جنرل مشرف کا دورہ ترکی

12 اکتوبر 1999 کو ایک منتخب حکومت پر شب خون مارنے والے جنرل پرویز مشرف صاحب صرف دس دن بعد دو  روزہ دورے پر ترکی پہنچ گئے ۔ ان کو یہ زعم تھا کہ چار دفعہ فوج کے ہاتھوں زخم سہے ترکی سے ان کو کافی داد و تحسین ملے گی ۔ جنرل صاحب کا ویسے بھی ترکی سے خاصا پرانہ واسطہ تھا ۔ ان کے والد مشرف الدین صاحب پاکستانی سفارت خانے میں بطور کلرک کام کرچکے تھے  اور اس طرح چھ سات سال اس بہانے ان کے بھی ترکی میں گذر چکے تھے ۔جنرل صاحب ترکی بھی تھوڑی بہت بولنا جانتے تھے ۔ لیکن شومئی قسمت کے اس وقت جو شخص ترکی کا وزیر اعظم تھا اس کا نام بلند ایجوت اور جو صدر تھا اسکا نام سلیمان دیمرل تھا ۔ دونوں ہی فوج کے ہاتھوں ڈسے ہوئے تھے اور کچھ عرصہ پہلے ہی فوج کی قید سے رہائی نصیب ہوئی تھی۔

انھوں بطور پاکستانی پرویز مشرف صاحب کا تہہ دل سے استقبال کیا لیکن بطور “ڈکٹیٹر” وہ ان سے خاصے خائف تھے  اور دونوں نے ہی مل کر مشرف صاحب کے خاصے لتے لئیے ۔ انقرہ پہنچتے ہی صدر صاحب پہلے اپنے ہم نصب سے ملنے کے لئیے صدارتی محل پہنچے ۔ وہاں صدر سلیمان دیمرل نے جو گفتگو کی وہ کچھ یوں تھی ۔ ” جنرل ! مجھے عملی سیاست میں پچاس برس سے زیادہ ہوچکے ہیں ۔ اور اس طویل عرصے میں جس عمل نے میرے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے ، وہ سیاست میں فوج کی مداخلت ہے ۔ ہمارے جرنیلوں کے دماغ میں بھی یہ خناس تھا کہ وہ ملک کو سدھار سکتے ہیں لیکن ہر بار جب وہ اپنا تماشہ دکھا کر بیرکوں میں گئے تو حالات پہلے کی نسبت اور خراب کرگئے ۔ جنرل !دنیا کی کوئی فوج کسی ملک کی تقدیر نہیں سنوار سکتی ۔یہ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ۔ مجھے پاکستان سے محبت ہے اور تمھیں اپنا چھوٹا بھائی سمجھتا ہوں ۔لہذا بڑا بھائی ہونے کے ناطے جتنی جلدی ہوسکے ، اقتدار سیاستدانوں کو واپس کرو اور اپنی بیرکوں کو لوٹ جاؤ”،

جنرل صاحب کے چہرے پر ایک رنگ آتا اور دوسرا جاتا ۔لیکن فلم تو ابھی باقی تھی ۔ وزیراعظم بلند ایجوت سے ملاقات کرنی تھی ۔ ایجوت صاحب نے طبعیت سے جنرل صاحب کو فوج کی سیاست میں مداخلت کے نقصانات گنوائے اور دوران گفتگو چٹکلہ چھوڑا کہ ” جنرل ! ہمارے دونوں ملکوں میں بہت سی اقدار مشترک ہیں اور اب تو ہم اسکور میں بھی برابر ہوگئے ہیں کہ دونوں جگہ جرنیلوں نے چار چار بار سیاسی عمل میں رخنہ ڈالا ہے “۔ایجوت صاحب کے اس سنگین مذاق پر مشرف صاحب کا چہرہ لٹک گیا ۔لیکن کیا کرتے:

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

انقرہ میں پاکستان کے سفیر کرامت اللہ غوری آگے چل کر اپنی کتاب بار شناسائی میں لکھتے ہیں کہ میں نے صدر صاحب کو   کہا کہ ” جنرل صاحب ! دونوں فوجوں کی اقدار ضرور مشترک ہونگی لیکن کردار میں بڑا فرق ضرور موجود ہے اور وہ یہ کہ ترکی کے کسی بھی شہر میں آپ کو پاکستان کی طرح کوئی ڈیفینس کالونی نہیں ملے گی ۔ یہاں فوج کا سربراہ اعلی یعنی آپ کا ہم منصب بھی جب ریٹائر ہوتا ہے تو تین اور چار کمروں سے زیادہ کے فلیٹ میں نہیں رہتا ہے ۔ اس لئیے کہ سرکار اسے نہ کوئی مراعات دیتی ہے اور نہ ہی زمینیں “۔اور ہمارے ہاں تو خیر ریٹائر ہونے کے بعد کوئی چیف آف آرمی اسٹاف ملک میں ہی نہیں رہتا ہے ۔

غوری صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ایک موقع پر جنرل صاحب نے کمال بے اعتنائی سے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا کہ مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے “اور ان کے گیارہ سالہ دور میں لگتا بھی یہی تھا کہ جیسے انھوں نے کسی کمانڈو آپریشن سے پاکستانیوں کو فتح کیا تھا اور انھیں پورا حق تھا کہ اپنے مفتوحہ علاقے کے ساتھ اور اس کے بسنے والوں کے ساتھ جو چاہیں سلوک کرسکتے ہیں ۔

ایک موقع پر انھوں نے غوری صاحب سے پوچھا بھی کہ آپ کے خیال میں ملک میں کونسے بڑے مسائل ہیں ؟ جواب میں انھوں نے فرمایا جاگیردارانہ ، زمیندارانہ نظام اور تعلیم کا فقدان ۔صدر صاحب نے جواب دیا کہ تعلیم کے مسائل تو میں حل کردونگا لیکن جاگیرداروں کے ساتھ کیا کیا جائے ؟ غوری صاحب نے عرض کی کہ آپ کے لئیے تو یہ سب کرنا بہت آسان ہے کیونکہ ” ڈکٹیٹر ” کی چھاپ تو آپ ویسے ہی لگواچکے ہیں ۔ آپ اعلان کردیں کہ 1971 سے پہلے جو لوگ اسمبلیوں میں تھے وہ ملک توڑنے میں برابر کے شریک ہیں اسلئیے ان کے خاندان کا کوئی بھی آدمی بیٹا ، بھانجا ، بھتیجا ، بھائی وغیرہ وغیرہ اگلے بیس سال تک الیکشن نہیں لڑسکتے ہیں ۔ اور اس طرح چار الیکشن گذر جائینگے جب تک  ملک میں اور  اسمبلیوں میں اچھے لوگ آچکے ہونگے “۔

مشرف جیسے ” بہادر ” کمانڈر سے ویسے بھی اس کی امید نہٰیں تھی ۔ انھیں تو اپنے اقتدار کے لئیے ” مہرے ” درکار تھے ۔ زمینداروں ، جاگیرداروں اور کراچی کے دہشت گردوں سے بڑھ کربھلا شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار کون ہوسکتا تھا ؟ ۔ایک بھوکے بھیڑئیے کی طرح انھوں نے اس ملک کو بھنبھوڑا ۔ اس کے لئیے اپنی ماؤں ، بہنوں کے دلال بن کر ، کبھی ملک کو امریکا کے ہاتھوں گروی رکھوا کر اور کبھی لاکھوں مسلمانوں کا خون اپنے اور اہل پاکستان کے سر لے کر انھوں نے اپنا اقتدار بچایا ۔

کارگل کا سارا تماشہ بھی جنرل پرویز مشرف کے ذہن کی اختراع تھی ۔ جنرل صاحب خود کو ہیرو بن کر دکھانا چاہتے تھے  اور اس ” ہیرو گیری ” کے چکر میں انھوں نے منتخب حکومت اور نیچے فوج تک کو اعتماد میں نہیں لیا ۔ جاکر معصوم اور نہتے فوجیوں کو سخت سردی اور بے سروسامانی کے عالم میں دشمن سے بھڑوادیا۔بعد میں 22 ویں گریڈ کے ایک سرکاری ملازم چیف آف آرمی اسٹاف کو کار سرکار میں مداخلت اور ریاست کو شدید دھچکا پہنچانے پر جب ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس نے ریاست کے بنیادی اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔

پھر جہاز ہائی جیکنگ کا ڈرامہ جو اقتدار پر قبضے کے لئیے رچایا گیا  وہ بھی اتنا بودا اور کمزور تھا کہ جس کی دراصل کوئی حقیقت نہیں تھی ۔کراچی میں ڈرگ روڈ اور ماری پور میں پاکستان ائیرفورس کے ہوائی اڈے اور ائیر بیس موجود تھے  اور جہاز بآسانی وہاں لینڈ کروایا جاسکتا تھا ۔ لیکن پھر بھلا لیلائے اقتدار کی زلفوں سے اٹکیلیاں کرنا کہاں سے نصیب ہوتا ؟۔

جنرل صاحب کے کارناموں کی تفصیل خاصی ہے ۔ سر فہرست یہ ہیں کہ انھوں نے پاکستان کو دنیا میں اجنبی کردیا ۔ فوج کو ایک سوشل ادارہ بنادیا ۔ عوام اور فوج کے درمیان اتنے فاصلے پیدا کئیے کہ احمد فراز کی وہ نظم ” پیشہ ور قاتلو! تم سپاہی نہیں ” متروک ہوچکی تھی دوبارہ ہر جگہ دوہرائی جانے لگی ۔اور پورے ملک کا بیڑہ غرق کردیا ۔ لیکن آپ کمال ملاحظہ کریں ۔ ہماری سادہ لوح عوام اب بھی ضمیر اور وطن فروشوں کو سر پر بٹھانے کے لئیے تیار ہے ۔

قدیم یونانیوں کے ہاں ایک محاورہ زبان زد عام تھا کہ دیوتا جس قوم کو ہلاک کرنا چاہتا ہے ۔ اس کے لوگوں کو پہلے پاگل بنادیتا ہے۔اہل پاکستان فکر کرو کہ :

تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں