دنیا بھر میں تعلیم سیکھنے کا نام ہے۔ایک اچھے اسکول میں بچوں کوسوچنا اور تخلیق کر نا سیکھایا جا تا ہے۔اگر بچہ خیالات کا اظہا ر اپنے الفاظ میں اور دوسروں کے سامنے اعتماد کے سا تھ علمی گفتگو کر سکتا ہے توکہہ سکتے ہیں کہ اس نے سیکھا۔بورڈ سے کا پی کر نا،سوال جواب یا د کر نا اور امتحان میں سوالوں کا جواب دینا سیکھنانہیں ہوتا۔چند مضامین یاد کر کے امتحان میں ان کو تحریر کر دینا سیکھنانہیں کہلاتااور سیکھنے کا عمل اسی وقت رک جا تا ہے جب بچہ رٹنا شروع کرتا ہے۔جو بچے اسکول میں سیکھتے ہیں وہ عملی زندگی میں اکثر کامیاب ہو تے ہیں۔ بڑے بڑے منصب اور تنخواہ پا تے ہیں کمپنیاں ایسے افراد کی تلاش میں رہتی ہیں جنھو ں نے اسکول میں سیکھا ہو ایسے ہی لوگ بزنس میں کا میا ب ہوتے ہیں اس کے بر عکس وہ بچے جن کو اسکول میں رٹا یا گیاہو وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی نا کام ہو جا تے ہیں۔آج اسکولوں میں غور وفکر اور تدبیر و تدبر کی تعلیم نا پید ہو چکی ہے خواہ وہ کو ئی اعلی اسکول ہو یا معمولی فیس والا ایک چھوٹا اسکول یا پھر سر کاری مدرسہ۔بقول ڈاکٹر پرویز ہود بھائی “ما ہر ین تعلیم نے خود اپنے لئے آرام گاہیں بنا لی ہیں اور وہ نہیں چا ہتے کہ کوئی گستاخ طالب علم کوئی چبھتا ہوا سوال پوچھ کر انھیں بے آرام کر دے اور انھیں سوچنے اور مسائل کا حل ڈھونڈنے پر مجبور کر دے”۔ تعلیمی اداروں بالخصوص مسلمانوں کے اسکولوں کی زبوں حالی دیکھ کر آنکھ لہو روتی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں نے تعلیمی مقاصد کے بجائے روپے بٹورنے کو اپنا نصب العین بنا لیا ہے۔ تعلیمی ادارجات کے درمیان نا م اوردولت کمانے کے لئے ایک جنگ چھڑی ہے جو تعلیم کے بنیادی مقصد کو خاک آلود کر رہی ہے۔نسل نو کی صلاحیتوں کو صیقل کرنے میں تعلیمی اداروں کا نما یا ں رول ہو تا ہے لیکن اب مدارس طلبہ میں پوشیدہ صلاحیتوں کو فروغ دینے کے بجائے رٹ مارنے کے طریقہ کو رواج دے چکے ہیں جس کی بنا ء پر طلبہ وقتی طورپر بورڈ اور دیگر امتحا نات میں اچھے نمبر اور پوزیشن تو حا صل کر لیتے ہیں لیکن شعور علم اور تفہیم علم سے محروم ہو جا تے ہیں ان کو اپنے مضامین کابنیادی فہم بھی نہیں ہو تا۔
اسکول ایک ایسی جگہ کا نا م ہے جہا ں زندگی نمو پا تی ہے جان ڈیوی ڈیموکریسی اینڈ ایجوکیشن میں رقم طراز ہے’مدر سے کا اہم کام یہ ہے کہ وہ اپنے ما حول کو سماجی ما حول کی بہ نسبت زیادہ سادہ اور واضح بنائے مو جودہ سماجی نظام اس قدر وسیع اور پیچیدہ ہے کہ بچہ اس کو پورے طور پر تو کیا جزوی طور پر بھی نہیں سمجھ سکتا۔اس لئے مدرسہ کو ان عنا صر کا انتخاب کر نا ہوگا جو تر بیت کے لئے خاص طور پر اہمیت رکھتے ہیں۔مدرسہ کا نصاب اس طر ح مر تب کرنا ہوگا جو تربیت کے لئے خاص طور پر اہمیت رکھتا ہو اور تمدنی زندگی کو سا دہ اور دلچسپ طر یقے سے پیش کر ے لیکن ہمارے اسکول طلبہ کی انفرادی صلاحیتوں کے فروغ اور ما حول سے مطابقت پیدا کر نے میں تقریبا ناکام دکھائی دیتے ہیں۔اسکولوں میں طلبہ کی خصوصی صلاحیتوں اور خوبیوں کو پر وان چڑھا نے کے لئے درکارعوامل کا فقدان پایا جا تا ہے۔اسکولوں کی کارگردگی کامعمولی علم رکھنے والا شخص بھی بلا کسی تذبذب و تامل کے کہہ سکتا ہے کہ مدارس بچوں میں صلاحیتوں کو ابھارنے کے بجائے ان کو فنا ء کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ بقول ایچ ۔جی ویلز ‘ ا گر تم محسوس کر نا چا ہتے ہو کہ پوری کی پوری نسلیں کس طرح بر بادی کی طرف دوڑ ری چلی جا رہی ہیں تو تم کسی پرائیوٹ اسکول کا ذرا غور سے معائنہ کر لو۔
