میں بس میں سوار تو ہو چکا تھا مگر بس میں بیٹھنے تو کیا تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ گاڑی چلی تو کچھ لڑکے بانکے دروازے سے لٹک گئے، اب تو سانس بند ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ چلچلاتی دھوپ اور ٹین کی چھت، گرمی کی حدت کا اندازہ کراچی والے ہی لگا سکتے ہیں۔ مجھے جگہ نہ ملی تھی البتہ احساس فخر ضرور زندہ ہوا تھا کہ میں “باوا آدم” کے زمانے کی گاڑی میں سوار ہوں۔ چھکڑا نما اس بس کی کھڑکیاں شیشوں سے محروم تھیں البتہ کچھ سریا نما سلاخیں ضرور لگا رکھی تھیں اور دروازے کی کمی وہاں لٹکتے لوگوں نے پوری کر دی تھی۔ چھت پر نگاہ کی تو وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ مجھے یقین سا ہو گیا اور خیالوں ہی خیالوں میں اپنے کندھے پر تھپکی دی تھی کہ کتنا خوش قسمت ہے جو “باوا آدم” کے زمانے کی گاڑی میں سوار ہے۔
گاڑی اگلے اسٹاپ پر جا کر رک چکی تھی۔ گرمی کی شدت میں اضافہ ہو چکا تھا۔ اور کنڈیکٹر تھا کہ “ساتھ ساتھ ہو جاو” کے ورد سے لوگوں کو ٹھونسے ہی جا رہا تھا اور کچھ کو چھت کی راہ دکھا رہا تھا جہاں گرم ائرکنڈیشن کی سہولت بھی موجود تھی۔ ساتھ ہی ساتھ سورج کی الٹرا وائلٹ شعاوں سے بھی مستفید ہوا جا سکتا تھا لیکن بس کی چھت پر سوار ہونا میرے بس کی بات نہ تھی۔ دراصل اطباء کا خیال ہے کہ روزانہ سورج کی شعاوں میں تھوڑا وقت گزارنا چاہیے تا کہ وٹامن ڈی کی کمی نہ ہو۔ اور لوگ جوڑوں کے درد جیسی بیماری سے نجات پائیں۔ بس مالکان و حکومت کی دور اندیشی کا تو میں قائل ہو چکا تھا جس نے یہاں بھرپور انتظام کر رکھا تھا سورج کی شعائیں وٹامن ڈی کی کمی پوری کر رہی تھیں۔
اب مجھے گرمی کچھ زیادہ ہی ستا رہی تھی۔ منہ خشک تھا۔ زبان تالو سے چپکی معلوم ہو رہی تھی۔ بس چلے گی تو ٹوٹے ہوئے شیشوں سے “سمندری ہوا کے جھونکے” کا تصور ہولناک گرمی کے بخارات بن کر ہوا میں تحلیل ہو چکا تھا۔ پسینے کے قطرے چوینٹیوں کے ریوڑ کی طرح میری بنیان کے نیچے رینگتے ہوئے کپڑوں میں جذب ہو رہے تھے۔ ماتھے کی ٹپکتی چھت سے پسینہ ٹپ ٹپ گر رہا تھا۔ اور کندھے اور ہاتھ میں بھاری بیگ، کنڈیکٹر کی کرخت آواز، “آگے بڑھو، آگے بڑھو” کا آوازہ، لوگوں کے دھکے، پسینے کی بو اور فضا میں پھیلی تعفن و سڑاند کی بدبو، جیب کترے کا خوف اور اوپر سے گاڑی کے جھٹکے، تھکن کے احساس سے آنکھیں کھلی رکھنا محال تھا۔ دل ڈوب سا رہا تھا جیسے ابھی گرتا ہوں اور رتبہ شہادت پر فائز ہوتا ہوں۔
گاڑی تیز دھوپ میں سرپٹ دوڑے جارہی تھی۔ میں دھکم پیل میں ڈرائیور کی سیٹ کی جانب بڑھتا گیا تھا، دو سیٹوں کے فاصلے پر شعبہ خواتین تھا جہاں کچھ بوڑھی جوان عورتیں سیٹوں پر براجمان پلو سے ہوا جھل رہی تھیں تو کچھ کھڑی، دوسری عورتوں کو کوس رہی تھیں کہ” اندھی ہے؟ نظر نہیں آتا” اور کچھ جگہ کی متلاشی کہ کب کوئی اٹھے اور دھم سے وہ اس کی جگہ پر گر جائیں۔ کچھ کالج کی لڑکیاں بھی بستہ کمر سے لٹکائے خود لٹکی نظر آئیں۔ ایک جانب کو اپنے ہاتھ پر ڈھے سی گئیں تھی اور زبان حال سے کہہ رہی تھیں کہ ہائے! کب اس جھمیلے سے جان کو امان ملے۔
