ابتدائے افرینش سے یہ بات انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ خود کو کسی چیز پر قانع نہیں پاتا اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں لگاتار سرگرداں و پریشاں رہتا ہے۔دنیا کی تمام ترقی او رارتقاء میں اسی کلیے کو اساسی اہمیت حاصل رہی ہے۔ آدمی نے جس چشمے سے پانی پی کر اپنی علمی تشنگی کو دور کیا اور جس تعلیمی ادارے نے اس کے مستقبل کو روشن اور تابناک بنایا انھیں اداروں کو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کمتر پانا اور اس اسکول میں اپنے بچوں کو داخل کرنے سے احتراز میں بھی انسان کے اسی خوب سے خوب ترکی تلاش کا نظریہ کارفرما نظرآتا ہے۔خوب سے خوب تر کی تلاش یقیناًانسان کے لئے بہتر ہے لیکن میسر معیار کو کمتر سمجھ کر اپنی ذات کو ہلاکت میں ڈال کر اونچے معیار کے حصول کے لئے دنیا بھر کی مشقتوں اور پریشانیوں کو اپنا ہم جلیس بنالینا عقل سے بعید فعل نظر آتا ہے۔کسی بھی شئے کے انتخاب سے قبل انسان کو اپنے معیار اور قوت خرید کا بھی بخوبی اندازہ ہونا چاہئے۔انسان اگر اپنے معیارات کے تعین اور مقاصد میں شفافیت نہ رکھ پائے تب اسے اپنے فیصلوں پر کف افسوس ملنا پڑتا ہے۔معیار و ترجیحات کے تعین کے وقت ہر شخص کو اپنی معاشی حالت کو بھی پیش نظر رکھناضروری ہے تاکہ وہ مستقبل کی پریشانیوں سے خود کو محفوظ رکھ سکے۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ زندگی کے تمام شعبہ جات کی راہ گزر تعلیمی اداروں سے ہوکر ہی گزرتی ہے ۔اسی لئے والدین کو اپنی اولاد کی بہتر تعلیم کے لئے مناسب اور عمدہ تعلیمی اداروں کے انتخاب میں غایت درجہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔آج کے تاجرانہ ماحول میں تعلیمی اداروں کی جانچ و پرکھ کے لئے والدین کو اپنے عقل و دانش کے ناخن تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ تعلیمی اداروں کی نعرہ بازی ،اشتہاربازی اور استحصال سے اپنے بچوں کے مستقبل کو بچاسکے۔والدین اولاد کے رشتے کے انتخابمیں جس طرح حد درجہ احتیاط سے کام لیتے ہیں بالکل اسی طرح اچھے اسکول کی تلاش میں بھی بہت محتاط رہیں۔والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے ایسے اسکول میں تعلیم حاصل کریں جس کی نہ صرف عمارت بہتر ہو بلکہ اسکول کے اساتذہ ،پرنسپال اور دیگر اسٹاف تربیت یافتہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ ،تجربہ کار مشفق اور اعلیٰ اوصاف کا حامل ہوں۔والدین اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ایسے اسکولوں کو تفویض کرنا پسند کرتے ہیں جہاں بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی، ذہنی ،جذباتی اور جسمانی تربیت کے وافر مواقع دستیاب ہوں۔والدین کا یہ فرض ہے کہ وہ بچوں کو ایسی تعلیم فراہم کریں جو انھیں ایک ذمہ دار شہری ،ایک کامیاب انسان بنا سکے اور وہ نہ صرف اپنی گھریلو زندگی بہتر طریقے سے گزارنے کے قابل ہوجائیں بلکہ معاشرتی تقاضوں کو بھی احسن طریقے سے پورا کرسکیں۔والدین بچوں کے اسکول کے انتخاب کے وقت خاص خیال رکھیں کہ جس تعلیمی ادارے میں و ہ اپنے نور نظر کو داخل کرنے جارہے ہیں وہ نہ صرف بچے کو غوغائے علم سے آراستہ کرے بلکہ اللہ سے ڈرنے والے ،انسان دوست،ہمدرد،صلہ رحم معاشرے کے لئے کارآمد انسان تیار کرنے کے اہل ہوں۔ وہ ایسی تعلیم و تربیت فراہم کریں کہ بچے اپنی تعلیم اور کامیابی پر تکبر و غرور کا شکار نہ ہوں۔والدین کی عزت و تکریم کریں ان کا سہارا بنیں۔اکرام انسانیت کے جذبے سے سرشار ہوں۔ بچوں کی تعلیم والدین کی عزت میں اضافے کا سبب بنے ۔بچو ں کے مستقبل کا دارو مدار یقیناًاسکول اور اس کی فراہم کردہ تعلیم و تربیت پر ہوتا ہے اسی لئے والدین اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کرتے وقت چند باتوں کا خاص خیال رکھتے ہوئے اپنے بچوں کے مستقبل کو درخشاں اور تابناک بناسکتے ہیں ۔اگر تعلیم و تربیت کی ذمہ داری غلط ہاتھوں میں سونپ دی گئی تو بچوں کا مستقبل تباہ ہوجائے گا۔بچوں کے اسکول کا انتخاب کرتے وقت والدین اس مضمون میں بیان کردہ نکات کا خاص خیال رکھیں۔بیان کردہ ہر خوبی ہر اسکول میں پائی جائے یہ ضروری نہیں ہے لیکن آپ ان اداروں پر اعتماد کرسکتے ہیں جن میں مذکورہ خوبیوں کا ستر یا اسی فیصد حصہ بھی اگر پایا جاتاہو۔
(1)اسکول کے قیام کا مقصد:
اسکول مردم سازی کی فیکٹریاں ہوتی ہیں جہاں انسان ڈھالے جاتے ہیں۔اسکول قلب و نگاہ اور ذہن و دماغ کی تربیت کا کام انجام دیتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو کسی بھی اسکول میں شریک کرنے سے قبل معلوم کریں کہ یہ مدرسہ و اسکول کس مقصد سے قائم کیا گیا ہے۔تعلیم کے مقصد میں سب سے پہلی اور بنیادی چیز جس کی طرف سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے وہ تعلیم کا اعلیٰ مقصد اور بلند نصب العین ہے ۔والدین جس اسکول یا کالج میں اپنے لخت جگر کو داخل کررہے ہیں معلوم کریں کہ وہ اسکول اور کالج کے بانیان کے آگے تعلیم کے اعلیٰ مقاصد ونصب العین موجود ہیں یا نہیں۔دور حاضر میں خانگی اسکولس اور کالجوں کی بہتات ہے ۔تعلیمی اداروں کے بانیان خود اپنے مدرسے اور اسکول کے قیام کے مقاصد اور مشن سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔ ان کا واحد مقصد پیسہ لگاؤ اور پیسہ کماؤ ہوتا ہے۔ان کے نزدیک تعلیم ایک جنس تجارت کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ رجحان معاشرے اور بچوں کے لئے بہت ہی تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔اگر بانیان مدارس کا مقصد ہی صرف مادی فوائد حاصل کرنا ہوتو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ یہاں کے فارغین معاشرے کی صلح و فلاح میں اپنا گرانقدر رول انجام دیں گے ۔ ایسے اسکولوں کے طلبہ کے نزدیک پڑھنے لکھنے کا مقصد اچھی ملازمتوں کے حصول سے زیادہ کچھ اور نہیں ہوتا ۔ایسی صورت میں خواہ تعلیم کتنی ہی پھیل جائے نہ اس سے ملک کو اجتماعی سطح پر کوئی خاطر خواہ فائدہ پہنچ سکتا ہے اور نہ کوئی ایسی قوم وجود میں آسکتی ہے جو اپنی روٹی اور پیٹ سے آگے سوچ سکتی ہو۔ہمارے معاشرے میں موجود بیشتر تعلیمی ادارے تعلیم و تربیت کے صحیح مقصد سے نا آشنا ہیں ۔والدین اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کرنے سے پہلے اس اسکول کے نظریات،مقاصد اور مشن کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور ان کی اشتہار بازی کا شکار نہ ہوں ۔ان کی تشہیری باتوں پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے خود سے حقائق کا پتہ چلائیں۔آج ہمارے اردگرد پائے جانے والے تعلیمی ادارہ جات جو اپنے آپ کو تعلیمی کاز اور مشن میں مصروف گردانتے ہیں در حقیقت یہ اپنی بغیر گھاٹے اور خسارے کی تجارت میں مصروف ہیں اگر یہ تعلیم کو تجارت نہیں سمجھتے ہیں تو پھر کیوں ہر دن بڑے بڑے اخبارات میں مکمل ایک دو صفحوں کے اشتہارات پر پیسہ صرف کر رہے ہیں۔اس پہلو پر والدین کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کریں جس کے بانیان اور منتظمین تعلیم کے اصل مقاصد سے پوری طرح آشنا و واقف ہوں۔برائیوں اور منکرات کو مٹانے میں سعی و جستجو کے حامل ہوں۔ایک نیک اور صالح معاشرے کی تشکیل میں تعلیم کو ایک کارگر ہتھیار گردانتے ہوں۔
(2)اسکول کے بانی اور انتظامی کمیٹی کے افراد کے بارے میں معلومات :
کسی بھی اسکول میں اپنے بچوں کو داخل کرنے سے قبل والدین اسکول کے بانی اور اس کو چلانے والی انتظامی کمیٹی کے ممبران و افراد کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ان کی تعلیمی قابلیت اور ان کی شرافت اور معاشرتی اقدار کا تعین کریں ۔تعلیمی ادارے کے بانی اور منتظمین اگر اعلیٰ اوصاف کے حامل ،خداترس اور نیک لوگ ہوں گے اور ان کے نزدیک تعلیم جیسی گراں مایہ متاع عزیز ضرورت اور کاروباری شئے نہیں بلکہ اعلیٰ مقاصد کے حصول کی جستجو و جد وجہد کا ایک ذریعہ ہوگی درحقیقت وہی لوگ قوم و ملت کی تعمیر کے جذبے سے سرشار ہوں گے۔والدین تجارتی مقاصد پر قائم تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو ہرگز شریک نہ کرائیں تاکہ وہ اور ان کی اولاد تعلیمی استحصال اوردغابازی سے محفوظ رہ سکیں اور معاشرے کے اعلیٰ اقدار کا دفع کیا جاسکے۔
(3)اسکول کی عمارت:
تعلیمی عمل میں مدرسے کی عمارت کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔اسکول کی عمارت کشادہ اور ہر کلاس روم(کمرۂ جماعت) ہوادار ہونا چاہئے۔طلبہ کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے تمام سامان مہیا ہوں۔ ماحول کو پر فضا اور خوش گوار بنانے میں عمارت کے سامنے یا عقب میں پائے جانے والے پیڑ پودے اور سبزہ زار اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔اسکول کی عمارت خوش نما ،کمرے ہوادار،گرد و پیش صاف ستھرے اور عمارت آلات تعلیم سے لیس ہونی چاہئے۔ اسکول کی عمارت روشن ہو،پڑھنے کھیلنے کودنے کے لئے معقول جگہ دستیاب ہونی چاہئے۔ جس اسکول میں بچوں کو داخل کررہے ہیں پتہ لگائیں کہ وہ عمارت ذاتی ہے یا کسی کرایے کی عمارت میں کام کر رہی ہے۔عموما تجارتی نقطہ نظر سے اسکول کھولنے والے لوگ پہلے اسکول کرایے کی عمارتوں میں قائم کرتے ہیں اور اگر یہ ادارے ان کے لئے منفعت کا ذریعہ بنتے ہیں تو اسے جاری رکھتے ہیں ورنہ انہیں بند کردیتے ہیں۔جس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
(4)اسکول کا ماحول
بچوں کی مناسب تعلیم وتربیت میں اسکول کے ماحول کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔مدرسے کی عمارت ،کلاس رومس ،اور اس کے گردو پیش صاف ستھرے ،روشن ہوادار اور خوش نما ہونے چاہئے۔اسکول میں پانی اور بجلی کی سہولت دستیاب ہو۔ واش رومس صاف ستھرے ہوں۔استعمال اور پینے کے پانی کا معقول انتظام ہو۔ اسکول کی عمارت کھڑکیوں کی کانچ ،برقی تارا ور فرنیچر کا بھی والدین خاص طور پر جائزہ لیں تاکہ بچوں کو زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔کلاس رومس کشادہ ہیں یا نہیں اس کا بھی والدین جائزہ لیں۔ کلاس رومس میں آویزہ بورڈس کی بھی جانچ کریں۔ اتفاقی حادثات کے وقت بچوں کی زندگی کو تحفظ فراہم کرنے والے انتظامات کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔اسکول کی عمارت میں تازہ ہوا اور روشنی کا اچھی طرح گزر ہونا چاہئے، قرب و جوار میں کوئی نالہ یا کچرادان نہ پایا جائے۔اسکول کی فضا گردو غبار سے پاک اور ماحول پرسکون ہونا چاہئے۔اسکول کے قریب کوئی شراب خانہ ،سینما گھر،قمارخانہ اور چائے خانہ(ہوٹل) بھی نہیں ہونی چاہئے۔اسکول ٹرافک سے پاک علاقے میں ہو۔اسکول اسلامی ماحول کو پروان چڑھانے والا ہو۔اسکول میں نماز گاہ ضروری ہے تاکہ بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی نماز کا پابند بنایا جاسکے۔
(5)پری اسکول (کینڈرگارٹن،نرسری،ایل کے جی اور یو کے جی)کا ماحول:
کینڈر گارٹن اسکول جسے ہم پری اسکول بھی کہتے ہیں یہ عموماً ڈھائی سال سے چھ سال کی عمر کے بچوں کے لئے کھیل کھیل میں تعلیم (play way method of education)کے نظریے پر کاربند رہتے ہوئے تعلیم فراہم کرتے ہیں۔کینڈر گارٹن اسکولوں کا ماحول عام اسکولوں کے ماحول سے مختلف ہوتا ہے۔پری اسکول میں طلبہ کی تعلیم کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔پری اسکول میں کھیل کی بنیاد پر سرگرمیوں اور کلاس روم کی تزئین و تنظیم عمل میں آتی ہے جب کہ پرائمری اور سیکنڈری اسکولس میں پڑھائی کی بنیادپر تعلیمی سرگرمیوں کو وضع کیا جاتا ہے۔ کینڈر گارٹن چونکہ کھیل کھیل میں تعلیم کے نظریے پر کام کرتا ہے اسی لئے کھیل کود کے لئے محفوظ کھلی جگہ ،جھولے ،کھلونے وغیرہ بہت ضروری ہوتے ہیں۔