آج بھی مسلما نوں کی زبوں حالی کے اسباب میں تعلیم سے غفلت کو اہم گردانا جا تا ہے۔ہم اپنے مر ض کی تشخیص میں تو کا میا ب ہو گئے ہیں لیکن ڈھونگی اطباء(تاجران تعلیم) کے ہا تھوں اپنی سادہ لوحی کے سبب ایک کھلونا بن چکے ہیں۔یہ تاجران تعلیم اخلاص اور تعمیرملت کے جذبہ سے عار ی ہیں۔ان کا مقصد تعلیمی تجارت ہے ااوریہ تعلیم کے نام پر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔اگر ان کی کوائف پرنظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ نہ صرف تعلیم کے مقصد سے نا آشنا ہیں بلکہ تعلیم سے بھی نا بلد ہیں۔ مر ض کی تشخیص کے با وجود امت مسلمہ اپنے تعلیمی استحصال کی وجہ سے علاج میں نا کام ہو گئی ہے۔ ہمارے مدارس اس معیار کے حا مل نہیں ہیں کہجن کی بنیادوں پر ہم اپنے کل (مستقبل ) کو تعمیر کر سکیں۔مدارس کے وقار، عظمت اور معیار کی بحالی کے لئے جامع حکمت عملی ،نئے طریقہ کار اورجدید تعلیمی جحانات کی تشکیل بے حد ضروری ہے۔ تعلیمی ما حول کی اصلاح کے لئے مثالی تعلیمی قیادت اور تحریک کی ضرورت ہے۔ایک اچھا اسکول انفرادی و سما جی نشو و نما کے لئے نہ صرف ساز گار ما حول فرا ہم کر تا ہے بلکہ صحت مند ما حول کے فر وغ میں رہنمائی بھی کر تا ہے۔ بچوں میں بہترین عادات ،خصائل،مہا رتوں ،استعدادوں،علوم ،دلچسپیوں اور ذہنی رویوں کی بناء ڈالتا ہے جو زندگی کے لئے نہایت مفید اور قیمتی ہو تے ہیں۔بچوں میں احتساب کے اعلی اقدار کو جا گزیں کر تا ہے جس سے بچے اپنے کردار کی از خود جا نچ کر تے ہیں۔ایک مثالی اسکول اپنی ذمہ داریوں سے اسی وقت عہدہ براء ہو سکتا ہے جب و ہ طلباء میں مختلف تعلیمی سرگرمیوں اور افعال کی مکمل انجام دہی کی مو ثر عادت ڈالیں۔جو اسکول ان مقاصد کے حصول میں اپنی قوتوں کو صرف کرتا ہے اس کے طلباء میں وہ توانائی بدرجہ اتم نظر آتیہے ۔ طلباء اقدار کی پا سداری و دلجمعی کے سبب علم، ذہانت اور مہارتوں کا مرقع بن جاتے ہیں۔ایک عمدہ اسکول تعلیمی مسرت کا سر چشمہ ہو تا ہے اور اس سے پھوٹنے والا ہر سوتہ ہر پل ہر گھڑی طلباء کو احساس دلاتا ہے کہ وہ صرف وہی کا م کر یں جنھیں ان کو کر نا ہے اور اسی طرح سے کر یں جس طرح سے انھیں انجام دینا ہے۔
کسی تعلیمی ادارے کی سرگرمیوں کی رہبری ونگرانی، انسانی و مادی وسائل کے موثر استعمال اورمبسوط منصوبہ بندی کے لئے انتظامیہ کوسخت محنت کی ضرورت ہو تی ہے۔تعلیم و تربیت کے مناسب بندو بست میں مدارس کومتعدد دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہمارے مدارس میں جہاں موزوں اساتذہ کا عدم وجود قابل تشویش پہلو ہے وہیں بہت کم بر سر خدمت اساتذہ فن تعلیم و تر بیت سے آگاہ ہیں۔ مدرسہ کو قوم و ملت کی تعمیر کا شرف حا صل ہے۔کسی بھی اسکول کی کار گردگی کا جا ئزہ لینے کے لئے سب سے پہلے اس کے معیار پر توجہ کی جا تی ہے معیار تعلیم کو اطمینان بخش بنانے میں اسکول کے اسا تذہ،انتظامیہ اور طلباء کا کلیدی کردار ہوتا ہے لیکن ان تمام کو سازگار ماحول اور وسائل کی فراہمی کی ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔اگر کسی اسکول کا تعلیمی معیار پست ہوگا تو اسکول انتظامیہ کو ہی اس کا قصودار ما نا جا ئے گا۔کیونکہ انتظامیہ ہی اساتذہ کے انتخاب کاذمہ دار ہو تاہے اور نصاب کی تدوین اور تدریس کے لائحہ عمل کو مرتب کر نااور تعلیمی مقاصد کاتعین بھی انتظامیہ کا کام ہو تا ہے۔سماج میں نمایا ں مقام و مر تبہ کے طلب گار تعلیمی ادارے کا عام اداروں کے معیار سے بلند ہو نا ضروری ہے۔ادارے کی کامیابی انتظامیہ کے اخلاص اور نیک نیتی پر منحصر ہوتی ہے۔اگر اسکول کا انتظامیہ اخلاص سے عاری ہوگا تو اس ادارے کی نیک نا می اور شہرت متا ثر ہو گی۔اسکول کے اپنے مقاصد اور نظریات کا تعین بے حد ضروری ہے۔اولیائے طلبہ کے لئے اسکولوں کے اسا سی نظریات و مقاصد سے آگاہی اہم ہو تی ہے جس سے وہ اسکول کے معیار کا اندازہ قائم کر سکتے ہیں۔عوام مدارس کے بلند بانگ دعوؤں اور نظریات سے مر عوب ہو جا تے ہیں۔اولیائے طلبہ بچوں کو مدارس میں داخل کروانے سے قبل ان تعلیمی اداروں کی شفافیت سے متعلق معلومات حا صل کر لیں ان کے دلفریب گمراہ کن اشتہارات کا وہ شکار نہ ہوں۔اسکول انتظامیہ کے ا پنے نظریات اور مقاصد کے حصول میں نیک نیتی کاجائزہ لیں تاکہ وہ کسی تعلیمی استحصال کا شکار نہ ہو نے پائیں کیو نکہ قوم اب مزید دھوکوں کی متحمل نہیں ہے اس طر ح کا استحصال قوم کو مزید پستی اور ذلت کی تاریکیوں میں غرق کر دے گا۔تعلیمی مقاصد کے تعین میں ناکامی کے با عث تعلیمی ادارے متضاد سمت میں گردش کر رہے ہیں ہے اور اس بے معنی گردش میں تعلیم و تربیت کا جو ہر خا ص فوت ہو کر رہ گیا ہے۔بے مقصد تعلیمی اداروں میں بچوں کو داخل کر وانا ان کو ہلاک کر نے کے مترادف ہے۔ بے مقصد ادارے وقت اور پیسے کے زیاں کا سبب بنے ہیں۔
ایک آئیڈیل (مثالی) مدرسے کے لئے لازمی ہے کہ وہ اولیائے طلبہ،طلبہ اور صالح سماجی کاز سے جوڑے افراد سے ربط و ضبط قائم رکھیں۔ مدرسہ کی تر قی و طلبہ کی تعمیر و تربیت میں ان کا تعاون حا صل کریں۔ تعمیر ی کا ز کے لئے ایک تشویش کا سبب یہ بھی ہے کہ عوا می تعاون انھیں اداروں کو حا صل ہو تا ہے جن کی سما ج میں بہتر ساکھ ہے لیکن یہ نہایت ضروری ہے کہ اخلاص سے تعلیمی کا ز میں مصروف نو تشکیل شدہ چھوٹے اداروں کی بقاء اور ملی تعمیر کے لئے سماج اور عوام ان کا سہارا بنیں۔ مدرسے کی عمارت تعلیمی ما حول میں اہمیت کی حامل ہو تی ہے۔لیکن عمارت کا پختہ ہو نا یا عالیشان ہو نا اہم نہیں ہو تا۔مدرسہ عمارت سے نہیں بلکہ اساتذہ اور انتظامیہ کی سعی و کا وش سے بنتا ہے۔لیکن یہ ضروری ہے کہ مدرسے کی عما رت طلبہ کے تعلیمی ضروریا ت کی تکمیل کر ے۔روشن ،ہو ادار کمرہء جماعت ،صاف پینے کے پا نی کی سہولت، پیشاب ،پا خانے ، پانی اور صفائی کا منا سب بندوبست ضروری ہے۔مدرسے کی کار کردگی کوبہتر بنانے کے لئے تعلیمی ساز و سامان ،سائنسی آلات اور مناسب فرنیچر کی بھی ضرورت در پیش ہو تی ہے۔ طلبہ اور اساتذہ کے استفادے کے لئے لائبریری لازمی ہوتی ہے ۔روز مرہ کے واقعات سے طلبہ کی آگہی کی خاطر دارالمطالعہ میں اخبارات ،رسائل اور جرائد کا ہونا ضروری ہے۔نصابی ،ہم نصابی سرگرمیوں کے علاوہ بچوں کی صلاحیتوں کے فر وغ کے لئے دیگر سرگرمیوں کی انجام دہی کے لئے ضروری ساز و سامان کی فرا ہمی بھی لازمی تصور کی جا تی ہے۔ذہنی نشوو نما کے علا وہ جسمانی صحت و نشوونما کے لئے کھیل کود کا انتظام بھی تعلیمی دلچسپیوں کو فروغ دینے میں اہم کردار انجام دیتا ہے۔کھیل کو د کے لئے کھلے میدان کا ہونا اور اگر زمین کی قلت ہو تو اندرون خانہ کھیلے جا نے والے کھیلوں کے سامان و جگہ کی فر اہمی ضروری ہوتی ہے۔ اسکول انتظامیہ اگر نظم و ضبط کا عا دی ہو تو لازما اس کے ملازمین اور طلباء بھی نظم و ضبط کے پا بند ہو ں گے۔وقت کی پا بند ی صرف طلبہ ہی نہیں بلکہ ادارے کے ہر فر د کے لئے لازمی ہو تی ہے۔
مدرسہ اور معاشر ے کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہو تا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مدرسے کا قیام صرف اور صرف علم کے حصول کے لئے کیا گیا تھا لیکن تغیرات زمانہ کے سا تھ یہ مقصد تعلیم کی تجارتی منڈیوں میں گم ہو گیا۔سماج اور مدرسے کی تر قی و تنزلی ایک دوسرے پر منحصر ہو تی ہے۔سماج کا اولین فرض ہے کہ وہ مدارس کا قیام عمل میں لائے اور مدارس کا بھی یہ فریضہ ہے کہ وہ سما ج کے تقاضوں کی تکمیل کو ملحوظ خاطر رکھے۔لیکن یہ ایک افسوس نا ک حقیقت ہے کہ آج سما ج اور اسکول کے بیچ ایک نا قابل عبور گہر ی کھائی حائل ہو چکی ہے جس کی بنا مدرسہ کا ما حول بچے کی تعلیم و تربیت کے لئے سازگارنہیں رہا ۔اسکولوں میں صرف بچوں کو کرم کتابی بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بچے سما ج میں کوئی فعال کردار انجام دینے سے قاصر ہیں۔مدارس کوسما ج کی ضرورتوں کا کو ئی خیال نہیں رہا ۔مدرسے کو سماج کا ایک کارکرد جزو بنانے کے لئے مدر سے اور سماج کے بیچ حائل فاصلوں کو پاٹنا ہو گا۔اور اس فاصلہ کو طے کر نے میں نصاب کا انتخاب اہم ہے جو سماجی تقاضوں کی تکمیل میں معاون و مددگار ہو تا ہے۔تدوین نصاب میں پیچیدگیوں اور مشکلات کو دور کرتے ہوئے تعلیم برائے مسرت کے جذبے کو جگہ دی جائے۔مدرسے کے معیا ر اور جواب دہی کے لئے انتظامی و تعلیمی امور کی فیصلہ سازی میں اولیائے طلبہ اور سماج کے دیانت دار معتبر افراد کو شامل کیا جائے۔عملی زندگی سے مدرسے کو قریب کر نے والے عملی پہلو پر خصوصی توجہ دی جائے۔والدین اور اساتذہ میں ذہنی ہم آہنگی کے لئے پیرنٹ ٹیچر میٹ کا اہتمام کیا جائے۔اسکول معاشرے کی توقعات کا مر کزہوتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں مدارس کی تو بہتات ہے لیکن فرا ئض کی انجام دہی میں اکثر کو تا ہی کا شکار ہیں اور جب یہ اپنی کو تا ہی کا تدارک کر لیں گے تو ایک مثبت تبدیلی کے نقیب اور اعلی قوم پیداکرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔قوم و ملت کی ترقی و تعمیر کا فریضہ بھی اسکول کے کندھوں پر ہوتا ہے۔اس دور پر آشوب میں صرف مدارس سے اصلاح حال کی امید یں وابستہ ہیں۔ ملت کے وقار کی بحالی کے لیے مدارس اپنی سر گر میوں کو تیز تر کردیں۔ تعلیمی ادارے محدود وسائل کے با عث متعدد مسائل اور دشوااریوں کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن ان اداروں کا انتظام و انصرام اگراو لو العزم و اعلی ہمت افراد کے ہا تھوں سونپ دیا جا ئے تو یقیناًملت کے سنہرے دن لوٹ سکتے ہیں۔
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...