پاکستان اوربھارت کے درمیان پانی کے تنازع کی تاریخ تو ستر برس پرانی ہے جب قیام پاکستان کے بعد ہی بھارت نے اپنے علاقوں میں دریائے راوی پر بنے مادھو ہیڈورکس اور ستلج پر بنے فیروزپور ہیڈ ورکس کا پانی روک لیا۔ انہی ہیڈورکس پر اس وقت پاکستانی پنجاب کی زراعت انحصار کرتی تھی ۔ ایک دہائی سے زیادہ یہ مسئلہ چلتا رہا جس کے بعد عالمی بینک کی ثالثی کے نتیجے میں اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے 19 ستمبر 1960 کو کراچی میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط کئے ۔ اس معاہدے پر دستخط کر کے پاکستان نے درحقیقت اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری۔ ایک تو پاکستان کو اس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریاؤں راوی، ستلج ،اور بیاس سے مکمل دستبردار ہونا پڑا جبکہ تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم، اور چناب کو پاکستان کی آبی ضروریات کے لئے کافی مان لیا گیا۔ واضح رہے ان تینوں دریاؤں کا ماخذ مقبوضہ جموں و کشمیر ہے جس پر بھارت نے غاصبانہ تسلط جمایا ہوا ہے ۔ دوسرا پاکستان نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بھارت، پاکستان کےحصے میں آنے والے دریاؤں پر ہائیڈرولک پروجیکٹس(بجلی پیدا کرنے والے ڈیم )بنا سکتا ہے لیکن ڈیم میں پانی کا ذخیرہ کرنے کا حق دار نہ ہو گا۔ سب سے زیادہ ناانصافی کی بات یہ قبول کی گئی کہ اگر بھارت کے کسی ہائیڈرولک پروجیکٹ کے دریائی بہاؤ پرکوئی پاکستانی ڈیم نہ ہو تو بھارت دریا کا رخ موڑ سکتا ہے لیکن شرط یہی کہ پانی کا ذخیرہ نہ کریں ۔
اس معاہدے کے بعد پاکستان نے اپنے حصے کے پانی کو محفوظ کرنے کے لئے منگلا اور تربیلا ڈیم تعمیر کئے اور کالا باغ ڈیم بنانا چاہا جو اپنے اعلان کے وقت ہی سے متنازعہ ہو گیا بعد میں پاکستانی حکومتوں نے آبی ذخائر کی تعمیر کو مسلسل نظر انداز کیا جس کا ایک نقصان پانی کے زیاں کی صورت میں نکلا دوسرا یہ کہ بھارت نے پاکستان کی بے عملی کو جواز بنا کر پاکستانی دریاؤں پر متعدد ڈیموں کی تعمیر کے منصوبوں پر کام شروع کر دیا۔ یہ ڈیم صرف بجلی کی پیداوار کے لئے نہیں تھے بلکہ اس میں پانی کا ذخیرہ بھی کیا جانا تھا ۔واضح رہے بھارت کی جانب سےپانی کاذخیرہ کرنا سندھ طاس منصوبے کی خلاف ورزی تھی جس کا عالمی بینک کو نوٹس لینا چاہیئے تھا۔لیکن چشم پوشی اختیار کی گئی۔
دریائے چناب پر تعمیر ہونے والے بگلیہار ڈیم کے منصوبے پر بھارت نے 1992 میں ہی غور کرنا شروع کر دیا تھا جبکہ اس کی تعمیر کا آغاز 1999 سے ہوا۔ پاکستان نے باقائدہ تعمیر شروع ہونے کے بعد بھی تین سال تک اس ڈیم کی تعمیر رکوانے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔2002 میں ہوش آیا تو پہلے مذاکرات کے ذریعے ڈیم کے ڈیزائن کو تبدیل کروانے کی کوشش کی جاتی رہی مگر مذاکرات میں ناکامی پر 2005 میں پاکستان معاملے کو ورلڈ بینک میں لے گیا جو سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہے اس کے فیصلے سے تعمیر تو نہیں رکی حالانکہ اصولی طور پر ایک متنازع علاقے میں پاکستان کے حصے میں آنے والے دریا پر ڈیم کی تعمیر ہی ایسا اقدام تھا جس کو بہتر صورت میں روکنے کی سعی کی جانی چاہئے تھی لیکن عالمی بینک نے پاکستان کی جانب سے کئے گئےچار اعتراضات میں سے دو کو مسترد کرتے ہوئے جو فیصلہ سنایا بادی النظر میں اس سے یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ پاکستان نے ڈیم رکوانے کی بجائے چند تعمیراتی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے حالانکہ فریقین کے درمیان بنیادی اختلاف یہی تھا کہ آیا ان دریاؤں پر بھارت ڈیم بنوا سکتا ہے یا نہیں ۔ اس کے بعد تو گویا بھارت کو ڈیم بنانے کی کھلی چھوٹ مل گئی ۔ بگلیہار ڈیم کے بعد دریائے جہلم پر اڑی1 اور اڑی2 ڈیمز کی شروعات کی گئیں ۔
سر دست مظفر آباد سے 160 کلومیٹر دور دریائے نیلم پر کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کے سلسلےمیں پاکستان کی جانب سے بجا طور پرتحفظات پیش کئے جا رہے ہیں۔لیکن یہ منصوبہ اچانک ہی سامنے نہیں آ گیابلکہ آج سے دس سال قبل 2008 میں طشت از بام ہوچکا تھا ۔ اور اس لئے کہ بھارت دریا کا رخ نہ موڑے پاکستان نے نیلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی تعمیر کا اعلان کیا تھا کیونکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت جو بھی ملک پہلے پروجیکٹ مکمل کرتا دریا کے پانی پر اس کا حق تسلیم کر لیا جاتا ۔ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر شروع ہو رہی ہے لیکن نیلم ہائڈرو پروجیکٹ کا کہیں اتا پتا نہیں۔ اگر بھارت دریا کا رخ موڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستانی وادئ نیلم خشک سالی کا شکار ہو کر صحرا میں تبدیل ہو جائے گی۔ یہی نہیں بلکہ بھارت دریائے سندھ پر بھی پیداواری منصوبے شروع کرنے کے عزائم رکھتا ہے ۔ پاکستان کو پہلے ہی پانی کی قلت کا سامنا ہے اور جب پاکستانی دریاؤں پر ڈیم کی تعمیر کے بعد بھارت قلت آب کے دنوں میں پانی ذخیرہ کرے گا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس قیامت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس وقت عدالت عالیہ کی جانب سے پانی کی قلت کے خاتمے کاعزم بہت خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں عالمی بینک کی مجرمانہ غفلت اور بھارت کی عیاری و شرارت کے علاوہ پاکستان کے روایتی تساہل اور لاپروائی کوزیادہ دخل ہے۔ پاکستان کو ہر ممکن طریقے سے آبی ذخائر میں اضافے کے ساتھ بھارت کی شرانگیزی کا توڑ کرنا چاہیئے تھا مگر ایسا نہ کر کے شدید غفلت اور بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر بھارت مزید بیس تیس ہزار کیوسک پانی روکنے میں کامیاب ہو گیا تو ہمارے کھیت کھلیانوں میں خاک اڑنے لگے گی نہ پینے کا پانی میسر ہو گا نہ استعمال کا ۔ لہذا قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ قلت آب کے مسئلے کو باہمی اتفاق رائے سے ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ سر دست یہی بہتر ہے کہ متنازع امور چھیڑنے کی بجائے متبادل طریقے اپناتے ہوئے چھوٹے ڈیمز ، بیراج اور نہریں تعمیر کر کے ملک کو صحرا بننے سے بچایا جائے۔