جھولے اور کھلونے بچوں کی عمر کو اور حفظ ماتقدم کے نظریے کو ملحوظ رکھتے ہوئیتیار کئے جائیں تاکہ کھیلتے وقت بچوں کو کوئی چوٹ یا گزند نہ پہنچے۔پری اسکول کے بچوں کے کھیلنے کی جگہ پر بڑے بچوں کے داخلے پر پابندی ہو کیونکہ بڑے بچے اودھم کود زیادہ کرتے ہیں جس سے چھوٹے بچوں کو نقصان ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔پری اسکول میں داخلے سے قبل بچوں کی حفاظت اور دیکھ ریکھ کے انتظامات کا والدین بغور مشاہدہ کر یں تاکہ کسی بھی امکانی پریشانی اور خدشے سے بچوں کو محفوظ رکھا جاسکے ۔پری اسکول میں پڑھانے والے اساتذہ کا ٹرینڈ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ٹرینڈ اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ چھوٹے بچوں سے کس طرح پیش آئیں اور ان کی دلچسپی اور بچپن کو ختم کیئے بغیر تعلیم سے بچوں میں دلچسپی پیدا کریں ۔
(5)اسکول انفراسٹرکچر:
اسکول تمام تعلیمی سہولتوں سے آراستہ ہونا چاہیے۔بچوں کو حصول تعلیم میں کوئی تکلیف نہ ہو اس کے لئے بہترین آرام دہ فرنیچر کی فراہمی بہت اہم ہے۔حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق واش رومس ،سک روم اسکولس میں ہونے چاہئے ۔صاف و شفاف پینے کے پانی اور استعمال کے پانی کا وافر انتظام ہو۔ اسکول کی صفائی ستھرائی پر والدین خاص توجہ دیں۔عصر تقاضوں سے مطابقت رکھنے والے سہولتوں کا ہر اسکول میں پایا جانا ضروری ہے۔
کمپیوٹر لیاب اور لائبریر :۔ کمپیوٹر لیابس کا اسکول میں پایا جانابے حد ضروری ہے۔ کمپیوٹر س بھی اعلیٰ معیار کیہوں۔ اسکول میں ٹیلی فون اور انٹر نیٹ کی سہولت بھی اہم ہوتی ہے۔اس کے علاوہ بچوں میں ذوق مطالعہ کو پروان چڑھانے کے لئے ایک عمدہ لائبریری کا وجود بہت ہی اہم ہوتا ہے۔بچوں کی عمر اور ان کی قابلیت کے معیار کے مطابق کتابیں لائبریری میں رکھی جانی چاہئے۔لائبریری میں علم و ادب کے علاوہ سائنس،فکشن ،آرٹ ،کرافٹ ،لطائف کی کتابیں اور کامیکس رکھی جانے چاہئے۔طلبہ کو ہفتے میں دو پریڈ لائبریری کے تفویض کیئے جانے چاہئے تاکہ ان میں مطالعہ کا شوق پروان چڑھے۔کتابوں کے ریکارڈ، ترتیب اور آسان حصول کے لئے لائبریرین کا تقرر بھی ضروری ہے۔ اسکول میں ایک بڑی مرکزی لائبریری کے علاوہ ہر کمرہ جماعت میں ایک چھوٹی لائبریری ہونی چاہئے۔والدین اسکول کے انتخاب کے وقت اسکول لائبریری کا تفصیلی معائنہ کریں۔
لیبارٹری:۔ عموماًدیکھنے میں آیا ہے کہ ہائی اسکول کے طلبہ کے لئے تجربہ گاہ (لیبارٹری) کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ سائنسی مضامین سے دلچسپی پیدا کرنے کے لئے اور طلبہ میں تحقیق و دریافت کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے پرائمری جماعتوں کے طلبہ کے لئے بھی سائنس لیابس کی موجودگی بے حد ضروری ہے۔تجربوں کے ذریعے گنجلکسائنسی تصورات طلبہ بہت جلد سمجھ جاتے ہیں ۔تجربات و مشاہدات کے ذریعے بچوں کی ذہانت میں بے پنا ہ اضافہ ہوتا ہے۔ اسی لئے ہر اسکول میں پرائمری اور دیگر جماعتوں کے طلبہ کے لئے سائنس لیابس کا وجود بے حد ضروری ہے۔
کھیل کود اور غیر نصابی سرگرمیاں:۔جسمانی نشوونما کے فروغ اور بچوں میں مسابقت کے جذبے کو پروان چڑھانے میں کھیل اور دیگر غیر نصابی سرگرمیاں بے حد معاون ثابت ہوتی ہیں۔ لگاتار پڑھائی کی وجہ سے بچے تعلیم سے بوریت محسوس کرتے ہیں اور ان میں ذہنی افتادگی جگہ بنانے لگتی ہے ۔کھیل کود اور غیر نصابی سرگرمیاں طلبہ کو پابندی سے اسکول آنے اور تعلیم سے ان کی دلچسپی کو برقرار رکھنے میں مددگار ہوتی ہیں۔ والدین اسکول میں بچوں کو داخل کرنے سے قبل دیکھ لیں کہ اسکول میں کھیل کود کی سہولت اور غیر نصابی سرگرمیوں کی سہولت موجود ہیں یا نہیں اور کھیل کود کے باقاعدہ مقابلہ جات کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے یا نہیں۔اگر یہ سہولتیں دستیاب نہ ہوتو اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کرنے سے پرہیزکریں۔
آرٹ اینڈ کرافٹ:۔جمالیاتی حس کے فروغ میں فنون لطیفہ کا کلید ی کردار ہوتا ہے۔طلبہ میں جمالیاتی حس کے فروغ کے لئے اسکول میں آرٹ اور کرافٹ کی سرگرمیوں کا باقاعدہ نظم ہونا چاہئے۔ آرٹ اور کرافٹ کا ایک علیحدہ مخصوص تجربہ کار تربیت یافتہ ٹیچر بھی ضروری ہے۔آرٹ اور کرافٹ کی سرگرمیوں کے انعقاد کے لئے اسکول میں ایک علیحدہ کمرہ تفویض کیا جائے۔ آرٹ اور کرافٹ کلب قائم کرتے ہوئے طلبہ کو اس کا ممبربنایا جائے تاکہ آرٹ اور کرافٹ سے دلچسپی میں اضافہ ہو اور ان میں تخلیقی صلاحیتیں ،خوب صورتی کی تحسین (جمالیاتی حس) کا جذبہ پروان چڑھ سکے۔ اسکول کے انتخاب سے پہلے والدین مذکورہ بالا سہولیات اور انفرااسٹرکچر کا معائنہ کریں اور اطمینان کے بعد ہی بچوں کو اسکول میں داخل کریں۔
(6) اسکول کا ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل
ہیڈ ماسٹر (پرنسپل) اسکول میں ایک مرکزی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔کسی بھی اسکول کی کامیابی میں پرنسپل کی لیاقت ،سوجھ بوجھ ،علمی استعداد اور تنظیمی مہارت کا بہت بڑادخل ہوتا ہے۔اسکول کی خوبی یا خرابی کا دار ومدار ہیڈ ماسٹر (پرنسپل) پر ہوتاہے۔پرنسپل کو تعلیم کے اغراض و مقاصد سے مکمل آگہی ہونی چاہئے اور وہ ان مقاصد کے حصول کے طریقے کار سے بھی اس کا واقف ہونا ضروری ہے۔ایک اچھے اسکول کا پرنسپل اساتذہ،طلبہ اور والدین کے خیالات ،خواہشات اور عزائم کو ہمدردی سے سمجھنے کا اہل ہوتا ہے۔اس کی شخصیت میں غیر معمولی اعتدال پایا جاتا ہے ۔وہ اساتذہ،والدین اور طلبہ کا اعتماد حاصل کرنے کے ہنر سے آگاہ ہوتا ہے۔ایک اچھاپرنسپل خوش اخلاق ،باکردار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتاہے ۔بااخلاق اور تہذیب یافتہ پرنسپل ہی طلبہ کی بہتر تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دے سکتا ہے۔والدین بچوں کے داخلے سے قبل پرنسپل سے بالمشافہ ملاقات کریں اس کے انداز گفتگو،نشست و برخواست ، اخلاق ،قابلیت ،علمیت،شخصیت اور تجربے کا اندازہ لگائیں۔پرنسپل خوش مزاج ،نفیس مزاج کا حامل ہو اور اس کا دفتر حسن سلیقے کانمونہ ہو۔پرنسپل سے ملاقات کے دوران والدین اس کے تعلیمی نظریات اور مقاصد کا اندازہ قائم کریں۔اسکول کے قیام کا مقصد دریافت کریں یا پھر پرنسپل کی گفتگو سے اس کا اندازہ کریں ۔بچوں کی تعلیم و تربیت میں معاون عناصر پر بات کریں۔کسی بھی اسکول کا روح رواں اس کا پرنسپل ہوتا ہے۔جہاز میں جو حیثیت کپتان کی ہوتی ہے وہی حیثیت اسکول میں پرنسپل کی ہوتی ہے۔اسی لئے پرنسپل کا غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل ہونا ضروری ہے ۔پرنسپل سے دریافت کریں کہ وہ تعلیم و تربیت کے ذریعہ طلبہ کو کیا بنانا چاہتا ہے۔والدین یہ بات یاد رکھیں کہ اسکول ،پرنسپل(سربراہ) کی سوچ و فکرکا پرتو ہوتا ہے۔ایک بہتر پرنسپل ہی عمدہ تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دے سکتا ہے۔ آج کے معاشرے میں تعلیمی ادارہ جات بھی ایک برانڈ کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ تعلیم انسان سازی و تیاری کا نام ہے یہ نہ تو کوئی بکاؤ جنس ہے نہ ہی کوئی پروڈکٹ کہ والدین صرف برانڈ نام پر اکتفا کرتے ہوئے بچوں کو اسکول میں داخل کردیں۔والدین پرنسپل اور منتظمین مدرسہ سے مل کر ان کے مزاج اور اطوار کاجائزہ لیں اور کاروباری مزاج کے اسکولس سے لازمی طور پر بچنے کی کوشش کریں۔
(7) اساتذہ کا معیار
کسی بھی اسکول کی کامیابی اور مقبولیت میں اس کے اساتذہ کا اہم کردار ہوتا ہے۔اسکول کا معیار دراصل اساتذہ کے معیار کی غمازی کرتا ہے۔معیاری تعلیم کا تصور اچھے اساتذہ کے بغیر محال ہے۔والدین جس اسکول میں اپنے بچے کو داخل کر رہے ہیں وہاں کے اساتذہ سے ملاقات کریں ۔ان کی لیاقت ،اخلاق،تجربہ ،تدریسی صلاحیتوں ،مہارتوں اور اوصاف و کردار کے بارے میں تحقیق کریں۔ معلوم کریں کہ آیا اساتذہ تعلیمی سال کے دوران بھی تبدیل ہوتے ہیں یا نہیں۔ اساتذہ کی ان کے پیشے کے تیءں سنجیدگی کا پتہ چلائیں۔ وقت گزاری یا جیب خرچ کے لیے تدریس کا پیشہ اختیار کرنے والے ا ساتذہ عام طور پر سنجیدگی سے کام نہیں کرتے۔خوش اخلاق اور ملنسار اساتذہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے فرائض احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں۔سخت اور ترش مزاج کے اساتذہ کی وجہ سے بچے تعلیم سے متنفر ہوجاتے ہیں ۔والدین جس اسکول میں بچے کو داخل کر رہے ہیں دریافت کریں کہ وہاں کے اساتذہ نرم خو اور مشفق ہیں یا نہیں ورنہ ایسے اسکولوں میں اپنے بچوں کو ہرگز داخل نہ کریں۔ اساتذہ کے تند و ترش رویوں کی وجہ سے یہ مدرسے مقتل کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جہاں بچوں کے مستقبل کا قتل ایک عام بات ہے۔اسکول میں اساتذہ کا تقرر 1:5کے تناسب میں ہونا چاہیے یعنی اگر کسی اسکول میں 10جماعتیں ہوں تو اساتذہ کی تعداد پندرہ ہونی چاہئے۔اور تمام اساتذہ ٹرینڈ (تربیت یافتہ ) ہونے چاہئے۔والدین معلوم کریں کہ انتظامیہ اساتذہ کی فنی و پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے ریفریشر کورسس ،ورکشاپس وغیرہ انعقاد کرتا ہے یا نہیں۔اگر نہیں تو پھر ایسے اسکول میں اپنے بچوں کو داخل نہ کریں۔
(8)کلاس روم کا ماحول
کلاس رومس کشادہ ،ہوادار اور روشن ہونے چاہیے۔ٹوٹافرنیچر اور کھڑکیوں پر شیشے نہیں ہونا چاہئے۔بچوں کی زندگی کے لئے خطرناک ثابت ہونے والی اشیاء و فرنیچر کمرۂ جماعت میں نہ ہوں۔نوک دار اور غیر معیار ی فرنیچر سے بچوں کو نقصان ہوتا ہے۔ بچوں کے لئے بیٹھنے کا مناسب انتظام ہو۔کلاس روم کی تزئین و آرائش بچوں کی دلچسپی کوملحوظ رکھتے ہوئے کی جانی چاہیے۔ کلاس روم اتنے بڑے بھی نہ ہو کہ بچوں کو بورڈ نظر نہ آئے اور نہ ہی اتنے چھوٹے ہوں کہ بچوں کا دَم گھٹنے لگے۔ ہر کمرۂ جماعت میں مناسب روشنی اور ہوا کا انتظام ہونا چاہئے۔ الکٹرک پنکھے،پروجیکٹرس اور دیگر تعلیم و تربیت میں معاون آلات و ساز و سامان سے ہر کمرۂ جماعت آراستہ ہونا ضروری ہے۔ہر کمرۂ جماعت میں کوڑے دان (Dust Bin)ہونے چاہئے۔اسمارٹ بورڈس یا وائٹ بورڈس ہر کمرۂ جماعت میں ہونے چاہئے۔ چاک بورڈس کی وجہ سے بچے امراض تنفس اور شش سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ اسی لئے ہر کمرۂ جماعت میں مارکر بورڈس آویزاں ہونے چاہئے۔کلاس روم کے در و دیوار کی تزئین وآرائش بچوں کی عمر کے مطابق ہونی چاہئے۔
(9) کینٹین
بچے صحت مند ہوں گے تبھی وہ تعلیم حاصل کر پائیں گے۔صحت، حصول علم میں ایک بہت ضروری عنصر مانا جاتا ہے۔ اسکول میں بچوں کو داخل کرنے سے قبل والدین اسکول کی کینٹین کا معائنہ کریں ۔دیکھیں کہ کینٹین میں صاف پانی کا انتظام ہے یا نہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق رکھی گئیہے یا نہیں۔اشیاپر استعمال کی تاریخ درج ہے کہ نہیں۔والدین توجہ دیں کہ کینٹین میں جنک فوڈہر گز نہ پائی جائے ۔کینٹین میں صحت بخش غذا اور مشروبات ہونے چاہئے۔
اس مضمون میں ایک مثالی اسکول میں پائے جانے والی تقریباً سبھی بنیادی عناصر کا جائزہ لیا گیا ہے جو والدین کو اپنے بچوں کے لئے معیاری اسکول کے انتخاب میں یقیناًمددگار ثابت ہوں گے۔والدین ایک معیار ی اسکول کے انتخاب کے ذریعے اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ اور درخشاں بنا سکتے ہیں اسی لئے وہ اسکول کے انتخاب میں لاپروائی سے کام نہ لیں۔ مذکورہ تمام سہولیات اور خوبیاں ضروری نہیں کہ ایک اسکول میں میسر آجائیں۔ اگر کسی اسکول میں مذکورہ سہولیات و خوبیاں ا 70تا80فیصد بھی پائی جائیں تو والدین اس اسکول میں اپنے بچے کو داخل کرسکتے ہیں۔والدین اپنے بچوں کے اسکول کے انتخاب میں غیر تعلیمی سہولتوں اور انفرااسٹرکچر پر ایک حد تک اگر سمجھوتہ کر بھی لیں لیکن اساتذہ اور پرنسپل کے معیار پر کسی صورت سمجھوتہ نہ کریں۔