باقی ہے ! قاتل شجاعت بخاری کے ہوں یا گوری لنکیش کے ،فی الواقع ایک ہی امن دشمن جرگے اور انسانیت دشمن گینگ سے تعلق رکھتے ہیں ۔
اسلام دشمنی ہو یا انسانیت دشمنی آج کی دنیا میں یہ ایک ہی شر کے دو پہلو ہیں ۔ مسلمانوں ہی کی طرح پوری دنیا میں غریبوں ،دلتوں ، سیاہ فاموں اور عام آدمیوں کی اکثریت وقت کے یزیدوں ،قارونوں فرعونوں اور نمرودوں کے مظالم کی شکار ہے ۔اِن مُستَضعفین فی الارض کو پَیروان ِاِبلیس نے ’اَجلاف‘ اور ’کمین‘ کا لقب دے رکھا ہے !اور نام نہاد ’مہذب ‘ لیکن منافق دنیا انہیں ’جمہور ‘ کہتی ہے اور بنام جمہوریت ان کا استحصال کرتی ہے اور انہیں بے وقوف بنانے کا دھندا کرتی ہے ! آپ جسے ’سیاسی قارونیت ‘ یا ’ قارونی سیاست ‘ کا کاروبار بھی کہہ سکتے ہیں ۔یہ بہر حال ’مابعد جدید ‘دنیا ہے اور مابعد جدیدیت نام ہی منافقت کا ہے ۔ فرعونیت ،نمرودیت اور یزیدیت اسی کاروبار دنیا کے قدیم نام ہیں !
حقیقت یہ ہے کہ نیتن یاہو ،ڈونالڈ ٹرمپ ،نریندر مودی اور سیباستین کرز جیسے قاہران زمانہ امن چاہتے ہی نہیں ۔ان کا اقتدار ۔۔نفرت ،جنگ اور ہتھیاروں کی تجارت ۔۔ہی پر منحصر ہے ۔جھوٹ اور منافقت ان کی گھٹی میں ہے ۔یہ نہ خود سچ بول سکتے ہیں نہ کسی سچ بولنے والے کو برداشت کر سکتے ہیں۔ اس دوران امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کِم جونگ کی ملاقات کا بظاہر حیرت انگیز واقعہ بھی پیش آیا ہے لیکن ہمارے نزدیک اس کی اہمیت بھی اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہ صہیونی مکاری ماضی میں بھی اپنے دشمن کو مغلوب کرنے ،بلکہ بے وقوف بنانے کے لیے ایسے اقدامات کر چکی ہے جس میں ’مناخم بیگن ۔یاسر عرفات ملاقات اورکیمپ ڈیوڈ معاہدہ ‘سر فہرست ہیں! اور باطل کلا ایک دوسرا طریقہ کار بھی معروف ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ اب حق کی سر کوبی ممکن نہیں تو وہ خود بھی حق کی نقاب چڑھا لیتا ہے ۔ماضی میں ،با لخصوص چودہ سو سال کے ماضی قریب میں اس قبیل کے ’’اِستِسلام‘‘ کی مثالیں بھری پڑی ہیں!
من خوب می شناسم پیران پارسا را !
سوال یہ ہے کہ پھر ہم کریں تو کیا کریں ؟ ہزار بار کا دیا ہوا جواب یہ ہے کہ سر دست ہم سب یعنی ہم اور آپ صرف اپنے آپ کو سچا، حق گو ، امین و امانت دار ،ایمان دار ،دیانت دار اور کرپشن فری بنانے کی کوشش کریں ۔رشید کوثر فاروقی کے ایک شعر کا مصرع ہے کہ :
اسلام کہا تو نے کہ اسلام کیا ہے ؟
یعنی ہم سب خود اسلام کو اپنے کردار میں ڈھالنے کی کوشش کریں ۔جس قول کے ساتھ عمل نہ ہو وہ بے معنی و بے مصرف ہے ۔اور اسلام ِراستین میں پورے کے پورے داخل ہونے کی کوشش کریں یعنی قرآن کے ہر حکم کو سمجھیں اور پھر سمجھ کر عمل میں ڈھالیں ۔والدین ،عزیزوں ،قرابت داروں کے حقوق اس طرح ادا کریں جس طرح قرآن نے حکم دیا ہے ،صلہ رحمی کریں اور قطع رحمی سے مطلق پرہیز کریں ۔ اور صرف زکوٰۃ و خمس و عشر ہی نہیں، قرآنی حکم کے مطابق وہ ’ اِنفاق ‘فی سبیل اللہ کر تے رہیں جس کی آخری حد ’قل ا لعفو ‘ ہے ! یعنی جو کچھ اپنی ضرورت سے سے زیادہ ہو وہ سب !اور خود کو اور اپنے اہل و عیال کو ہر حال میں ’وَہَن‘ سے بچائیں ۔’وَہَن‘ یعنی دنیا اور مال کی محبت اور موت کا خوف ! کہ مرنا تو سب کو ہے ۔ موت بستر پر آئے یا آفات ارضی و سماوی میں یا کسی ظالم کے طلم و جور کے نتیجے میں موت تو بس موت ہے۔اس لیے اگرایماندارانہ محنت اور کوشش کے باوجود ، چند روزہ دنیا کا آرام و سکون نہیں بھی مل سکا تو کوئی بات نہیں لیکن موت کے بعدکی ہمیشہ رہنے والی زندگی کا سکون اور راحتیں بھی اسی چند روزہ زندگی کے ہمارے اعمال پر ،منحصر ہیں !
فھل من مدکر ؟
ہمیں دنیا و آخرت دونوں کے لیے اللہ سبحانہ تعالیٰ سے ’حسنہ‘ مانگتے رہنا چاہیے اور اس کی دی ہوئی طاقت اور توفیق سے حصول ِ حسنہ کی امکانی کوشش کرتے رہنا چاہیے اور بھروسہ صرف اللہ پر کرنا چاہیے اور صرف اللہ ہی سے ڈرنا چاہیے کہ جو اللہ پر توکل کرتا ہے تو اللہ اس کے کافی ہو جاتا ہے اسے خارج میں پھر کسی حاجت نہیں رہ جاتی اور جواللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرتا ہے تو ایک تو یہ کہ اللہ اسے ہر آفت و بلا سے سرخرو نکال دیتا ہے اور دوسرے یہ کہ پھر اس کے دل سے دنیا کے ہر قاہر و ظالم کا خوف نکل جاتا ہے !
اسی لیے حالات حاضرہ کی سنگینی و سفاکی نہ ہمیں خوفزدہ کرتی ہے نہ مایوس ۔بقول مرشدی رشید کوثر فاروقی مرحوم :
میں اپنے علم کی محدودیت پہ نازاں ہوں
نہیں کچھ اورتری راہ کے سوا معلوم