روزہ ۔۔۔چند باتیں

روزہ اور بیمار کی تشویش
رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی مختلف امراض میں مبتلا مریضوں میں تشویش پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ روزہ کیسے رکھیں گے، ظاہر ہے کہ ۱۶گھنٹوں تک کسی مرض میں مبتلا مریض کا بغیر دوا اور غذا کے گزارا مشکل ہوجاتا ہے اس کا جواب امراض کی نوعیت کے اعتبار سے دینے کی کوشش کی گئی ہے تاہم یہ مریض کی تشویش خود اپنی جگہ بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ایک تو یہ ایمان کی علامت ہے،دوسرے روزوں کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں اس کا احساس و شعور ہے، اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نزدیک نیت کی بڑی اہمیت ہے کوئی بندہ مومن اگر رمضان کے روزوں اور اس کی جملہ عبادات کے بارے میں فکر مند ہوتا ہے تو یہ اس کے اللہ سے تعلق کی دلیل ہے۔
تشویش کا ازالہ کیسے ممکن ہے؟
اصل اوراول بات یہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ بڑا رحمن و رحیم ہے اس نے دین میں بڑی آسانیاں فراہم کی ہیں۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔‘‘ (البقرۃ) گویا سفر کے دوران اور مرض کی تشویش میں روزہ رکھنے کی استطاعت نہ ہو تو روزہ چھوڑا جاسکتا ہے اور دوسرے دنوں میں اس کی قضا ادا کی جاسکتی ہے۔
دوم یہ کہ روزے رکھنا عین توفیق خداوندی ہے۔ انسان نہایت کمزور ہے،وہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اگر وہ صحت مند بھی ہے تو ضرور روزے مکمل کرسکے گا۔ یہ تو اللہ کا خاص فضل و کرم ہے کہ وہ روزے میں بھوک و پیاس برداشت کرنے کی قدرت اور طاقت عطا فرماتا ہے ہمارا عام دنوں کا مشاہدہ ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھوک و پیاس کی شدت برداشت نہیں کرسکتے کجا کہ رمضان میں 15/16 گھنٹے صبر کے ساتھ یہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں اگر ایسا ہے تو یہ محض اللہ کی توفیق اور اس کی خاص رحمت ہے۔
سوم یہ کہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اللہ سے صحت مندوں اور مریضوں سب کو دُعا کرنا چاہیے کہ اللہ پاک روزہ رکھنے کی استطاعت عطا فرمائے۔ اللہ کی بارگاہ میں اللہ کے لیے روزے رکھنے کی دعا ضرور شرف قبولیت حاصل کرے گی تاہم ان تدابیر اور ہدایت پر بھی عمل کرنا چاہیے جو معالج یا ماہر تجویز کرے۔ مثلاً یہی کہ سحری میں اس غذا اور دوا کی پابندی کرے جس سے پورے دن روزہ رکھنے میں مشکلات پیش نہ آئیں۔ ان تدابیر پر عمل سے روزہ آسان ہوسکتا ہے۔
*۔۔۔ سحر خیزی کی عادت کو حضورصلی اللہ علیہ و سلم نے پسند فرمایا، سونے کے بارے میں یہ ہدایت فرمائی کہ جو جسم کو آرام پہنچاسکے، زیادہ سونا سستی اور کاہلی کی علامت ہے۔ رات جلد سونے اور صبح جلد اٹھنے کی عادت ڈالی جائے، صبح اُٹھ کر خدا کی عبادت اور بندگی سے دن کا آغاز کیا جائے۔ عشاء کے بعد بلاضرورت جاگنے اور گفتگو کی ممانعت فرمائی۔
*۔۔۔ خواہشات نفسانی کا اسیر اور غلام، ذہنی انتشار اور پست حوصلگی کا باعث ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ:
’’آنکھوں کا زنا بد نگاہی ہے اور زبان کا زنا بے حیائی کی گفتگو ہے نفس تقاضا کرتا ہے اور شرم گاہ یا تو اس کی تائید کردیتی ہے یا تکذیب۔‘‘
*۔۔۔ ہر کام میں اعتدال، توازن اور سادگی جسم اور مزاج پر اثر انداز ہوتا ہے حضورصلی اللہ علیہ و سلم نے ’’سادہ زندگی گزارنے کو ایمان کی علامت قرار دیا‘‘ (ابو داؤد)
*۔۔۔ بسیار خوری صحت کو برباد کردیتی ہے۔ بھوک کے بغیر اور ضرورت سے زیادہ کھانا مختلف عوارض کا سبب ہے اس لیے کھانا ہمیشہ وقت پر کھایئے۔ ہر وقت کھاتے رہنے سے گریز کیجئے ۔کھانا بھوک لگنے پر ہی کھائیے اور جب کچھ بھوک باقی ہو تو اُٹھ جایئے ۔بھوک سے زیادہ ہر گز مت کھایئے۔
حضورصلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔‘‘
*۔۔۔ دانتوں کی گندگی پیٹ میں جاکر مختلف امراض پیدا کرتی ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے وضو کا پانی اور مسواک ہر وقت تیار رکھتے تھے جس وقت بھی خدا کا حکم ہوتا آپ صلی اللہ علیہ و سلم اُٹھ بیٹھتے اور مسواک کرتے پھر وضو کرکے نماز ادا فرماتے۔

حصہ
mm
پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر ملک کے معروف نیورولوجسٹ ہیں جو آغا خان ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔صحت کے حوالے ملکی و بین الاقوامی جرائد میں ان کے تحقیقی مقالے شایع ہوتے رہتے ہیں

جواب چھوڑ دیں