دماغ کی بیماریاں اور روزے

دماغ جسم کے تمام افعال کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ نہ صرف دل کی دھڑکن اور سانسوں کی حرکت کو مانیٹر کرتا ہے بلکہ آنکھوں کی حرکت، کانوں کا سننا، ہاتھ پیروں کی حرکت، چلنا پھرنا، یہ سب ہمارے دماغ کے تابع ہے۔ روزے اور دماغ کے درمیان کیا تعلق ہے، اس بارے میں ایک مشہور بات کہی جاتی ہے کہ روزہ دراصل دماغ کے خلیوں کی ورزش ہے۔ وجہ یہ ہے کہ روزے کے نتیجے میں دماغ کے اندر جو تبدیلیاں آتی ہیں وہ بڑی غیر معمولی ہوتی ہیں۔
دماغ کا پورا عمل بہت سے کیمیکلز کی بنیاد پر چل رہا ہوتا ہے، ان کو نیورو ٹرانسمیٹرز کہتے ہیں، روزے کے نتیجے میں ان نیورو ٹرانسمیٹرز کی سطح میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، اور دماغ پر اس کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان کا اَثر پورے جسم پر آتا ہے۔ اس سے انسان کا صرف ذہن و خیالات ہی نہیں تبدیل ہوتے بلکہ پوری جسمانی صحت بھی اس کے نتیجے میں بہتر ہو جاتی ہے۔ یہ بات ایک طویل عرصے سے ان سائنسدانوں کے لیے جو بالخصوص عمر بڑھنے (Aging) کے موضوع پر تحقیق کر رہے ہیں، بڑی دلچسپی اور تحقیق کا مرکز رہی ہے۔
سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں معلوم ہونے والی ایک بہت واضح چیز یہ ہے کہ روزہ دماغ کے اندر آٹو فیجی (autophagy) کا عمل تبدیل کر دیتا ہے، اور دماغ کے اندر تخلیق نو کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ دماغ کے اندر موجود فاضل مادوں (waste products) کو ختم کرنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دماغ کے اندر کئی طرح کے نیورو ٹرانسمیٹرز کا اخراج بڑھ جاتا ہے۔ ان میں ایک اہم مشہور نیورو ٹرانسمیٹر Brain derived neurotropic factor کہلاتا ہے۔ اس فیکٹر کا تعلق دماغ کی صلاحیت بڑھانے، موڈ کو تبدیل کرنے اور دماغ کے اندر نئی تخلیق کا عمل بہتر بنانے سے ہوتا ہے۔ اس فیکٹر کی سطح بڑھنے سے دماغ کے اندر نئی تخلیق کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے انحطاطی بیماریوں، یعنی جن بیمارویوں میں دماغ کے خلیے خود بخود کم ہوتے جاتے ہیں، ان میں کافی فرق واقع ہوتا ہے۔
روزے میں انسانی جسم ذخیرہ کردہ چربی کو استعمال کرتا ہے۔ یہ کیٹو جنیسز کا عمل کہلاتا ہے اور یہ کیٹو جینک ڈائٹ ہوتی ہے جو انسان کے جسم میں کیٹونز کو بڑھا رہی ہوتی ہے۔ یہ کیٹونز دماغ کے اندر نیورو پروٹیکٹو کا کام کرتے ہیں یعنی دماغ کو مختلف چوٹوں سے بچاتے ہیں۔ اس موضوع پر بڑی تحقیق ہو رہی ہے کہ روزے کے نتیجے میں یہ کس طرح دماغ کو مختلف طرح کے ضرر اور نقصان سے بچا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے نمایاں ریسرچ امریکہ کے مشہور ’انسٹی ٹیوٹ آف ایجنگ(Aging)، میں ہو رہی ہے جہاں مشہور سائنس داں مارک میٹسن نے اس پر بڑی تحقیق کی ہے۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ اپنی غذا میں روزانہ ۵۰۰ کیلوریز کم کر دیں تو نہ صرف عمر میں اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ حافظے کی کمزوری میں بھی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ساتھ ساتھ رعشہ اور دیگر بیماریوں میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ چنانچہ روزے کا عمل ایک محدود پیمانے پر انسانی دماغ کو عمر بڑھنے (aging) کے اثرات سے بچاتا ہے۔
دماغ کی دوسری خطرناک ترین بیماری جو دُنیا میں معذوری کا سبب بنتی ہے فالج ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان معذور ہو جاتا ہے۔ جب دماغ کے اندر خون کی نالیوں میں خون کی پھٹکیاں (Clot) رکاوٹ ڈال کر ان نالیوں کو بلاک کر دیتی ہیں تو فالج واقع ہوتا ہے۔ یہ زیادہ تر ان لوگوں کو ہوتا ہے جن کو ہائی بلڈ پریشر، شوگر، اور بلند کولیسٹرول ہوتا ہے یا وہ جو سگریٹ وغیرہ پیتے ہیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں کو یہ پر خطر عوامل ہوتے بھی ہیں رمضان میں ان میں فالج کی شرح کم ہو جاتی ہے۔
