دعا کی فضیلت،قبولیت کے اوقات ومقامات اورآداب 

رمضان المبارک ایک بار پھر سایہ فگن ہے،عموماًافطاری کے وقت ہر گھر میں دعا کی ایک روحانی فضا دیکھنے میں آتی ہے،یہ وقت دعا کی قبولیت کا بھی خاص وقت ہوتاہے۔ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ دعامانگیں،کہ اس سے اس کی رحمت جوش میں آتی ہے!

الحمدللہ!رمضان المبارک ہم پر اپنی تمام تر رحمتوں،برکتوں اور مغفرت کے وعدوں کے ساتھ ایک بار پھر سایہ فگن ہے۔مسلمان اس مہینے کے ایک ایک لمحے کو قیمتی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس مہینے کی خاص عبادات میں دعا بھی ہے۔عموماًافطاری کے وقت ہر گھر میں دعا کی ایک روحانی فضا دیکھنے میں آتی ہے،کیوں کہ حدیث مبارکہ کے مطابق افطاری کا سامان سامنے رکھ کر دعا میں مشغول بندے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ فرشتوں پر فخر فرماتے ہیں،اسی طرح یہ وقت دعا کی قبولیت کا بھی خاص وقت ہوتاہے۔ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ دعامانگیں،کہ اِس سے اُس کی رحمت جوش میں آتی ہے۔
دعا کی فضیلت ۔ قر آن کریم کی روشنی میں:
دعا کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالی نے متعدد جگہ ہدایت دی ہے، ان آیات مبارکہ سے دعا کی عظمت واضح ہوتی ہے۔ سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر186 میں ارشاد باری تعالی ہے:وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدّ َاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُواْ لِیْ وَلْیُؤْمِنُواْ بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُون
ترجمہ : اور(اے پیغمبر)جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ)میں تو(تمہارے) پاس ہوں، جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک راستہ پائیں۔
قرآن مجید کی سورۂ ا عراف ،آیت نمبر55،56میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرما تا ہے۔:اُدْعُواْ رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (55) وَلاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِہَا وَادْعُوہُ خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللّہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ(56)
ترجمہ: لوگو!اپنے پرور دگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو، وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور خداسے خوف کرتے ہوئے اور امید رکھ کر دعا ئیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔
دعا کی فضیلت۔ حدیث نبوی کی روشنی میں:
اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاکی عظمت ، اس کی بر کتیں ، دعا کے آداب اور دعا کرنے کے بارے میں واضح ہدا یات دی ہیں ۔ایسی بے شمار احادیث ہیں، جن میں دعا کا ذکر ہے اور دعا کی اہمیت و فضیلت کو واضح کیا گیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: دعا کارآمد اور نفع مند ہوتی ہے اور ان حوادث میں بھی جو نازل ہوچکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، پس اے خدا کے بندو! دعا کا اہتمام کرو۔ (جامع ترمذی)
ایک اور حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مردی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ سے اس کا فضل مانگو، کیونکہ اللہ کو یہ بات محبوب ہے کہ اس کے بندے اس سے دعا کریں اور مانگیں۔اللہ تعالی کے کرم سے امید رکھتے ہوئے اس بات کا انتظار کرنا کہ وہ بلا اور پریشانی کو اپنے کرم سے دور فر مائے گا اعلی درجہ کی عبادت ہے۔ (جامع ترمذی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرما یا: اللہ کے یہاں کوئی چیز اور کوئی عمل دعا سے زیادہ عزیز نہیں ( تر مذی، سنن ابن ماجہ)
حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ :دعا مانگنا بعینہ عبادت کرنا ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بطور دلیل قرآن کریم کی سورۂ المؤمن کی آیت نمبر60 کی تلاوت فرمائی:وقال ربّکم ادعونیٓ استجِب لَکم
تر جمہ: اور تمہارے پروردگار نے فرمادیا ہے کہ مجھ سے دعا مانگا کرومیں تمہا ری دعا قبول کروں گا۔(مسند احمد، جامع ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ، النسائی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا دعا عبادت کا مغز اور جوہر ہے۔ (جامع ترمذی)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :کیا میں تمہیں وہ عمل(نہ) بتاؤں جو تمہارے دشمنوں سے تمہارا بچا ؤکرے اور تمہیں بھر پور روزی دلائے ۔ وہ یہ ہے کہ اپنے اللہ سے دعا کیا کرو ،رات میں اور دن میں، کیو نکہ دعا مؤمن کا خاص ہتھیار یعنی اس کی خاص طاقت ہے (بحوالہ معارف الحدیث،مولانا محمد منظور نعمانی ؒ )
کون سی دعانہیں مانگنی چاہیے ؟اور وہ کون سا عمل ہے،جو دعاکوبے اثر کردیتا ہے؟اس سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تماری دعائیں اس وقت تک قابل قبول ہوتی ہیں جب تک کہ جلد بازی سے کام نہ لیا جائے۔ جلد بازی یہ ہے کہ بندہ کہنے لگے کہ میں نے دعا مانگی تھی مگر وہ قبول نہیں ہوئی۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم کبھی اپنے حق میں یا اپنی اولاد اور مال و جائیداد کے حق میں بد دعا نہ کرو ،کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ وقت دعا کی قبولیت کا ہو اور تمہاری وہ دعا اللہ تعالی قبول فرمالے(جس کے نتیجے میں خود تم پر تمہاری اولاد یا مال و جائیداد پر کوئی آفت آجائے)( مسلم شریف)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ تم میں سے کوئی اپنی موت کی تمنانہ کرے،نہ جلدی موت آنے کے لیے اللہ سے دعا کرے۔( مسلم شریف)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ تم لوگ موت کی دعا اور تمنا نہ کرو، اور کوئی آدمی ایسی دعا کے لیے مضطر ہو(اور کسی وجہ سے زندگی اس کے لیے دو بھر ہو)تو اللہ کے حضور میں یوں عرض کرے:اے اللہ! جب تک میرے لیے زندگی بہترہے مجھے زندہ رکھ، اور جب میرے لیے موت بہتر ہو تو دنیا سے مجھے اٹھا لے۔ (سنن نسائی)
دعا کے آداب
فقہائے کرام نے دعا مانگنے کے آداب میں درج ذیل اموربطورِ خاص بیان فرمائے ہیں:
(۱)کھانے، پینے ،پہننے اورکمانے میں حرام سے بچنا۔(۲)دعا مانگنے سے پہلے کوئی نیک کام مثلاً:صدقہ دینا ،یا نماز پڑھنا وغیرہ ،کرنا۔(۳)سختیوں اورمصیبتوں کے وقت خاص طور پر اپنے نیک اعمال کے واسطے دے دعا مانگنا ۔(۴)ناپاکی اورنجاست سے پاک ہونا۔(۴)باوضوہونا۔(۵)قبلہ رخ ہونا۔(۶) دعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرنا،شروع اورآخر میں رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنا۔(۷)دونوں ہاتھ پھیلاکراور اوپر اٹھاکر دعامانگنا۔(۸) عاجزی و انکساری اختیار کرنا۔(۹)گڑگڑانا۔(۱۰)ابنیائے کرام ؑ اوراللہ کے نیک بندوں کے وسیلے سے دعا مانگنا۔
دعا کی قبولیت کے مخصوص اوقات اور مقامات
دعا اللہ اور بندے کے درمیان ایک ایسا مخصو ص تعلق اورمنگتے اور اس کے خالق کے درمیان براہ راست را بطہ ہے، جس میں بندہ اپنے معبود سے اپنے دل کا حال سیدھے سادہ طریقے سے بیان کر دیتا ہے۔ بندہ اپنے پر ور دگا سے دن یا رات کے کسی بھی حصے میں د عا مانگ سکتا ہے، کوئی خاص وقت اس مقصد کے لیے مقرر نہیں ،تاہم احادیث مبارکہ سے دعا کے لیے درج ذیل خاص اوقات ثابت ہیں، ان وقتوں میں دعائیں بہت جلد قبول ہوتی ہیں :
(۱) رات کا آخری حصہ(یعنی پچھلی شب بیدار ہوکر نماز تہجد پڑھنے کے بعد کی دعا۔(۲) جمعہ کے دن میں بھی ایک قبولیت کی ساعت(گھڑی )ہے ، اس میں دعاقبول ہوتی ہے ۔(۳) شب قدرمیں مانگی جانے والی دعا۔() اذان کے وقت کی دعا۔(۴)فرض نمازوں کے بعدکی دعا۔(۵) سجدے کی حالت میں مانگی جانے والی دعا۔(۶)قرآن مجید کی تلاوت اور ختم قرآن کے وقت مانگی جانے والی دعا۔(۷) رمضان شریف کے مہینے میں فطارکے وقت کی دعا۔
اسی طرح دعا کے لیے مخصو ص مقا مات کی بھی کوئی قید نہیں،البتہ احادیث وآثار میں درج ذیل مقامات پر دعا ئیں قبول ہونے کی صراحت ہے:
(۱) بیت اللہ کاطواف کرتے ہوئے۔(۲)مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں(۳)ملتزم،یعنی وہ جگہ جو جو حجرا اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کے درمیان ہے،اس پر چمٹ کردعاکرنا۔(۴) میزاب رحمت کے نیچے ۔(۵) بیت المقدس میں۔(۶) رکن و مقام ابرہیم کے درمیان۔(۷) صفا و مروہ پر ۔(۸) مقامِ ابراہیم کے پیچھے۔(۹)اس جگہ، جہاں سعی کی جاتی ہے۔(۱۰) عرفات میں۔(۱۱)زمزم کا پانی پیتے وقت۔(۱۲)مشعرِحرام مزدلفہ میں۔(۱۳) رکنِ یمانی اور حجرِا سود کے درمیان۔(۱۴) جمر�ۂصغریٰ اور جمرۂ وسطیٰ کے پاس کنکریاں مارنے کے بعد۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اِن آداب کی رعایت کرتے ہوئے،قبولیتِ دعا کے کامل یقین کے ساتھ،خوب دعائیں مانگنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!

حصہ
mm
مولانا محمد جہا ن یعقوب جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے سینئر ریسرچ اسکالرہیں اور مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں