پاکستان اور رمضان دائمی حقیقت

رحمتوں ، برکتوں اور مغفرت کا ماہ مبارک بہت تیزی سے گزرتا ہوا اب آخیر کے چند ایام میں باقی رہ گیا ہے ۔ یہ وہ خاص الخاص ماہ مبارک ہے جس کا اجر اللہ رب العزت بڑھا چڑھا کر دیتے ہیں۔یہ وہ ماہ مبارک ہے جو اس بات کی ایک اور بڑی واشگاف دلیل ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے واقعی ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ ماہ رمضان کی اہمیت اور فضیلت جہاں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے سمجھائی اور اس ضمن میں مختلف احادیث بھی موجود ہیں تو وہیں اللہ پاک قرآن پاک میں بھی اس ماہ مبارک کے مرتبے کا تعین کررہے ہیں۔دراصل یہ ماہ مبارک مسلمانوں کی تربیت کا مہینہ ہے اور تربیت کیلئے فرمانبردار ہونا بہت ضروری ہے اب جو فرمانبردار ہے تو وہ تو اس تربیتی پروگرام سے فائدہ اٹھا لیتا ہے ۔ جیساکہ ثواب کی تو رمضان المبارک میں کوئی حد ہی نہیں ہوتی آپ بس نیکی کرنے کی سوچو اور نیکی ہماری سوچوں کی حدوں سے کہیں آگے کے ثواب کیساتھ نامہ اعمال میں رقم کردی جاتی ہے ۔
مشرق میں رہتے ہوئے مغرب کی تقلید کرتے کرتے ہم باقاعدہ مادہ پرست ہوچکے ہیں ، ہم نے اپنے اسلاف کی اقدار سے دامن چھڑا لیے ہیں،ہمیں صرف اور صرف فائدہ یا نقصان جب تک دکھائی نہیں دیتا ہم اس کام کے کرنے کو تیار نہیں ہوتے یہاں تک کہ تعلقات رکھنے یا نبھانے کے روادار بھی نہیں رہے۔ اب نیکی کو ہی لے لیجئے کیونکہ اس کا اجر دکھائی نہیں دیتا تو ہم لوگ اسے کرنے میں تردد سے کام لیتے ہیں جبکہ کوئی بھی ایسا کام جس کا معاوضہ ہمیں رقم کی صورت میں ملتا ہے فوراً کرنے کی حامی بھرلیتے ہیں۔ رمضان کا ماہ مبارک بہت تیزی سے اپنے انجام کی جانب بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔ ہمارے لیے ابتک سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ہم نے اس ماہ مبارک سے کیا حاصل کیا ہے ۔کیا ہم نے ماہ مبارک کی مہمان نوازی کی بھی یا ہمیں اس کے مہمان ہونے کا پتہ ہی نہیں چل سکا۔ یہ وہ مہمان ہے جیسے اللہ رب العزت ہماری نجات کیلئے ہمارے پاس ہر سال بھیجتے ہیں اور جو سیدھا اللہ کہ حضور پیش ہوکر اپنے میزبانوں کی فہرستیں جمع کروادیتا ہے اورہمارے رب کو ہمارے برتاؤ سے ،اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا، کس نے اپنے اندر وہ تبدیلیاں کیں جو کہ رمضان کی مہمان نوازی کیلئے بہت ضروری تھیں۔ رمضان جہاں ہمارے لئے انگنت تحائف اور انعامات کا سبب بنتا ہے وہیں ہماری تربیت اور عملی جدوجہد کا بھی تقاضہ کرتا ہے۔ رمضان ہمیں آنے والے سال کیلئے دوبارہ سے تیار ی کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ رب کائنات اور محبوب کائنات ﷺ سے قربت کا اہم جز بھی رمضان ہے ۔
دنیا میں تزکیہ نفس کیلئے مختلف طریقوں سے تحقیقی کام جاری ہے اور لوگ من کی تشفی کیلئے سرگرم عمل ہیں، اس عمل کیلئے یعنی جسمانی اور ذہنی سکون کیلئے رقم کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں مگر وہ دائمی سکون حاصل کرنے سے قاصر ہیں جس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ انہیں وہ راستہ ملنا ہی ناممکن ہے جو حقیقی اور دائمی سکون کی جانب لے جاتا ہے۔رمضان میں رکھے جانے والے روزوں کے حوالے سے رواں برس سماجی میڈیا پر ایک ویڈیو جاری ہوئی ہے جو اس تحقیق پر مبنی ہے کہ ایک ماہ بھوک اور پیاس کی مشقت کے عوض انسانی جسم کے اندر کام کرنے والے تمام نظاموں کیلئے کتنے ضروری ہیں، یہ تحقیق بھی ایک غیر مسلم محقق نے کی ہے اور رب کی ربوبیت کی منشاء کا راز افشاں کردیا ہے ۔
رمضان امت محمدی ﷺ کیلئے خصوصی انعام و اکرام سے لبریز عنایت ہے کیونکہ روزے تو ہم سے پہلی امتوں پر بھی فرض تھے لیکن وہ رات کو سونے کیلئے لیٹتے تھے تو انکا روزہ شروع ہوتا تھااور جب صبح اٹھتے تو روزہ کھل جاتا تھا (جوکہ بظاہر کسی مشقت سے عاری تھے )جبکہ ہمارے لئے اس کے برعکس طے پایا کیونکہ ہمیں منفرد مقام جو دینا تھا اور پھر ہم منفرد نبی ﷺ کی امت جو ٹہرے ہمیں دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا اور دن میں گرم سورج بطور آزمائش کہیں یا پھر بطور تربیت کہیں، کچھ بھی کہیں دونوں صورتوں میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اللہ تعالی نے انسانیت کی نجات کیلئے اتارا جانے والا نسخہ قرآن مجید فرقان حمید کے نزول کیلئے بھی اسی ماہ مبارک کا انتخاب کیا اور کچھ تو خاص بات ہوگی جو پاکستان کے وجود میں آنے کیلئے بھی ناصرف اسی ماہ مبارک کا انتخاب کیا بلکہ اس رات کا بھی انتخاب ہوا جس رات میں قرآن پاک کا نزول ہوا۔ یہ وہی پاکستان ہے جو معدنی وسائل سے مالا مال ہے ، یہ وہی پاکستان ہے جہاں پہاڑوں میں نایاب دھاتیں پوشیدہ ہیں، جہاں نمک کی بڑی بڑی کانیں ہیں، یہ وہی پاکستان ہے جو زرعی مملکت ہے ، یہ وہی پاکستان ہے جہاں قدرت نے بندرگاہیں بنی بنائی فراہم کیں ، یہ وہی پاکستان ہے جہاں کالا باغ ڈیم بھی قدرتی طور پر بنا ہوا ہے مگر سیاست کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے ، یہ وہی پاکستان ہے جسے دنیا کے ۱۹۵ ممالک میں سے ان ۸ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک میں شامل ہونے کا اعزاز بخشاء گیا ، یہ وہی ملک ہے کہ جس کی فوج دنیا کی بہترین اور جدید اسلحہ و جنگی سازوسامان سے لیس فوجوں میں نمبر ایک ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔
اب یہ سراسر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اس قدرت کے تحفے کی اہمیت جانتے بوجھتے اسے تباہ و برباد کرنے کیلئے نااہل اور عیش و عشرت کے دلدادہ لوگوں کو اپنا حکمران بناتے چلے جا رہے ہیں۔ آخر ہم کب تک اسی طرح سے اپنے ہاتھوں سے اپنی تقدیر کا گلا دباتے رہیں گے اور سسک سسک کر اپنی زندگیاں بسر کرتے رہینگے۔ ہمیں اس رمضان کہ جاتے ہوئے دنوں میں اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر یہ دعا کرنی ہوگی کہ یااللہ آنے والے انتخابات میں ہمیں ان لوگوں کو چننے کا موقع دے جو اس ملک سے اور اس ملک کی عوام سے قربت رکھتے ہوں جنکا اوڑھنا بچھونا پاکستان ہو ، یا اللہ ہمیں تیرے اس تحفے کی صحیح معنوں میں اہمیت سے استفادہ کرنے کی توفیق عطاء فرما۔ رمضان تو چلا جائے گا معلوم نہیں کسے آنے والے سال میں اس ماہ مبارک کی مہمان نوازی کا موقع ملے، اسی لیے اب جو دن باقی ہیں ان میں جانے انجانے میں سرزد ہونے والے گنا ہ بخشوا لو اور وہ سب مانگ لو جس کا تم اپنے آپ کو اہل سمجھتے ہو۔جیسے اللہ نے قران کی ذمہ داری اپنے پاس رکھی ہے بلکل ایسے ہی پاکستان کی حفاظت بھی اللہ کے ذمہ ہی ہے مگر ہمیں اپنی عاقبت سدھارنی ہے تو اس ملک کی بقاء کیلئے اپنا اہم ترین کردار نباہنا ہوگا اور حق رائے دہی ضرور استعمال کرنا ہوگا۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں