مثالی مدارس۔۔۔ملت کے درخشاں مستقبل کے امیں

دنیا بھر میں تعلیم سیکھنے کا نام ہے۔ایک اچھے اسکول میں بچوں کوسوچنا اور تخلیق کر نا سیکھایا جا تا ہے۔اگر بچہ خیالات کا اظہا ر اپنے الفاظ میں اور دوسروں کے سامنے اعتماد کے سا تھ علمی گفتگو کر سکتا ہے توکہہ سکتے ہیں کہ اس نے سیکھا۔بورڈ سے کا پی کر نا،سوال جواب یا د کر نا اور امتحان میں سوالوں کا جواب دینا سیکھنانہیں ہوتا۔چند مضامین یاد کر کے امتحان میں ان کو تحریر کر دینا سیکھنانہیں کہلاتااور سیکھنے کا عمل اسی وقت رک جا تا ہے جب بچہ رٹنا شروع کرتا ہے۔جو بچے اسکول میں سیکھتے ہیں وہ عملی زندگی میں اکثر کامیاب ہو تے ہیں۔ بڑے بڑے منصب اور تنخواہ پا تے ہیں کمپنیاں ایسے افراد کی تلاش میں رہتی ہیں جنھو ں نے اسکول میں سیکھا ہو ایسے ہی لوگ بزنس میں کا میا ب ہوتے ہیں اس کے بر عکس وہ بچے جن کو اسکول میں رٹا یا گیاہو وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی نا کام ہو جا تے ہیں۔آج اسکولوں میں غور وفکر اور تدبیر و تدبر کی تعلیم نا پید ہو چکی ہے خواہ وہ کو ئی اعلی اسکول ہو یا معمولی فیس والا ایک چھوٹا اسکول یا پھر سر کاری مدرسہ۔بقول ڈاکٹر پرویز ہود بھائی “ما ہر ین تعلیم نے خود اپنے لئے آرام گاہیں بنا لی ہیں اور وہ نہیں چا ہتے کہ کوئی گستاخ طالب علم کوئی چبھتا ہوا سوال پوچھ کر انھیں بے آرام کر دے اور انھیں سوچنے اور مسائل کا حل ڈھونڈنے پر مجبور کر دے”۔ تعلیمی اداروں بالخصوص مسلمانوں کے اسکولوں کی زبوں حالی دیکھ کر آنکھ لہو روتی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں نے تعلیمی مقاصد کے بجائے روپے بٹورنے کو اپنا نصب العین بنا لیا ہے۔ تعلیمی ادارجات کے درمیان نا م اوردولت کمانے کے لئے ایک جنگ چھڑی ہے جو تعلیم کے بنیادی مقصد کو خاک آلود کر رہی ہے۔نسل نو کی صلاحیتوں کو صیقل کرنے میں تعلیمی اداروں کا نما یا ں رول ہو تا ہے لیکن اب مدارس طلبہ میں پوشیدہ صلاحیتوں کو فروغ دینے کے بجائے رٹ مارنے کے طریقہ کو رواج دے چکے ہیں جس کی بنا ء پر طلبہ وقتی طورپر بورڈ اور دیگر امتحا نات میں اچھے نمبر اور پوزیشن تو حا صل کر لیتے ہیں لیکن شعور علم اور تفہیم علم سے محروم ہو جا تے ہیں ان کو اپنے مضامین کابنیادی فہم بھی نہیں ہو تا۔
اسکول ایک ایسی جگہ کا نا م ہے جہا ں زندگی نمو پا تی ہے جان ڈیوی ڈیموکریسی اینڈ ایجوکیشن میں رقم طراز ہے’مدر سے کا اہم کام یہ ہے کہ وہ اپنے ما حول کو سماجی ما حول کی بہ نسبت زیادہ سادہ اور واضح بنائے مو جودہ سماجی نظام اس قدر وسیع اور پیچیدہ ہے کہ بچہ اس کو پورے طور پر تو کیا جزوی طور پر بھی نہیں سمجھ سکتا۔اس لئے مدرسہ کو ان عنا صر کا انتخاب کر نا ہوگا جو تر بیت کے لئے خاص طور پر اہمیت رکھتے ہیں۔مدرسہ کا نصاب اس طر ح مر تب کرنا ہوگا جو تربیت کے لئے خاص طور پر اہمیت رکھتا ہو اور تمدنی زندگی کو سا دہ اور دلچسپ طر یقے سے پیش کر ے لیکن ہمارے اسکول طلبہ کی انفرادی صلاحیتوں کے فروغ اور ما حول سے مطابقت پیدا کر نے میں تقریبا ناکام دکھائی دیتے ہیں۔اسکولوں میں طلبہ کی خصوصی صلاحیتوں اور خوبیوں کو پر وان چڑھا نے کے لئے درکارعوامل کا فقدان پایا جا تا ہے۔اسکولوں کی کارگردگی کامعمولی علم رکھنے والا شخص بھی بلا کسی تذبذب و تامل کے کہہ سکتا ہے کہ مدارس بچوں میں صلاحیتوں کو ابھارنے کے بجائے ان کو فنا ء کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ بقول ایچ ۔جی ویلز ‘ ا گر تم محسوس کر نا چا ہتے ہو کہ پوری کی پوری نسلیں کس طرح بر بادی کی طرف دوڑ ری چلی جا رہی ہیں تو تم کسی پرائیوٹ اسکول کا ذرا غور سے معائنہ کر لو۔
