مقدر کی سختی

ہم دونوں تقریباََ75سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔میں بھی بوڑھا سا ہوگیا ہوں ! اعصاب بھی کام نہیں کرتے ہیں ۔پھر بھی اپنوں پرائیوں کی محبتوں کے متلاشی ہیں،کیوں؟کس لئے کیا میں نے دیکھا نہیں کہ بوڑھے بیل سے کسان بھی اپنی محبتیں توڑ کر مذبحۃ خانے چھوڑ آتا ہے۔اور اپنی تمام محبتوں کے رشتے بھی توڑ لیتا ہے! کیونکہ بیل اب نکما ہو گیا ہے! زخمی اور بیمار گدھے سے اس کا مالک ساری زندگی محبت جتانے اور روزی روٹی کمانے کے بعداس بیمار اور بے کس کوکسی ویرانے میں بے بسی کے عالم میں بے دردی سے کہیں چھوڑ آتا ہے۔اور کسی دوسرے جاندار سے اپنی محبتوں کی پینگیں بڑھا لیتا ہے۔یہ بھی اس کا محبوب صرف اُس وقت تک رہے گا جب تک ا س کے جسم میں جان ہے،جیسے ہی اس کے اعصاب جواب دے جائیں گے اور سانسیں ڈھیلی پڑ جائیں گی،اس کا محب اس کو بھی ویرانے میں چھوڑ آئے گا! کہ زمانے کا یہ ہی دستور ہے…..جب سورج نکلتا ہے تو ہر جانب سے خوشی کے شادیانے بجتے ہیں۔ڈھلتے سورج کو کوئی توجہ کے قابل ہی نہیں سمجھتا ہے۔کیونکہ اس کے بعد گھور اندھیرے زمین کا مقدر بالکل ہماری ہی طرح ٹہرتے ہیں! آج ہم بوڑھے شہریوں کے گھر (اولڈ سیٹیزن ھاؤس)کے دروازے پہ بیٹھے ہر آنے جانے والے میں اپنے بچوں کی جھلک دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں،جب نتظار کا یہ فریب ٹوٹتا ہے تو ڈھیر ہوجاتا ہے، میرا خوبوں کا حسیں تاج محل….پھر میں خود سے سوال کرتا ہوں، جانے کیا ڈھونڈھتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں، راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری…..یہاں ہمیں کھانے،پینے اور پہننے کی کسی چیز کی کمی تو نہیں ہے ، تنہائی کے شکار ہم لوگوں کوزندہ رہنے کے سامان تو مہیا ہیں نا؟کمی ہے تو بس محبتیں دینے والوں کی ہے! محبتیں تو صرف ماں باپ سے ملیں،ایک ماں ایسی ہستی تھی ،جب میں نے کہا مجھے ڈر لگتا ہے !!!تمام عمر میری ماں نہیں سوئی!!! مرے گیلے بستر پرخود لیٹ کرمجھے سوکھے میں سلا دیتی تھی ….. مرا باپ غربت کا مارا ہونے کے باو جودمیرے مستقبل کی فکر میں کھویا رہتا تھا! مجھے کچھ کچھ یاد ہے جب میں ایک سوال کو اُس کے سامنے بار بار دہراتا تھا تو وہ نہ تو مجھ سے ناراض ہوتا تھا، اور نہ اُس کے چہرے پر کوئی شکن نہیں پڑتی تھی! بلکہ میرے سوال پر ہر بار خوش کر جواب میں مجھے مطمین کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا….مگر جب میں بوڑھا ہوگیا ،یاد داشت جاتی رہی ،تو میرے بچے میری کسی ایک بھول پر بھی مجھے معاف کرنے کو تیار نہ تھے!!! ابا! بتا تو دیا ہے کیوں بار بار ایک ہی بات پوچھ کر ہمارا دماغ کھا رہے ہو!!!اس بات کو میری شریکِ سفرہرداشت نہ کرتے ہوئے بول اٹھی ، بیٹاتو سو بار بھی اپنے بچپن میں اس بوڑھے سے سوال کرتا تھا، تو یہ ہر بار تجھے شفقت سے جواب دیتا تھا …..بس پھر کیا تھا میرے بیٹے،بیٹی اور بہو کو طیش آگیا اور ہمیں ہماری آخری منزل پر سب چھوڑ کر اس وعدے کے ساتھ ’’کہ ہم آتے رہیں گے‘‘یہ جا وہ جا!!!اورآج تک ہم سالو ں سے ان کا انتظار کر رہے ہیں۔جن لوگوں کو اللہ نے توفیق دی ہے وہ عید تہوار پر ان پر کٹے پنچھیوں سے محبتیں بانٹنے چند لمحوں کے لئے چلے آتے ہیںَ! کہ یہ شائد اپنی عاقبت کا احساس لئے ہوتے ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں