خاندانی سیاست پاکستان میں براجمان ہے جو سیاسی تنزلی کی بڑی وجہ ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاستدانوں کے درمیان اختلافات مزید طول لے رہے ہیں ،ہر کوئی ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں مصروف ہے ۔ سیاسی بحران ملک اور قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، عام آدمی کی زندگی مزید تلخ بن گئی ہے، مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ دنیا کے لیے ہم تماشہ بنے ہوئے ہیں ،آئے دن ہمارا مذاق بڑھتا جا رہا ہے ۔ اور یہ چیز پاکستان کی عزت کو دنیا کے سامنے کم کر رہی ہے ۔پاکستان میں حکمران کی ناچاقیوں کی وجہ سے ملکی حالات مزید خراب ہو رہے ہیں، ہر کوئی حالات کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرا رہا ہے اور خود کو بری الذمہ قرار دے رہا ہے ۔حکومت کا کہنا ہے کہ اپوزیشن ہمیں کام کرنے نہیں دے رہی ہے، حکومت کا کوئی کام مکمل ہونے نہیں دیا جارہا اور اپوزیشن کہتی ہے حکومت کوئی کام نہیں کررہی ۔ نواز شریف کو آج تک یہ ہی سمجھ نہیں آ رہا کہ ان کو کیوں نکالاگیا ہے اور ان کی ناسمجھی کا قصور ساری قوم کو سہنا ہے اور اب تو اس قصور کو مزید واضح کرنے مریم بی بی میدان میں آگئی ہیں ۔عمران خان اپنی ہی مشکلات کا شکار ہیں، اگر وہ ان سے کبھی نکل پاتے ہیں تو پھر کرپشن کا رونا روتے رہتے ہیں یا دوسروں کے لیے ڈیڈ لائن منتخب کرتے رہتے ہیں ۔ابھی تو پیپلزپارٹی بھی ہے جن کے زرداری صاحب میں بھٹو کی روح بسیرا کر چکی ہے اور اب وہ اس سے سب کو ایک بار پھر مستفید کرنا چاہتے ہیں اور بلاول بھٹو ان کی تقلید کر رہے ہیں ۔جن کے مطابق ملک میں ان سے بہتر دور کسی کو نصیب نہیں ہوا، کس قدر امن تھا ،حالانکہ دہشت گردی اور انتہاپسندی ان ہی کے دور میں بڑھی تھی ۔کہاں چلتے ہیں ،ابھی اور بھی خطرات ہیں جو آپ کی بہتری اور در حقیقت اپنی عادت سے مجبور میدان میں اترے ہوئے ہیں اور روز آپ کے لیے ایک نیا ہنگامہ پرپا کرتے ہیں اور آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ان سے بڑھ کر آپ کا کوئی خیر خواہ نہیں ۔
خیر چھوڑیئے،
ہم بھی کر رہے ہیں ان سے وفا کی امید
جنہیں یہ تک معلوم نہیں کہ وفا نام ہے کس کا
اور یہ سب اختلافات ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکے ہیں اور صبح شام بس ان کی نظر ہو جاتے ہیں ، اللہ اللہ کرکے کبھی اگر کوئی امن و سلامتی کی خبر سنائی دیتی ہے تو سکھ کا سانس آتا ہے ۔مگر ایسی خبریں آجکل عید کا چاند ہو گئیں ہیں جو کبھی کبھی ہی ملتی ہیں ۔
مگر سوال تو یہ ہے کہ آخر کب تک ہماری زندگی ان اختلافات اور فسادات کی نظر ہوتی رہیں گی، کب تک؟
کب ہماری زندگی میں بھی اجالا آئے گا؟کب خوشیاں ہمارے دروازے پر دستک دیں گی؟ کب جان مہنگی اور روٹی سستی ہو گی؟ کب وہ دن آئیں گے؟ جب امیروں کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی زندگی بھی قیمتی ہو گی ۔جب بنیادی ضروریات کی خاطر اپنا آپ بیچنا نہیں پڑے گا ۔جب سب کی عزت ساجھی ہو گی ۔جب کسی کا باپ قانون سے بڑا نہیں ہو گا اور انصاف عام آدمی کی دسترس میں ہوگا ۔کب ؟