روزہ فالج سے بچاؤ کا بھی ایک ذیعہ ہے۔ روزے میں سگریٹ نوش افراد اپنی سگریٹ کم کر دیتے ہیں۔ پان، تمباکو، گٹکے کا استعمال بھی کم ہو جاتا ہے، ان لوگوں کا کولیسٹرول بھی کم ہوجاتا ہے، بلڈ پریشر میں کمی آ جاتی ہے، شوگر کی سطح کم ہو جاتی ہے، ان سارے پُرخطر عوامل (رسک فیکٹرز) کے کنٹرول ہونے سے فالج کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ ایک بات اور بھی دیکھنے میںآئی ہے کہ روزہ رکھنے والوں پر فالج کا حملہ ہو تو ان کے دماغ میں Cytokine کا لیول اورBDNF کے لیولز بلند ہوتے ہیں چنانچہ اس کے نتیجے میں دماغ کا نقصان اور معذوری کم ہوتی ہے، اور وہ زیادہ جلد چلنے پھرنے اور کام کاج کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
الزائمر (Alzheimer’s) کی بیماری میں یادداشت کمزور ہو جاتی ہے، روزہ رکھنے سے اس بیماری میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ مارک میٹسن اور دیگر ماہرین نے اپنی تحقیق میں ثابت کیا ہے کہ روزے رکھنے والوں کو یادداشت کمزور ہونے کی یہ بیماری دیر سے ہوتی ہے، اس کی شدت بھی کم ہوتی ہے۔ اسی طرح دیگر ’نیورو ڈی جنریٹو، بیماریوں کے بارے میں بھی سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ نہ صرف دماغ کو ان بیماریوں سے بچاتا ہے بلکہ اس عمل کو سست کر دیتا ہے۔
ایک اور بیماری جس پر میڈیکل سائنس نے بہت تحقیق کی ہے، مرگی ہے۔ مرگی ایک عام بیماری ہے، پاکستان میں اس کے مریض بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ مردوں، عورتوں، بچوں سمیت ہر طرح کے لوگوں میں مرگی کی بیماری ہوتی ہے۔سائنسی تحقیق سے ثابت ہے کہ اگر مرگی کے مریضوں میں غذا کو کنٹرول کر لیا جائے، غذا میں چربی کے عناصر کو بڑھا دیا جائے اور کاربوہائڈریٹ کو کم کر دیا جائے تو (اس غذا کو کیٹوجینک ڈائٹ کہتے ہیں)، اس سے مرگی میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور جھٹکے کنٹرول میں آ جاتے ہیں۔ امریکہ میں مرگی کے مریضوں کا ایک بہت ہی عام طریقۂ علاج ہے۔ جن مریضوں کے دورے دواؤں کے استعمال اور انجکشن کے باوجود کنٹرول میں نہیں آتے ان کو کیٹوجینک ڈائٹ پر رکھا جاتا ہے، ایک طرح سے انھیں بھوکا رکھا جاتا ہے، ان کی غذا کے اجزا کو تبدیل کر دیا جاتا ہے، کاربوہائڈریٹ کو روک دیا جاتاہے، اس کیٹوجینک ڈائٹ کے نتیجے میں ان کے دورے قابو میں آ جاتے ہیں۔
بچوں میں ہونے والی مرگی میں بھی یہ ڈائٹ بہت مفید ہے۔ مرگی کے مریض بہت سے بچے ایسے ہوتے ہیں جن کا مرض بہت سی دوائیں لینے کے باوجود کنٹرول میں نہیں آ رہا ہوتا اور دواؤں کے ذیلی اثرات (سائڈ افیکٹس) بھی ہو رہے ہوتے ہیں۔ ان مریضوں میں بھی کیٹوجینک ڈائٹ شروع کراتے ہیں۔ روزے کی وجہ سے مرگی کے مرض کی شدت کم ہو جاتی ہے، تاہم اس کے مریضوں کو رمضان میں دوائیں نہیں چھوڑنی چاہئیں، یہ نہ سمجھا جائے کہ صرف روزے ہی مرگی کو کنٹرول کر لیں گے۔ دواؤں کے ساتھ روزے مرگی کو بہتر طریقے سے کنٹرول کرتے ہیں۔
ایک اور بیماری ہنٹنگٹن (Huntington) کی بیماری کہلاتی ہے، یہ ایک جینیاتی بیماری ہے جس میں دماغ کے نیورونز آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور مرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس میں بھی تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ ’فاسٹنگ تھراپی، اس بیماری کی شدت کو کم کرتی ہے، مرض کی علامات کو بہتر کرتی ہے اور ان بیماریوں کنٹرول بہتر ہو جاتا ہے۔
عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ حافظے کی کمزوری اور دماغی صلاحیت میں کمی فطری ہے۔ سائنسی تحقیقات نے یہ بات بھی ثابت کی ہے کہ روزے عمر بڑھنے کی وجہ سے حافظے کی کمزوری کے عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مسلسل یا وقفے کے ساتھ روزے رکھنے سے دماغ کی صلاحیت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دماغ جسم کی تمام حرکات کوکنٹرول کرتا ہے، دماغ کے اندر بہت سی بیماریاں ہوتی ہیں جو انسان کو معذور کر دیتی ہیں، بعض اوقات حافظے کو کمزور کر دیتی ہیں، روزہ رکھنے سے نہ صرف دماغی صلاحیت بہتر ہوتی ہے، دماغ کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے بلکہ دماغ کی مخصوص بیماریوں بالخصوص مرگی، فالج، نسیان اور دیگر بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ پر پڑنے والے اثرات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔

حصہ
mm
پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر ملک کے معروف نیورولوجسٹ ہیں جو آغا خان ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔صحت کے حوالے ملکی و بین الاقوامی جرائد میں ان کے تحقیقی مقالے شایع ہوتے رہتے ہیں

جواب چھوڑ دیں