آج بھی مسلما نوں کی زبوں حالی کے اسباب میں تعلیم سے غفلت کو اہم گردانا جا تا ہے۔ہم اپنے مر ض کی تشخیص میں تو کا میا ب ہو گئے ہیں لیکن ڈھونگی اطباء(تاجران تعلیم) کے ہا تھوں اپنی سادہ لوحی کے سبب ایک کھلونا بن چکے ہیں۔یہ تاجران تعلیم اخلاص اور تعمیرملت کے جذبہ سے عار ی ہیں۔ان کا مقصد تعلیمی تجارت ہے ااوریہ تعلیم کے نام پر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔اگر ان کی کوائف پرنظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ نہ صرف تعلیم کے مقصد سے نا آشنا ہیں بلکہ تعلیم سے بھی نا بلد ہیں۔ مر ض کی تشخیص کے با وجود امت مسلمہ اپنے تعلیمی استحصال کی وجہ سے علاج میں نا کام ہو گئی ہے۔ ہمارے مدارس اس معیار کے حا مل نہیں ہیں کہجن کی بنیادوں پر ہم اپنے کل (مستقبل ) کو تعمیر کر سکیں۔مدارس کے وقار، عظمت اور معیار کی بحالی کے لئے جامع حکمت عملی ،نئے طریقہ کار اورجدید تعلیمی جحانات کی تشکیل بے حد ضروری ہے۔ تعلیمی ما حول کی اصلاح کے لئے مثالی تعلیمی قیادت اور تحریک کی ضرورت ہے۔ایک اچھا اسکول انفرادی و سما جی نشو و نما کے لئے نہ صرف ساز گار ما حول فرا ہم کر تا ہے بلکہ صحت مند ما حول کے فر وغ میں رہنمائی بھی کر تا ہے۔ بچوں میں بہترین عادات ،خصائل،مہا رتوں ،استعدادوں،علوم ،دلچسپیوں اور ذہنی رویوں کی بناء ڈالتا ہے جو زندگی کے لئے نہایت مفید اور قیمتی ہو تے ہیں۔بچوں میں احتساب کے اعلی اقدار کو جا گزیں کر تا ہے جس سے بچے اپنے کردار کی از خود جا نچ کر تے ہیں۔ایک مثالی اسکول اپنی ذمہ داریوں سے اسی وقت عہدہ براء ہو سکتا ہے جب و ہ طلباء میں مختلف تعلیمی سرگرمیوں اور افعال کی مکمل انجام دہی کی مو ثر عادت ڈالیں۔جو اسکول ان مقاصد کے حصول میں اپنی قوتوں کو صرف کرتا ہے اس کے طلباء میں وہ توانائی بدرجہ اتم نظر آتیہے ۔ طلباء اقدار کی پا سداری و دلجمعی کے سبب علم، ذہانت اور مہارتوں کا مرقع بن جاتے ہیں۔ایک عمدہ اسکول تعلیمی مسرت کا سر چشمہ ہو تا ہے اور اس سے پھوٹنے والا ہر سوتہ ہر پل ہر گھڑی طلباء کو احساس دلاتا ہے کہ وہ صرف وہی کا م کر یں جنھیں ان کو کر نا ہے اور اسی طرح سے کر یں جس طرح سے انھیں انجام دینا ہے۔
کسی تعلیمی ادارے کی سرگرمیوں کی رہبری ونگرانی، انسانی و مادی وسائل کے موثر استعمال اورمبسوط منصوبہ بندی کے لئے انتظامیہ کوسخت محنت کی ضرورت ہو تی ہے۔تعلیم و تربیت کے مناسب بندو بست میں مدارس کومتعدد دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہمارے مدارس میں جہاں موزوں اساتذہ کا عدم وجود قابل تشویش پہلو ہے وہیں بہت کم بر سر خدمت اساتذہ فن تعلیم و تر بیت سے آگاہ ہیں۔ مدرسہ کو قوم و ملت کی تعمیر کا شرف حا صل ہے۔