کچھ مرد و خواتین روزے کی قربانی دیتے نظر آئے۔ مرد تو بغیر شرم و جھجک کے بکری کی طرح منہ چلائے جا رہے تھے، ان کا خیال تھا چھالیہ، پان، گھٹکا، ماوا ہی وہ واحد چیز ہے جس سے روزے پر نہ روزے دار پر کوئی فرق پڑتا ہے۔ جب کہ خاتون پردے کا اہتمام کر رہی تھیں۔ ایک نے نقاب میں اڑسا جوس پیا اور ڈبہ ٹوٹے شیشے سے باہر منتقل کر کے الٹا ہاتھ منہ پر پھیرا، اور توانائی جمع کر کے الحمدللہ کا ورد کرتی اٹھ کھڑی ہوئی کہ “آنٹی آپ بیٹھیں، نہیں نہیں آپ بیٹھیں؛ اور آنٹی ایسے آنکھیں پھاڑ کے دیکھ رہی تھیں جیسے ان کی دعا ابھی ہونٹوں سے جدا ہوئی اور ابھی پوری ہو گئی ہو۔ روزے دار کا اتنا خیال؟ مجھے اس مسلمان عورت کے اس عمل پر رشک آنے لگا۔
میں نے قریب بیٹھے لوگوں پر نظر التفات کی کہ شاید ویسا اخلاق یہاں بھی کسی میں ہو اور وہ میرے چہرے بشرے کو دیکھ کر جگہ عنایت کر دے کہ صاحب! بیٹھیے آپ۔ لیکن ایسا مسلمان کوئی نظر نہ آیا۔ البتہ ایک دوسرے پر گرے لوگوں کی عقابی نظروں کا ضرور اندازہ ہوا کہ بس کوئی اٹھے تو سہی۔ ایسے میں قریب بیٹھے ایک موٹے تازے شخص پر نظر پڑی جو تنگ سیٹ میں سے نکلنے کے لیے پر تول رہے تھے۔ میں نے بھی “ہمت مرداں مدد خدا” کا دل ہی دل میں نعرہ لگایا اور اس جانب والی سیٹ پر بیٹھنے کے لیے تیار ہوگیا۔ بس اس شخص کا اٹھنا تھا کہ میں اس کی بغل سے ہوتا ہوا سیٹ پر براجمان ہو چکا تھا۔
مجھے اپنی جیب کا خیال آیا، میں نے ٹٹولا، اپنی پاکٹ کو صحیح سلامت پا کر شکر ادا کیا کہ خدا نے ان کی چھری سے بچا لیا۔ میں جیب کتروں کی مہارت کا دل و جان سے قائل ہوں۔ اس لیے پوری طرح محتاط اور بھرپور حفاظت کا انتظام رکھتا ہوں۔ بس میں سفر کے دوران گر جاوں کسی دوسرے پر، یہ تو ممکن ہے لیکن اپنی جیب پر سے نظر ہٹا لوں یہ زرا مشکل ہے۔ اگرچہ جیب میں سادہ کاغذ بھی نہ ہو۔ کیوں کہ مجھے یہ بات بالکل گوارا نہیں کہ میں کراچی کی کسی مسجد کے سامنے کپڑا بچھا کر بیٹھوں اور آواز لگاوں: میں مسلمان ہوں بھائیو، میں مسافر ہوں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کیسا پاگل ہے اوبر، کریم جیسی سہولت کے ہوتے ہوئے اتنا لمبا سفر کرنے کے بعد بھی بسوں کے دھکے کھانے کا شوق، پاگل پنا ہی تو ہے۔ صاحبو! ایک بات تو یہ تھی کہ یہ کمپنیاں مجھے گزشتہ دنوں میں ٹھینگا دکھا چکی تھیں سو ان کے بائیکاٹ کی نیت سے عوامی سواری کو ترجیح دی۔ اور یہ ساری سہولیات تو آپ اپنے ہاں استعمال کرتے ہی ہیں۔ کسی دوسرے شہر گئے ہیں تو وہاں سیاحت کا مزہ بھی لیں وہاں کی سواریوں پر گھومیں پھریں، شرط یہ ہے کہ وہاں کی سواری گھومنے کے لائق چھوڑے تو تب۔
ویسے آپ سوچیں تو کراچی ان بسوں کے بغیر کراچی دکھے گا بھی؟ آپ سوچ کیسے سکتے ہیں کہ یہ کمپنیاں اس مافیا سے نجات دلائیں گی؟ آپ سفر کے مزوں سے محروم ہونا چاہتے ہیں؟ آپ سوچیں تو بس میں بیٹھی عورت کے روتے بچے کی بھلی آواز اور پرانی سریلی موسیقی سے محروم رہنا چاہتے ہیں؟ارے! کوئی کار آپ کو جھالروں اور لٹکن جھٹکن کے ساتھ سفر نہیں کرانے والی، نہ ہی ایسا ہو گا کہ آپ عازم سفر ہوں اور آپ کو کاجل بھری مور سی آنکھیں نظر آئیں۔ یہ سب برکتیں اسی سروس کی ہیں جس کے بارے حکومت وقت کا ارشاد ہے: آپ منزل پر نہ پہنچیں کوئی بات نہیں یہ سفر تو کراتی ہیں ناں؟ میں اس سروس سے کیسے محروم رہ سکتا تھا؟
دوسرا یہ کہ میں قوم کی بہادری کے قصے تو سن چکا تھا لیکن عملی تصویر دیکھنا باقی تھی۔ ہماری قوم بہادر قوم ہے اس کا منہ بولتا ثبوت اپنی آنکھوں کراچی کی بسوں میں دیکھا۔ کیا بہادری کی مثالیں رقم کرتے ہیں۔ ایک مثال تو کٹھارا بسوں کے ڈرائیورز کی ہے۔ کس شان بے نیازی سے موت کی گاڑی کو دوڑاتے ہیں یہ ان کی بہادری نہیں تو کیا ہے؟ گاڑی اس انداز سے چلاتے ہیں کہ لگتا ہے اب مرے کہ کب مرے، موت یاد آجاتی ہے۔ مسلمان کو چاہیے کہ موت کو کثرت سے یاد کرے اور یاد کرانے والا کام کراچی کی بسوں کے ڈرائیور بخوبی سر انجام دیتے ہیں۔
ایک اور مثال ملاحظہ کیجیے۔ کراچی کی بسوں میں سفر کرنے والی عوام، مجھے تو ان کی بہادری پر رشک آنے لگا تھا۔ کیسے جان پر کھیل کر اپنی منزل تک پہنچتے ہیں۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر علم حاصل کرنے، پیٹ پوجا کی فکر کرنے، دیگر ضروریات زندگی کے لیے روزانہ سرفروشی کی جوت جگائے سفر کرتے ہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو ہم صرف بہادر ہی نہیں کفایت شعار قوم بھی ہیں۔ کیوں کر بسوں کی دیکھ بھال پر پیسہ خرچ کریں؟ قوم کا پیسہ اس بیکار کام میں صرف بھی کیسے کر سکتے ہیں؟ ملکی معیشت قطعی اجازت نہیں دیتی۔ ہم نے اگر دیکھ بھال کی، پبلک ٹرانسپورٹ پر توجہ دی تو ماحولیاتی آلودگی کا بھی خاتمہ ہو جائے گا جو ہم برداشت نہیں کر پائیں گے۔ کیوں کہ اس آلودگی اور زہریلی فضا کے ہم ایسے عادی ہو چکے ہیں کہ صاف ستھری ہوا کہیں مل جائے تو سانس بند ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
میں گاڑی کی سیٹ پر بیٹھا، انجانے حدشات میں گرا سوچوں میں محو تھا۔ کبھی جھٹکا لگتا تو میں خوابدیدہ جذبوں سے باہر کی دنیا میں قدم رکھتا اور بچوں کی طرح ٹوٹی شیشے والی کھڑکی پر لگے لوہے کے پائپ سے سر ٹکائے باہر کی دنیا دیکھنے لگتا۔ باہر سڑک پر سیکڑوں گاڑیوں میں بیسیوں بسیں گزر چکی تھیں جن کے دروازے اور چھتوں پر حشرات الارض کی طرح اشرف المخلوقات چپکی دکھائی دیتی تھی۔ لوہے کے جنگلوں پر چپکی حقیر مخلوق کا کوئی پرسان حال نہیں۔ میں انہیں ہی سوچ رہا تھا کہ میری نظر روڈ کے عین وسط میں جاری کنسٹرکشن کے کام پر پڑی۔ معلوم ہوا وفاقی حکومت کے منصوبے گرین لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ پر کام ہو رہا ہے۔ جو اگر پورا ہو گیا تو قوی امکان ہے کہ کراچی کی عوام کو جہاں فائدہ و آسانی ملے گی وہیں یہ لوگ آلودہ راستوں سے بھی محروم ہو جائیں گے۔
میں خیالوں کی دیگ پکا رہا تھا کہ گاڑی ہچکولے کھانے لگی، ساتھ ہی شور غوغا بلند ہوا۔ کچھ خواتین چلا رہی تھیں تو کچھ ڈرائیور کو ڈانٹ ڈپٹ رہی تھیں کہ آہستہ چلاو۔ دراصل ایک عدد گاڑی ان سے آگے نکل گئی تھی جو ان کی شایان شان نہ تھا۔ کنڈیکٹر نے ننگی سی گالی دے کر ڈرائیور کو خبردار کیا تھا کہ “لاڑا” بس پھر ڈرائیور نے شلوار کو گھٹنے پر سے اوپر کھینچا، گالی دی اور مسافروں کو موت یاد کرانے کی سعی کرنے لگا۔ چند ہی لمحوں میں مسافروں کے لبوں پر کلمہ طیبہ کا ورد جاری تھا۔ شعبہ حضرات کے کچھ لوگ کنڈیکر کو تنبیہ کر رہے تھے تو کچھ ڈرائیور کو کوس رہے تھے۔ لیکن وہ صاحب تو جیسے مٹی کا مجسمہ ہوں۔ “صم بکم عمی” کی عملی تصویر بنے، انگلی ہارن پر رکھے دوڑائے جا رہے تھے۔
گاڑی ہچکولے کھا رہی تھی، گرمی کا احساس تو بجھ چکا تھا البتہ موت کثرت سے یاد کرو والا قول پورا ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ ٹریفک کی بے اعتدالیوں میں اضافہ ہو رہا تھا ڈرائیور اور اس کے معاون کے منہ سے مغلظات ابل رہی تھیں۔ میں نے کلمہ ایمان کی تجدید کی اور دونوں کانوں کو چھو کر لوہے کے پائپ سے سر ٹکا لیا کہ اگر بس الٹ گئی تو کم از کم کھڑکی کے پاس تو رہوں گا ممکن ہے باہر جا گروں۔ کھڑکیوں پر لگے لوہے کی افادیت پوری طرح واضح ہو چکی تھی۔ اگر یہ لوہے نہ ہوتے اور ڈرائیور اس انداز سے گاڑی چلاتا تو عین ممکن تھا کہ کوئی مسافر اڑتا ہوا گاڑی سے روڈ پر منتقل ہو جاتا۔
میں نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا اور دوبارہ سے باہر کی دنیا کو محویت سے دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔ باہر روز محشر کی ریہرسل ہو رہی تھی۔ دیواریں اشتہاروں سے پر تھیں۔ قوت مردمی کی بحالی، نرینہ اولاد، حاجات و خواہشات کی تکمیل، رشتوں کی بندش اور رشتوں کے لیے رابطہ کریں کے بے شمار پتے درج تھے۔ کہیں کہیں رفاعی اداروں کے اشتہارات ٹنگے دکھائی دیتے تھے تو کہیں سیاسی جماعتوں کے جھنڈے پھڑپھڑا رہے تھے۔
گاڑی ایک چوراہے میں پہنچ کر رک چکی تھی۔ کنڈیکٹر کی گردان جاری تھی۔ البتہ اس گردان میں تبدیلی آگئی تھی کہ سب سے آخری صیغہ پہلا صیغہ بن چکا تھا۔ جس کا واضح مطلب یہی تھا کہ اگلا اسٹاپ کیماڑی کا ہے۔ میں نے اشتہارات پڑھنے کی اسپیڈ تیز کر لی تھی دھول مٹی میں اضافہ ہو چکا تھا۔ باہر ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی دور کے گاوں گوٹھ میں پہنچ گئے ہوں۔ جمپ پر جمپ لگ رہا تھا۔ کھڈوں والے ٹوٹے پھوٹے روڈ پر سے ہوتا ہوا ڈرائیور گاڑی آگے بڑھا رہا تھا۔ کنڈیکٹر نے دروازہ بجایا اور کیماڑی والا کی آواز کے ساتھ ہی لوگ سیٹوں پر سے اٹھ کر گیٹ کی طرف لپک گئے تھے۔ ان لوگوں میں میں بھی شامل تھا۔