مغرب کے لوگ دیتے ہیں جمہوریت پہ جان اُن کی نظر میں ووٹ ہے طاقت عوام کی
اِسلام میں ہے حاکم ِ اعلیٰ خدا کی ذات بنیاد ہے اِسی پہ وفا کے نظام کی
جبکہ ستر سال سے سرزمینِ پاکستان میں مُلک اور قوم سے بے وفا، عیار و مکار، لالچی اور قومی خزا نے کو لوٹ کھا نے اور آف شور کمپنیوں و اقامے والے مٹھی بھر اشرافیہ کا طبقہ اپنی مرضی کے کسی اور نظام حکومت پر چل رہا ہے آج جس نے نہ تو جمہور اور جمہوری ثمرات عوام تک پہنچائے ہیں اور نہ وطن عزیز میں اسلامی نظام حکومت کو ہی پوری طرح رائج کیا ہے۔
تاہم ہمارے طبقہ اشرافیہ نے تو جمہوری ثمرات عوام تک پہنچا نے کے بجائے اُلٹااِنہیں اپنی ذات اور اپنے دامن تک ہی محدود رکھاہواہے ۔جہاں تک پاکستان میں اسلامی نظامِ حکومت کا سوال ہے تو معاف کیجئے گا پاکستانی اشرافیہ کی نظر میں مُلک میں اسلامی نظامِ حکومت تو بس عیدین کی نمازوں کے اجتماعات اور عیدمیلاد البنی ﷺ اور یوم عاشورہ کے جلسے اور جلوسوں کی آزادی تک ہے ۔ہمارا اشرافیہ اِسی کو ہی اسلامی نظامِ حکومت گردانتا ہے اور سمجھتاہے کہ بس یہی تو اسلامی نظامِ حکومت ہے۔ اِس کے علاوہ توکہیں بھی ایسا کچھ دِکھا ئی نہیں دیتاہے کہ یقیناًکے ساتھ یہ کہا جاسکے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے مملکتِ پاکستا ن میں پورا کا پورا اسلامی نظامِ حکومت قا ئم ہے۔یہ کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے کہ لگ بھگ پون صدی سے وطن عزیز پاکستا ن میں کیسا دونظامِ حکومت جمہوری اور اسلامی نظام چل رہاہے؟آج جس کا فائدہ امریکی پٹھو اشرافیہ کو ہی ہورہاہے تب ہی ماضی وحال کے باری لگا کر اقتدار حاصل کرنے والے امریکی عیارومکار ا ور اغیار کے پٹھوسیاست دانوں کی چوری اور سینہ زوری بے لگام ہے ۔ جنہوں نے مُلک میں لوٹ مار کی حد کردی ہے ۔
آج اپنے سیاست دانوں کی ضد اور ہٹ دھرمی سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مُلک اور قوم کی جمہوراور جمہوریت کی آڑ میں عوامی خدمات کے بہانے اپنی خدمات کرانے اور میگاپروجیکٹس پرپرسنٹیج اورکمیشن بنا نے والوں نے اقتدار کی کُرسی سے چمٹے رہنے کی قسم کھا لی ہے، اِسی لئے اپنے ذاتی اور سیاسی عزائم کی تکمیل کے لئے یہ جو چا ہئیں کرلیں،مگر کو ئی اِن سے کچھ نہ پوچھے ، جو اِنہیں پوچھے ، وہی جمہور اور جمہوریت کا بڑا دُشمن اور نادیدہ قوتوں و خلا ئی مخلوق کا آلہ کار ہے۔
افسوس کی بات یہاں یہ ہے کہ جو کل تک الیکشن فارم میں ترمیم کرکے متوقع الیکشن2018 ء میں ایوانوں کو کرپٹ عناصر سے پاک رکھنے کے عزم پر قا ئم تھے آج ایک مرتبہ پھر مُلک میں ظاہر اور با طن بڑے چھوٹے کرپٹ سیاستدان اپنی کرپشن چھپانے کے لئے پھر اپنی ہی ترمیم پر پچھتاتے ہوئے باہم متحد و منظم ہیں اور ایک پیج پرنظرآرہے ہیں ۔تاکہ اگلے متوقع الیکشن میں مختلف اقسام کے کرپٹ عناصر حصہ لے سکیں اور پانچ سال کے لئے مُلک کی باگ ڈورسنبھالیں۔
آج اِن کے اِس فعلِ شنیع سے یہی انداز ہورہاہے کہ جیسے کوئی نہیں چاہتاہے کہ اگلے متوقع الیکشن میں صاف سُتھرے لوگ ایوانوں میں جا ئیں اور صادق و امین صدر اور وزیراعظم کے زیرے سائے ایماندار اور مخلص وزراء کی حکومت تشکیل پائے اور ارضِ مقدس کو کرپٹ عناصر سے پاک قیاد ت ملے جو مُلک اور معاشرے کو قرآن و سُنت کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کے اصولوں اور ضابطوں کے مطابق صاف سُتھرے انداز سے چلا ئیں اور مُلک آگے لے کر جا ئیں۔بہر کیف ، گزشتہ دِنوں اللہ اللہ کرکے قومی خزا نے سے لوٹ مار کرکے مُلک کی چولیں ڈھیلی کرنے اور قوم کا خون اور پسینہ چوسنے والوں سے جیسے ہی کچھ مدت کے لئے جان چھوٹی توالیکشن کمیشن نے ارضِ مقدس میں 25جولائی 2018ء کو مُلکی تاریخ کے اپنی نوعیت کے منفرد اور مہنگے ترین انتخابات کرانے کا اعلان کردیایقیناًمقررہ تاریخ کو ہی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔
غرضیکہ، مُلک بھر کے سیاسی حلقوں کے بال رومز میں’’الیکشن کاتہوار آگیاہے آؤ قوم کی آنکھ میں دھول جھونکیں‘‘ اور ووٹ کو عزت دو کے نام پراپنی ’ ’ موج مستی کا سا مان کریں‘‘ کا ڈنکا بچ گیاہے، یعنی کہ سیاسی جماعتوں کے مراکز میں الیکشن کی تاریخ کے آتے ہی خوشی سے رَت جگے ہو رہے ہیں ، بھنگڑے اور دھمال ڈالے جارہے ہیں اور اِس کے ساتھ ہی اُمیدوارانِ الیکشن سے کبھی تیز توکبھی دھیمی آواز وں میںیہ بازگشت بھی سُنی جا رہی ہے کہ بس صرف ’’ایک بار الیکشن میں پانچ سال کے لئے انویسمنٹ سرمایہ کاری کرو پھرپچاس سال بیٹھ کر کھاؤ‘‘ یہ وہ الفاظ اور جملے ہیں جن کی بنیاد پر سیاسی حلقے اور الیکشن میں حصے لینے والے خود کو وارم اَپ کئے ہوئے ہیں،آج اِسی لئے یہ لوگ الیکشن کو تہوارکے طور پر دھوم دھام سے منانے کی تیاریوں میں مگن ہیں۔ ایسے ہی کسی الیکشن کے موقع پر شاعر نے عرض کیا تھا ابھی مجھے اُس شاعر کے یہ اشعار یاد آگئے ہیں۔
کہہ رہا تھا اپنے ہر ووٹر سے ایک اُمیدوار مجھ سے اُجرت لیجئے گا میری ہستی دیکھ کر
میں کسی مل کا نہ مالک ہوں نہ ہوں جاگیردار بندہ پَر ووٹ دینا میری کُرسی دیکھ کر
اورمزید یہ کہ:۔
الیکشن نام ہے جس کا وہ خدمت ہے عبادت ہے ہمارا ووٹ کیا ہے مُلک و ملت کی امانت ہے
مگر جب جائزہ اِس کا لیا تو یہ ہوا ثابت الیکشن قوم کی خدمت نہیں ہے اِک تجارت ہے
اَب ایسے میں پاکستا نی قوم اور عوام کو بھی سوچنا اور سمجھنا ہوگا کہ آج اِنہیں اپنی کیسی قیادت چاہئے؟قوم کو آئندہ 5سال کے لئے ماضی کی طرح پھرکرپٹ حکمران مطلوب ہیں؟ یا کرپشن سے پاک حکمران چاہئیں؟اگر پاکستان کے عوام سمجھتے ہیں کہ اِنہیں اپنی نسل کو تبدیلی کے ساتھ کرپٹ عناصر سے پاک نیا پاکستان دینا ہے تو پھر اپنے ووٹ کی طاقت کو سوچ سمجھ کر استعمال کریں اور اچھی قیادت لا ئیں ورنہ؟