ہم مسلسل ستر سالوں سے کچھ ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں، کبھی ایک ہم سے کھیلتا ہے تو کبھی دوسرا اور یوں ہی باری باری وہ ہم سے کھلتے رہتے ہیں اور ہم انھیں باربار موقع دیتے رہتے ہیں ۔ہم خود کب سنبھالیں گے؟ کب اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھیں گے ؟بس بہت ہو گیا ،لوگو اب اٹھ جائیں، اپنے لیے نہیں تو اپنی اولاد کے لیے ،اپنے حقوق کو پہچانیں، خود کو خاندانی سیاست کا شکار نہ بنائیں، کسی ماموں خالو کے لیے اپنے ملک کو قربان نہ کریں، ہمارے ہاں سیاسی تنزلی کی سب سے بڑی وجہ خاندانی سیاست ہے جو ستر سالوں سے براجمان ہے اور ملک کو کھوکھلا کررہی ہے ۔ اور ہم اس کے ہاتھوں قربان ہوتے رہے ہیں ۔چلئیے! 2018 کے الیکشن میں کچھ کام کر تے ہیں جو شاید ہمارے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے بہتری کا پہلا قدم ثابت ہو جائیں ۔اللہ اللہ کرکے کہ لاکھوں لوگوں اور فوج کی بےشمار قربانیوں کے بعد ملک میں تھوڑا سا امن قائم ہوا ہے، اب اس امن کو قائم رہنا چاہیے اور اس کے لیے ہم کو مل کر کوششیں کرنی ہیں ۔تمام اختیاطی تدابیر اختیار کرنی ہے، اور فساد کا باعث بننے والی تمام چیزوں سے دور رہنا ہے، فرقے بندیوں سے خود کو دور رکھنا ہے، اپنی رائے کے ساتھ ساتھ اپنے بھائی کی رائے کا بھی اخترام کرنا ہے، کسی بھی عمل کو انجام دینے سے پہلے اس کی سچائی کا علم کر لینا ہے ، جیساکہ پچھلے سال انتہاپسندی کے کتنے واقعات ہوئے اور لوگوں کا عمل انتہائی سخت تھا جبکہ ان باتوں کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں تھی اور لوگ بغیر تحقیق کیے آگ بگولہ ہو گئے ۔اور سب اہم فیصلہ جیساکہ الیکشن ہونے والے ہیں اور اللہ کرے کہ وہ اپنے وقت پر اچھے طریقے سے ہوں مگر یہاں آپ کو ووٹ دیناہے ،خدا کے لئے اس بار اپنے لیے، اپنی نسلوں کے لئے ووٹ کا درست استعمال کیجئے، کسی پھوپھا، تایے کے کہنے پر کسی ماموں، خالو کو ووٹ یوں ہی مت دیجئے گا، پہلے ایک بار صحیح آدمی کی جانچ کر لیجیے گا ،خدا کے لئے نسلوں برادریوں کے چکروں سے نکلیں اور ملک کو کالے بھیڑیوں سے پاک کریں جنہیں ہم نے اپنا ضمیر بیچ کر لایا ہے، اس بار نہ پانچ دو سو پر بکنا ہے، نہ سائیکل ، موٹر سائیکل لینی ہے، نہ بریانی کی پلیٹ کھانی ہے ۔ ہر فرد کو اپنی مرضی سے، اپنی سوچ اور فہم کے مطابق ووٹ کا حق حاصل ہے اور اس نے اسکا درست استعمالکرنا ہے ۔ ووٹ صرف اسے دینا ہے جو اس کے قابل ہے اور اس کے لیے ہر طبقے اور ذات کے فرق کو پس پشت ڈال کر اچھے کردار اور قابل انسان کو چننا ہے اور انہیں آگے لانا ہے تا کہ ہم سب کی بہتری ہو سکے نہ کہ چند طبقوں کی۔
اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین