ٹکڑوں میں بٹی ۔۔ملتِ اسلامیہ 

کہتے ہیں کہ کسی قوم کو تباہ کرنے کے لیے اس کے اپنے ہی کافی ہوتے ہیں مطلب اشارہ میر جعفر اور میرصادق کی طرف ہے ایسے کچھ بلکہ بہت سے کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، ملت اسلامیہ خود کی محافظ نہیں ہے تو کسی دوسرے کی کیا خاک حفاظت کرے گی ،سنا جب حکومتیں اور حاکم بے حس ہوجائیں تو عوام باہر نکل آتے اورانقلاب برپا ہوجاتے ہیں ۔آج تک ڈھونڈ رہا ہوں کون سی قوم تھی اوریہ کون سے حاکم تھے ۔جب سے ہوش سنبھالا ہے صرف مسلم امت کو اپنوں نے ہی دھوکا دیتے دیکھا ہے اور ان کے ہی قصے سنے ہیں بات کو طویل نہ کرتے ہوئے اس قوم اور ملت اسلامیہ کو جگانے کی کوشش کرتا ہوں گزشتہ۷۰ سال سے فلسطین کے نہتے عوام عالمی دہشت گرد کا اکیلے مقابلہ کررہے ہیں مگر ملتِ اسلامیہ کے عظیم حکمران مدحوشی میں اس قدر مائل ہیں کہ نہ کسی کو مظلوموں کی چیخ و پکار سنائی دیتی ہے اور نہ ان کے گرتے لاشے ،یورب کے کسی ملک میں ایک چنگاری کیا لگ جائے اہل ایمان ایسے نیندوں سے جاگتے ہیں کہ دفتر خارجہ سے لیکر وزیراعظم اور عرب دنیا کی بات کریں تو بادشاہ سے لے کر اس حواری سب اپنی عقیدتوں کے آنسو بہانے لگتے ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور اس کا علمبردار برطانیہ،دوسرا نمبر جرمنی ،تیسرا عالمی سپرپاور ہونے کا دعویدار امریکا اور پھر باری آتی ہے ہمارے ازلی دشمن بھارت کی جو اس وقت سب سے زیادہ مسلم دشمنی میں کسی بھی حد کو پار کرنے سے نہیں کترا رہا اور ہمارے( سوکالڈ ) لبرل جن کی آنکھوں میں کشمیر ،شام ،برما،عراق،افغانستان،بوسنیا،یمن اور مظلوموں کی سرزمین فلسطینیوں کا خون صرف پانی ہے ۔اسلام دشمنی کے جذبات کو فروغ دینے کے لیے برطانیہ میں اسلام مخالف مظاہرے ہورہے ہیں،جرمنی میں مساجد جلائی جارہی ہیں ،امریکا بہادر دنیا کے ہر اسلامی ملک کو فتح کرنے میں لگا ہے تو وہیں دشمنوں کا دشمن بھارت مودی اور یوگی کی جوڑی میں ہندوستان کی زمین مسلمانوں پر تنگ کررہا ہے اور پھر بھی مسلم دہشت گرد ہے اس کا جواب جن افراد کے ذمہ ہے وہ لمبی تان کے کے سوتے ہیں ۔
دنیا اس وقت صرف دو حصوں میں تقسیم ہے، مسلمان بمقابلہ اینٹی مسلم مگرہم لڑ رہے ہیں ،سیاست کا عالمی مرکز اگر یہود کو کہا جائے تو مضحکہ خیز نہ ہوگا جس طرح یہودی لابی دنیا کے وسائل پر قبضہ کررہی ہے وہ سب جانتے ہیں، کبھی عالمی امن کی تنظیم کے نام کے نام پر کبھی نام نہاد این جی اوز کے نام پر اور ہم ایسے بیوقوف ہیں کہ دیکھ کر اندھے بنے ہوئے ہیں نظر سب آتا ہے بول نہیں سکتے ،کیونکہ ہم خود اپنے ضمیر کو مار چکے ہیں ۔کیا آج اگر کشمیر میں ظلم ہورہا ہے افغانستان جل رہا ہے تو کیا پاکستان اس آگ سے بچ سکتا ہے ۔پڑوسی کے گھر لگی آگ اپنے گھر بھی جلادیتی ہے،اگر ہم اسی طرح تماش بین بنے رہے تو کل ہماری باری بھی آنی ہے ایسا نہ ہو کہ ہم وقت کا فائدہ اٹھانے سے قاصر رہیں ،اپنے مسلم بھائی بہنوں سے اظہار یک جہتی کریں سوشل میڈیا کے اس دور میں آواز اٹھائیں، عالمی دنیا میں کفار کے مظالم کوبے نقاب کریںیہی ہمارے حق میں ہے ۔خلافت عثمانیہ کے بعداختتام سے اب تک مسلمانوں کوایک منظم طور پر تقسیم در تقسیم کیا جارہا ہے ،کبھی ملکوں اور رقبوں کی بنیاد پر تو کبھی فرقوں کی بنیاد پر۔
موجودہ دور میں ہم اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم تو دے رہے ہیں مگر دینی تعلیم اور اسلامی اقدارسے وہ دور دور تک ناواقف ہیں، مجھ سمیت کسی نے اپنی تاریخ کو درست انداز میں نہیں پڑھا ہوگا مگر یہودی آج بھی اس دن کو یاد رکھے ہوئے ہیں جب کفار کو فلسطین کی پاک سرزمین سے لاتیں مار کرنکالا تھا وہ اس کا بدلہ شام ،عراق ،فلسطین اور کشمیر میں لے رہے ہیں اور ہمارے بچے دنیاوی تعلیم میں اس قدر مگن ہیں کہ ان کو یہ تک نہیں پتہ کہ کفار نے میرے نبیﷺکے ساتھ ان یہودیوں نے مدینے میں کیا کیا تھا؟یہ میرے نبیؐ کے دشمن تھے۔۔غزوہ بنو قریضہ کیوں نہیں سْنایا ؟۔۔غزوہ بنو نضیرکیوں پیش آیا تھا ؟۔غزوہ قینقا ع کا پس منظر کیا تھا ؟ مسلمان خیبر کیوں پہنچے تھے ؟۔۔یہ یہودی میرے آقا ئے دو جہاںؐکی جان کے دشمن کیوں تھے ؟ اْحد کے میدا ن میں جب مسلمانوں کو بڑی تعداد میں جانی نقصان ہوا توان کے گھروں میں گھی کے چراغ کیوں روشن ہو ئے تھے ؟میں نے کیوں نہیں بتایا اپنی نسل کو ؟۔۔ یہ خود خدا کی چہیتی قوم بتانے والی انسانیت کے لیے کس قدر مضر ہے۔۔۔اس کی سفاکی کی داستانیں فلسطین کے ہر درو دیوار پر جلی حروف سے آویزاں ہے۔یہ قصور میرا اور آپ کا ہے جو اپنے بچوں کی تربیت سے ان کے ذہنوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

حصہ
mm
موسیٰ غنی ایک مقامی روزنامہ کی ویب سائٹ پر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف اخبارات میں بھی کالمز لکھتے ہیں۔مطالعے سے خاص دلچسپی اور بلاگ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں