اب ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو صرف ’قدس‘ کا’ یوم‘ منالینا ہی کافی نہیں ۔وہ اڑتیس سال قبل امام خمینی ؒ کی ،سوئے ہوؤں کو بیدار کرنے کے لیے شروع کی گئی،وقتی حکمت عملی (اسٹریٹجی) تھی۔آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتام پر جب پانچ بڑے عرب مسلم ممالک اپنے دیگر ہم نوا ؤں کے ساتھ حماس ،اخوان ا لمسلمون اور حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دے کر مغضوب علیہم بنی اسرائل کے لے پالک بن چکے ہیں،اور غزہ سمیت اہل فلسطین پر انسانیت سوز مظالم کی ساری حدیں پار کی جا چکی ہیں ۔۔ضرورت اس بات کی ہے کہ بقیہ مسلم ملکوں (ایران ترکی اور انڈونیشیا وغیرہ) کا اتحاد، اللہ سبحانہ پر کامل بھروسے کے ساتھ، وقت کے تمام ظالموں فرعونوں قارونوں اور یزیدوں کے خلاف ،عملاًصف آرا ہو جائے !
بقول مصطفیٰ محمد طحان ’’مسلہء فلسطین صرف فلسطینی عوام کا مسئلہ نہیں یہ تمام عربوں اور تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور فلسطین کو آزاد کرنا ہر مسلم مرد اور عورت کا دینی فریضہ ہے ۔فلسطین کی آزادی و خود مختاری کا واحد راستہ جہاد فی سبیل ا للہ اور اس کی تمام (ممکنہ عملی )صورتیں ہیں (۱)
فلسطین کے خلاف ’’سازش کا بیج (صہیونی)مغرب نے ۱۹۰۵ کی لندن کانفرنس میں بویا تھا جس کا مقصد اس علاقے میں انتشار پیدا کرنا اور پورے علاقے کو ایک کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ میں جھونک دینا تھا تاکہ سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے عربوں کی کمر ٹوٹ جائے (۲)۔
اس سے قبل ۱۸۹۴ میں تھیو ڈر ہرزل نے ’’الدولۃ ا لیہودیۃ ‘‘کتاب لکھ کرصہیونی تحریک کی بنا رکھی اور حکومت برطانیہ کے خفیہ عملی و تزویری تعاون سے ۱۸۹۷ سے ۱۹۱۷ تک لگاتار یورپ کے مختلف بڑے شہروں اسرائل کے قیام کی منصوبہ بندی کے لیے عالمی صہیونی چوٹی کانفرنسیں منعقد کیں جن میں برطانیہ ،جرمنی ،فرانس اور سوئزر لینڈوغیرہ کے سربراہان ِحکومت اور دنیا کے سبھی بڑے صہیونی تاجر شرکت کرتے رہے جس کا اختتام با لآخر بدنام زمانہ ’ معاہدہ ءسائکس پیکو۱۹۱۶ ‘اور پھر بالفور اعلانیہ(Balfour Declaration) ۱۹۱۷‘ پر ہوا ۔
سائکس پیکو معاہدہ (Sykes .Picot Agreement)خلافت عثمانیہ میں شامل مسلم ممالک کی یورپی ملکوں میں بندر بانٹ اور بالفور ڈکلیریشن فلسطین میں صہیونی مملکت اسرائل کے قیام کا باضابطہ اعلان تھا ! اور بد قسمتی یہ ہے کہ شریف مکہ ’حسین ابن علی الہاشمی ‘ خلافت عثمانیہ کے خاتمے ،ترک سلطنت کے حصے بخرے اور ناجائز و غاصب صہیونی مملکت اسرائل کے قیام کی سازوں اور منصوبہ بندی میں شروع سے آخر شریک رہا ۔ جمل و صفین و کربلا ، سقوط بغداد ،سقوط ہسپانیہ اور سقوط خلافت عثمانیہ کی طرح امت مسلمہ عالمیاں کا یہ بھی ایک سیاہ باب ہے ۔
محمد مصطفے ٰ طحان نے اپنی دوسری اہم کتاب ’ بیت ا لمقدس ایک تہذیبی کشمکش‘ (۲۰۰۴)میں لکھا ہے کہ تھیو ڈر ہرزل (Theodor Herzl)کی صہیونی تحریک کے نمایاں نکات یہ تھے (جن میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے ) :عثمانی مملکت کے علاقے میں یہودی بستیاں بسائیی جائیں ۔فلسطین کے ایک حصے میں اسرائلی مملکت کا قیام عمل میں آئے ۔پورے فلسطین پر یہودیوں کا تسلط ہو ۔اور ،بالآخر ایک ایسی عظیم اسرائیلی مملکت کا قیام عمل میں جو پورے مشرق وسطیٰ پر محیط ہو‘‘(۳)( جس کی سرحدوں میں دریائے فرات و دریائے نیل دونوں شامل ہوں)
خیال رہے کہ مصطفےٰطحان کی یہ تحریریں جنگ لبنان و غزہ اور محاصرہ غزہ (۲۰۰۷) سے قبل (۱۹۹۶۔اور ۲۰۰۴ ) کی ہیں ۔ یوں تو رام اللہ ،الخلیل ،جریکو ،اریحا اور مغربی کنارہ کہیں کوئی فلسطینی اسرائیلی مظالم سے محفوظ نہیں لیکن غزہ دنیا کا سب سے بڑا کھلا قید خانہ (جیل) ہے جہاں بارہ لاکھ کی آبادی ،گیارہ طویل برسوں سے ، ناقابل تصور مصائب اور مظالم کا شکار ہے ۔امت مسلمہ غزہ کے ٹسٹ کیس ،غزہ کے امتحان میں ناکام ہو گئی ہے ۔اگر مسلم امہ نے غزہ اور اہل غزہ کا حق ادا کیا ہوتا تو عراق و لیبیا اور یمن و سیریا بھی تباہ نہ ہوتے !
لیکن مصطفےٰ طحان کی دوسری کتاب کے اِن آخری سطور پر ہمارا بھی ایمان ہے کہ ’’اسرائل اپنے تمام تر جنگی سازو سامان اور تربیت یافتہ فوج کے باوجود خوف کی نفسیات میں مبتلا ہے ۔اسے دوسروں سے کہیں زیادہ اس بات کا علم ہے کہ ایک نہ ایک دن اس کا زوال یقینی ہے ۔ تاریخی ،جغرافیائی ،مذہبی اور تہذیبی ہر اعتبار سے یہ ناممکن ہے کہ کسی جسم کے اندر کسی ایسے عضو کو پلانٹ کر دیا جائے جسے قبول کرنے کے لیے وہ جسم تیار ہی نہ ہو ،خواہ غاصب اور مفاد پرست طاقتیں اس بات کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لیں (فلسطین اور غزہ نے یہ ثابت کر دیا ہے )۔بلا شبہ لڑائی ابھی جاری ہے اور اس جنگ میں باطل کو یقینی طور پر شکست ہوگی اور حق سرفراز و کامیاب ہوگا ۔ سرکش طاقتوں کے ساتھ یہی ہماری تہذیبی کشمکش کی داستان ہے‘‘ (۴)
حوالے : (۱)فلسطین سازشوں کے نرغے میں ۔مصطفےٰ طحّان ہلال پبلی کیشنز علی گڑھ ۱۹۹۶ص۴۴۶
(۲)ور (۳)بیت المقدس ایک تہذیبی کشمکش ۔مصطفےٰ طحان ۔ھلال پبلی کیشنز دہلی ۲۰۰۴ص۲۲۵
(۴)ایضاً ص ۲۲۶