روزہ اورجوڑوں کی بیماری

پٹھوں اورجوڑوں کی بیماری دنیا میں عام ہے اور پاکستان میں بھی لاکھوں افراد اس بیماری کا شکار ہیں ۔ ان میں جو مشہور بیماری ہے اس میں Osteoarthritis Gout-Rheumatoid Arthritis اور Fibromyalgia شامل ہیں جوڑوں کی بیماری میں سب سے مشہور اور عام بیماری Rheumatoid Arthritis کہلاتی ہے۔ پاکستان میں بھی لاکھوں افراد اس بیماری کا شکار ہیں یہ بیماری جوڑوں کو متاثر کرتی ہے یہ جینٹک بیماری ہوتی ہے جو زیادہ تر خاندان سے منتقل ہوتی ہے۔ یہ عمر کے ابتدائی حصے میں ہی نمایاں ہوجاتی ہے۔ میڈیکل ریسرچ نے یہ بات ثابت کی ہے کہ روزہ رکھنے کے نتیجے میں اس طرح کی بیماریوں میں کافی بہتری آتی ہے اورایک ریسرچ رپورٹ میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ Fasting اور فوڈ کو تھوڑا سا تبدیل کرلیں گوشت کے بجائے سبزی زیادہ استعمال کی جائے تو اس بیماری میں کافی کمی آجائے گی۔ یہ بیماری ختم تو نہیں ہوتی لیکن بڑی حد تک کنٹرول ہوجاتی ہے اور بہت سارے مریضوں میں بہتری آجاتی ہے۔ روزے اس بیماری میں اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں اور سبزیوں کے استعمال کے ذریعے اس بیماری کو بہتر طریقے سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ سائینووئل فلوئیڈ جو جوڑوں کے اندر ایک لعاب ہوتا ہے اس کے اندر گلوکوز کا لیول کم ہوجاتا ہے اور کو رٹی سول (Cortisol) کا لیول بڑھ جاتا ہے اس گلوکوز کی مقدار کم ہونے اور کورٹی سول کی مقدار بڑھنے کی وجہ سے جوڑوں کے اندر ایک اینٹی انفلیمٹری اثر ہوتا ہے جو جوڑوں میں ورم اور تکلیف کو کافی کم کردیتا ہے اس مرض کے بارے میں تحقیق نے کافی واضح طورپر ثابت کی ہے کہ اگر مستقل روزے رکھیں تو یہ کافی مفید ثابت ہوسکتاہے۔ جو دوسری عام بیماری Osteoarthritis ہے جو زیادہ تر 50-60 سال سے زائد عمر کے افراد کو ہوتی ہے یہ ڈی جنریٹو جوائنٹ ڈیزیز ہے ، یہ گھٹنوں کے جوڑوں کو متاثر کرتی ہے اس مرض میں مبتلا بہت تکلیف کا شکار ہوجاتے ہیں،ریسرچ نے یہ بات بھی ثابت کی ہے کہ Osteoarthritis کے مریض اگر روزے رکھیں تو ان میں اس بیماری کے اندر کمی آجاتی ہے۔ Osteoarthritis کی ایک بڑی وجہ وزن کی زیادتی ہے۔ گھٹنوں پر مسلسل دباؤ کی وجہ سے یہ بیماری اور زیادہ بڑھ جاتی ہے اس بیماری میں دیرپا فوائد وزن کی کمی کے ذریعے حاصل ہو سکتے ہیں اور رمضان میں وزن کم ہوجاتا ہے۔
تیسری بیماری Gout کہلاتی ہے یہ بالعموم یورک ایسڈ(uric)کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یورک ایسڈ کی مقدار کو غذاؤں کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہے بہت سارے مریض ایسے ہوتے ہیں جن کا غذاؤں میں پرہیز کے ذریعے خون میں یورک ایسڈ کی مقدار کو کنٹرول کرسکتے ہیں اگر کسی کو Gout ہویا گھٹنے کی دوسری کوئی بیماری تو ان کو پہلے اپنے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے کہ رمضان کے مہینے میں کیا خاص احتیاطیں کرنی چاہییں، کیا چیز استعمال کرنی چاہیے ،کیا نہیں کرنی چاہیے اور کس طرح دوائیوں کا استعمال کرنا چاہیے کہ رمضان کے مہینے میں بیماری کنٹرول میں رہے اور بڑھے نہیں۔ اسی طرح ایک اور بیماری ہے جو پوری دنیا میں بھی اور ہمارے ملک میں بھی عام ہے وہ Fibromyalgia کہلاتی ہے یہ بنیادی طورپر پٹھوں کی بیماری ہے جس میں پٹھوں کے اندر مسلسل تکلیف کی کیفیت ہوتی ہے گردن، کندھے ، کمر، پیر غرض تمام جسم میں ایک تکلیف کی کیفیت ہوتی ہے۔ اس بیماری کا تعلق اعصاب سے ہے ، یہ اعصابی کمزوری کی وجہ سے ہوتی ہے جن لوگوں پر اسٹریس زیادہ ہوتا ہے ان میں یہ تکلیف زیادہ ہوتی ہے اس بیماری کے بارے میں بھی ریسرچ نے یہ بات ثابت کی ہے کہ Fibromyalgia کے مریض فاسٹنگ سے کافی بہتر ہوجاتے ہیں ان کے اندر علامتی بہتری آتی ہے۔ ان کا اسٹریس لیول کم ہوجاتا ہے ۔ دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے اور ان کے جسم میں جو تکلیف ہوتی ہے وہ بھی کافی کم ہوجاتی ہے۔ بحیثیت مجموعی جوڑوں کی بیماریوں کا بڑا گہرا تعلق وزن اسٹریس اور ڈائیٹ مینجمنٹ کے ساتھ ہے ۔ یہ تینوں چیزیں رمضان کے مہینے میں قدرتی طور پر گھٹنوں کی بیماری کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔
لوگوں کا وزن بالعموم کم ہوجاتا ہے ۔ اسٹریس کا لیول کم ہوجاتا ہے لیکن اگر کسی کو پہلے سے جوڑوں میں شدید تکلیف ہو تو اس کو پہلے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرلینا چاہیے۔ جن لوگوں کو جوڑوں کی بیماریاں ہوتی ہیں وہ بالعموم دو طرح کی دوائیاں لے رہے ہوتے ہیں Steroid یا نان اسٹرائیڈل جو Pain killer کہلاتے ہیں اوریہ دوائیاں معدے پر بھی اثرات رکھتی ہیں اورپورے جسم پر بھی۔ ایسے مریضوں کو ڈاکٹر سے مشورہ کر لینا چاہیے کہ ان دوائیوں کی کتنی مقدار رمضان میں استعمال کی جائے اور کن اوقات میں زیادہ تر دوائیں معدے پر اثر کرتی ہیں جس سے تیزابیت بڑھ جاتی ہے بہتر یہ ہے کہ اگر پورے دن میں ایک ہی گولی لینی ہے تو وہ افطار میں لی جائے۔

حصہ
mm
پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر ملک کے معروف نیورولوجسٹ ہیں جو آغا خان ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔صحت کے حوالے ملکی و بین الاقوامی جرائد میں ان کے تحقیقی مقالے شایع ہوتے رہتے ہیں

جواب چھوڑ دیں