“زن مرید”، ڈرامے کا نام سنتے ہی ذہن میں جو پہلا خیال آیا وہ ایک معصوم سے کاٹھ کے الو قسم کے شوہر کا تھا جو اپنی بیوی کے اشاروں پہ ناچتا ہو گا، لیکن یہاں تو کہانی ہی کچھ اور نکلی،جی ہاں ہم ٹی وی سے نشر ہونے والا ڈرامہ زن مرید، جس کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو پہلا تبصرہ ہوگا ،کمزور کہانی اور دوسرا تبصرہ ہوگا کمزور ہدایتکاری، سچ تو یہ ہے کہ اس کھیل کو دیکھ کے مشہور زمانہ مصرعہ یاد آجاتا ہے ”آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا”،قصہ کچھ یوں ہے کہ تبسم ایک ورکنگ وومن ہے، جو اپنے شوہر سجاد دو عدد بچوں اور ایک عدد گونگی اور کسی حد تک معذور ساس کے ساتھ خوش باش زندگی گزار رہی ہے، سیریل کی ابتدا ء میں میاں بیوی کے خوبصورت تعلقات دکھائے جاتے ہیں، سجاد تبسم پر جان چھڑکتا ہے، اس کے ساتھ برتن دھوتا بھی دکھایا جاتا ہے اور اس کی دفتر آنے جانے کی تکلیف کا لحاظ کرتے ہوئے اس کے لیئے ایک عدد علیحدہ گاڑی بھی خریدتا ہے، کسی ایک منظر سے بھی یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ ایک غصے کا تیز شخص ہے جس کی فطرت میں ہی جذبات کا بے قابو ہو جانا شامل ہے۔
کہانی بالآخر کہانی میں ڈھلتی ہے اور ایک گھریلو تقریب میں جب سجاد اپنے سالے کی بیوی کی باتوں پہ کچھ چڑا ہوا ہوتا ہے ،مذاق مذاق میں سب کے سامنے کہتا ہے ” میری بیوی اتنی اچھی ہے کہ دل چاہتا ہے اس جیسی دو ہوں” اب یہ جملہ جس کو مشرقی بیویاں اپنی تعریف سمجھ کر خوش ہوتی ہیں ، یا کم سے کم مسکرا کر ٹال ہی دیتی ہیں ۔تبسم کو اتنا زیادہ چبھتا ہے کہ وہ جوابا اسی بھری محفل میں اپنے شوہر کو جس جملے سے نوازتی ہے وہ کچھ یوں ہے”سجاد بھی اتنے اچھے شوہر ہیں کہ جی چاہتا ہے ایسے ایک اور ہوں ” اس بے باکانہ اور بے ہودہ جواب پر سجاد سمیت ساری محفل کو سانپ سونگھ جاتا ہے، جس کو مصنف اور ہدایتکار نے تبسم کے حق میں ناظر کی ہمدردیاں اکھٹی کرنے کے لیئے استعمال کیا ہے ۔ بس جناب یہ ہے بنیاد اس سارے ڈرامے کی، مہمانوں کے جانے کے بعد اس جملے کی تلخی اپنا اثر دکھاتی ہے اور سجاد کی تلخ کلامی ایک زبردست دھکے میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے تبسم کی پیشانی پہ چوٹ آجاتی ہےاور خون بہنے لگتا ہے، اس لمحے تبسم کو خواتین کے تحفظ کے سلسلے میں بنائے جانے والے اس ”نئے قانون” کا خیال آتا ہے جس کا چرچا ان دنوں میڈیا پہ ہوتا ہے۔ (ویسے یہ سطور رقم کرتے ہوئے راقم کو یہ خیال آ رہا ہے کہ اس ڈرامے کا نام تو ”نیا قانون” ہی بنتا تھا ( اب تبسم صاحبہ اپنی ازدواجی زندگی کے تمام خوبصورت ایام کو بھلاتے ہوئے تھانے فون کرتی ہیں اور ہماری مستعد پولیس فوراً ان کے گھر پہنچ کر سجاد کو گرفتار کر لیتی ہے۔یہ علیحدہ بات کہ اس وقت تک اس قانون کی مکمل تشریحات بھی نہیں ہوئی ہوتیں اور اطلاق کے مراحل پورے نہیں ہوئے ہوتے، تبسم اپنے بھائی کے گھر چلی جاتی ہےجہاں اس کے بچوں کو بھی بعد میں بھیج دیا جاتا ہے، اب تبسم کے بھائی ،بھابھی مصالحت کی کوششیں کرتے ہیں جو کہ حقیقت میں تو عین شرعی احکام کے مطابق ہے، لیکن اس کوشش کو بھی انتہائی برا بنا کر دکھایا جاتا ہے یعنی کہ منفی کرداروں کی منفی حرکتوں میں سے ایک حرکت مصالحت کی کوشش دکھائی جاتی ہے۔تیرہ اقساط تک ماتھے کی پٹی قائم و دائم رہتی ہے جس پہ ناظرین کی طرف سے کیے گئے اچھے خاصے احتجاج کے بعد چودھویں قسط میں اسے سنی پلاسٹ میں تبدیل کر دیا جاتا ہے،بھولے ناظرین کیا جانیں کہ ایک یہی پٹی تو سارے ڈرامے کی بنیاد ہے، کیونکہ اس پٹی اور ایک تلخ کلامی کے چھوٹے سے منظر کے علاوہ کوئی دوسری وجہ ڈرامے میں دکھائی ہی نہیں جا سکی جس کی بنیاد پر ناظرین سجاد کو درندہ ماننے پہ تیار ہو جائیں، تبسم نے دل میں عہد باندھ لیا ہوتا ہے کہ وہ گھریلو تشدد کے خلاف اٹھائی گئی آواز کو ہر گز نہ دبائے گی بلکہ ان خاموش خواتین کی آواز بھی بنے گی جو دن رات اس کا نشانہ بنتی ہیں، ان میں سے ایک کا مظاہرہ وہ سڑک پہ دیکھ چکی ہوتی ہے جہاں ایک آدمی اپنی بیوی کو سر عام مار پیٹ کر کے رکشے میں بٹھا کے میکے بھیج دیتا ہے، اس منظر کی بنیاد پہ سوشل میڈیا پہ ایک سروے کیا گیا جس کا مقصد یہ جواب حاصل کرنا تھا کہ کتنے فیصد افراد ہیں جنہوں نے زندگی میں ایک یا ایک سے زیادہ مرتبہ سڑک پہ عورت کو شوہر سے پٹتے دیکھا ہے ، اس سروے کا اسکرین شاٹ تحریر کے ساتھ منسلک ہے، جس کے نتائج کے مطابق 11 فیصد افراد نے ایک یا ایک سے زائد مرتبہ اور 89 فیصد افراد نے کبھی نہیں دیکھا ، صاف ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے کے منفی پہلوئوں کو بڑھا چڑھا کر معمول کے واقعات کی طرح دکھانے کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں تھا، بہرحال اب تبسم ایک کو چومکھی جنگ لڑ نی پڑتی ہے، جہاں اس کو معاشرہ، گھر والے، دفتر والے ،ہر ایک لعن طعن کرتا ہے کہ وہ یہ کیا حرکت کر بیٹھی ہے کہ شوہر اس کی وجہ سے تھانے کی سیر کر آیا ہے۔دوسری طرف ساس اور نند بھی اپنا روایتی کردار ادا کرتی ہیں اور وہ معذور ساس جو ابتدائی اقساط میں اپنے ہاتھ ہلا کر کھانا بھی نہیں کھا سکتی تھیں اب سلیٹ پہ لکھ لکھ کر بیٹے اور بیٹی کو بہو کے خلاف بھڑکا نے کے فرائض سرانجام دیتی ہیں، فی الحال کہانی یہاں تک پہنچی ہے کہ ”معاشرتی دباؤ” کا شکار ہو کر تبسم پرچہ واپس لیتی ہے اور اس کے بعد سجاد بچوں کو تو بخوشی اپنے پاس رکھ لیتا ہے جب کہ تبسم کو گھر کے دروازے سے ہی واپس لوٹا دیتا ہے ۔
اب آئیے ذرا دوسری تفصیلات کی جانب حیرت اس وقت ہوئی جب اتنی کمزور کہانی کے مصنف کے طور پر ”آ منہ مفتی ” صاحبہ کا نام سامنے آیا، اگر یہ وہی آمنہ مفتی ہیں جن کو میں پہلے بھی پڑھ چکی ہوں تو حیرت ہے کہ الفاظ تو ان کے قلم سے موتیوں کی طرح بکھرے پڑے دیکھے گئے ہیں، جب کہ اس ڈرامے میں جگہ جگہ مختلف مکالموں اور مخصوص الفاظ کو جیسے زبردستی شامل کیا گیا ہو، خاص طور سے ”موم بتی مافیا” کا جس طرح زبردستی دفاع کیا گیا ہے وہ حقیقتاً مضحکہ خیز ہے۔
قصہ مختصریہ کہ یہ ڈرامہ جن مقاصد کے حصول کے لیئے بنایا گیا ہے دراصل ان کے حصول میں بھی قطعی ناکام ہے، ہدایتکاری اور تحریر کی کئی خامیوں کے ساتھ یہ ڈرامہ ناظرین کی الجھن کو بڑھانے کے علاوہ اور کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکا ۔
رہ گئے عائلی معاملات ،تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام کے لیے اللہ کی رہنمائی سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے، اور کتاب اللہ میں صاف صاف درج ہے .
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّـهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا ﴿٣٥﴾
اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے.
سورۃ النساء آیت 35