کسی بھی اسکول کی کار گردگی کا جا ئزہ لینے کے لئے سب سے پہلے اس کے معیار پر توجہ کی جا تی ہے معیار تعلیم کو اطمینان بخش بنانے میں اسکول کے اسا تذہ،انتظامیہ اور طلباء کا کلیدی کردار ہوتا ہے لیکن ان تمام کو سازگار ماحول اور وسائل کی فراہمی کی ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔اگر کسی اسکول کا تعلیمی معیار پست ہوگا تو اسکول انتظامیہ کو ہی اس کا قصودار ما نا جا ئے گا۔کیونکہ انتظامیہ ہی اساتذہ کے انتخاب کاذمہ دار ہو تاہے اور نصاب کی تدوین اور تدریس کے لائحہ عمل کو مرتب کر نااور تعلیمی مقاصد کاتعین بھی انتظامیہ کا کام ہو تا ہے۔سماج میں نمایا ں مقام و مر تبہ کے طلب گار تعلیمی ادارے کا عام اداروں کے معیار سے بلند ہو نا ضروری ہے۔ادارے کی کامیابی انتظامیہ کے اخلاص اور نیک نیتی پر منحصر ہوتی ہے۔اگر اسکول کا انتظامیہ اخلاص سے عاری ہوگا تو اس ادارے کی نیک نا می اور شہرت متا ثر ہو گی۔اسکول کے اپنے مقاصد اور نظریات کا تعین بے حد ضروری ہے۔اولیائے طلبہ کے لئے اسکولوں کے اسا سی نظریات و مقاصد سے آگاہی اہم ہو تی ہے جس سے وہ اسکول کے معیار کا اندازہ قائم کر سکتے ہیں۔عوام مدارس کے بلند بانگ دعوؤں اور نظریات سے مر عوب ہو جا تے ہیں۔اولیائے طلبہ بچوں کو مدارس میں داخل کروانے سے قبل ان تعلیمی اداروں کی شفافیت سے متعلق معلومات حا صل کر لیں ان کے دلفریب گمراہ کن اشتہارات کا وہ شکار نہ ہوں۔اسکول انتظامیہ کے ا پنے نظریات اور مقاصد کے حصول میں نیک نیتی کاجائزہ لیں تاکہ وہ کسی تعلیمی استحصال کا شکار نہ ہو نے پائیں کیو نکہ قوم اب مزید دھوکوں کی متحمل نہیں ہے اس طر ح کا استحصال قوم کو مزید پستی اور ذلت کی تاریکیوں میں غرق کر دے گا۔تعلیمی مقاصد کے تعین میں ناکامی کے با عث تعلیمی ادارے متضاد سمت میں گردش کر رہے ہیں ہے اور اس بے معنی گردش میں تعلیم و تربیت کا جو ہر خا ص فوت ہو کر رہ گیا ہے۔بے مقصد تعلیمی اداروں میں بچوں کو داخل کر وانا ان کو ہلاک کر نے کے مترادف ہے۔ بے مقصد ادارے وقت اور پیسے کے زیاں کا سبب بنے ہیں۔
ایک آئیڈیل (مثالی) مدرسے کے لئے لازمی ہے کہ وہ اولیائے طلبہ،طلبہ اور صالح سماجی کاز سے جوڑے افراد سے ربط و ضبط قائم رکھیں۔ مدرسہ کی تر قی و طلبہ کی تعمیر و تربیت میں ان کا تعاون حا صل کریں۔ تعمیر ی کا ز کے لئے ایک تشویش کا سبب یہ بھی ہے کہ عوا می تعاون انھیں اداروں کو حا صل ہو تا ہے جن کی سما ج میں بہتر ساکھ ہے لیکن یہ نہایت ضروری ہے کہ اخلاص سے تعلیمی کا ز میں مصروف نو تشکیل شدہ چھوٹے اداروں کی بقاء اور ملی تعمیر کے لئے سماج اور عوام ان کا سہارا بنیں۔ مدرسے کی عمارت تعلیمی ما حول میں اہمیت کی حامل ہو تی ہے۔لیکن عمارت کا پختہ ہو نا یا عالیشان ہو نا اہم نہیں ہو تا۔مدرسہ عمارت سے نہیں بلکہ اساتذہ اور انتظامیہ کی سعی و کا وش سے بنتا ہے۔لیکن یہ ضروری ہے کہ مدرسے کی عما رت طلبہ کے تعلیمی ضروریا ت کی تکمیل کر ے۔روشن ،ہو ادار کمرہء جماعت ،صاف پینے کے پا نی کی سہولت، پیشاب ،پا خانے ، پانی اور صفائی کا منا سب بندوبست ضروری ہے۔مدرسے کی کار کردگی کوبہتر بنانے کے لئے تعلیمی ساز و سامان ،سائنسی آلات اور مناسب فرنیچر کی بھی ضرورت در پیش ہو تی ہے۔ طلبہ اور اساتذہ کے استفادے کے لئے لائبریری لازمی ہوتی ہے ۔روز مرہ کے واقعات سے طلبہ کی آگہی کی خاطر دارالمطالعہ میں اخبارات ،رسائل اور جرائد کا ہونا ضروری ہے۔نصابی ،ہم نصابی سرگرمیوں کے علاوہ بچوں کی صلاحیتوں کے فر وغ کے لئے دیگر سرگرمیوں کی انجام دہی کے لئے ضروری ساز و سامان کی فرا ہمی بھی لازمی تصور کی جا تی ہے۔ذہنی نشوو نما کے علا وہ جسمانی صحت و نشوونما کے لئے کھیل کود کا انتظام بھی تعلیمی دلچسپیوں کو فروغ دینے میں اہم کردار انجام دیتا ہے۔کھیل کو د کے لئے کھلے میدان کا ہونا اور اگر زمین کی قلت ہو تو اندرون خانہ کھیلے جا نے والے کھیلوں کے سامان و جگہ کی فر اہمی ضروری ہوتی ہے۔ اسکول انتظامیہ اگر نظم و ضبط کا عا دی ہو تو لازما اس کے ملازمین اور طلباء بھی نظم و ضبط کے پا بند ہو ں گے۔وقت کی پا بند ی صرف طلبہ ہی نہیں بلکہ ادارے کے ہر فر د کے لئے لازمی ہو تی ہے۔
مدرسہ اور معاشر ے کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہو تا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مدرسے کا قیام صرف اور صرف علم کے حصول کے لئے کیا گیا تھا لیکن تغیرات زمانہ کے سا تھ یہ مقصد تعلیم کی تجارتی منڈیوں میں گم ہو گیا۔سماج اور مدرسے کی تر قی و تنزلی ایک دوسرے پر منحصر ہو تی ہے۔سماج کا اولین فرض ہے کہ وہ مدارس کا قیام عمل میں لائے اور مدارس کا بھی یہ فریضہ ہے کہ وہ سما ج کے تقاضوں کی تکمیل کو ملحوظ خاطر رکھے۔لیکن یہ ایک افسوس نا ک حقیقت ہے کہ آج سما ج اور اسکول کے بیچ ایک نا قابل عبور گہر ی کھائی حائل ہو چکی ہے جس کی بنا مدرسہ کا ما حول بچے کی تعلیم و تربیت کے لئے سازگارنہیں رہا ۔اسکولوں میں صرف بچوں کو کرم کتابی بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بچے سما ج میں کوئی فعال کردار انجام دینے سے قاصر ہیں۔مدارس کوسما ج کی ضرورتوں کا کو ئی خیال نہیں رہا ۔مدرسے کو سماج کا ایک کارکرد جزو بنانے کے لئے مدر سے اور سماج کے بیچ حائل فاصلوں کو پاٹنا ہو گا۔اور اس فاصلہ کو طے کر نے میں نصاب کا انتخاب اہم ہے جو سماجی تقاضوں کی تکمیل میں معاون و مددگار ہو تا ہے۔تدوین نصاب میں پیچیدگیوں اور مشکلات کو دور کرتے ہوئے تعلیم برائے مسرت کے جذبے کو جگہ دی جائے۔مدرسے کے معیا ر اور جواب دہی کے لئے انتظامی و تعلیمی امور کی فیصلہ سازی میں اولیائے طلبہ اور سماج کے دیانت دار معتبر افراد کو شامل کیا جائے۔عملی زندگی سے مدرسے کو قریب کر نے والے عملی پہلو پر خصوصی توجہ دی جائے۔والدین اور اساتذہ میں ذہنی ہم آہنگی کے لئے پیرنٹ ٹیچر میٹ کا اہتمام کیا جائے۔اسکول معاشرے کی توقعات کا مر کزہوتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں مدارس کی تو بہتات ہے لیکن فرا ئض کی انجام دہی میں اکثر کو تا ہی کا شکار ہیں اور جب یہ اپنی کو تا ہی کا تدارک کر لیں گے تو ایک مثبت تبدیلی کے نقیب اور اعلی قوم پیداکرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔قوم و ملت کی ترقی و تعمیر کا فریضہ بھی اسکول کے کندھوں پر ہوتا ہے۔اس دور پر آشوب میں صرف مدارس سے اصلاح حال کی امید یں وابستہ ہیں۔ ملت کے وقار کی بحالی کے لیے مدارس اپنی سر گر میوں کو تیز تر کردیں۔ تعلیمی ادارے محدود وسائل کے با عث متعدد مسائل اور دشوااریوں کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن ان اداروں کا انتظام و انصرام اگراو لو العزم و اعلی ہمت افراد کے ہا تھوں سونپ دیا جا ئے تو یقیناًملت کے سنہرے دن لوٹ سکتے ہیں۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں