بلوچستان کی زیادہ تر آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ آج بھی اپنی بے بسی پر روتا ہے کہ اس کے بچے تعلیم سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ دو وقت کی روٹی تک کو ترستے ہیں۔ لیکن سات دہائیوں کے بعد بھی اِس صوبے کی حالت نہیں بدلی حالانکہ یہ سر زمین تو سونے چاندی اور دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔
یہاں گوادر پورٹ بنائی گئی ہے، یہاں پہاڑوں کو تراش کر مکران کوسٹل ہائی وے بھی بنائی گئی، یہاں دن رات محنت کرکے ونگو چھڑائی کاٹ کر خضدار رتودیرو سی پیک روٹ بنایا گیا ہے، اور یہاں دن رات ہوائی جہازوں کی پروازیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ ایک طرف دیکھا جائے تو بلوچستان ترقی کررہا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں کے نوجوان اب بھی روتے رہتے ہیں کہ تعلیم نہیں، سماجی اور معاشی مسائل جوں کے توں ہیں۔ کہنے کو تو صوبہ بلوچستان سونے کی چڑیا ہے،لیکن اس میں بسنے والے لوگوں کو ایسے آثار نظر نہیں آتے۔ کوئی عینک تو لادیجیے، کوئی منطق تو سمجھادے کہ صوبہ ترقی پر مائل ہے۔ افسوس کہ بلوچستان پر تنقید کرنے والوں کے پاس نہ تو کوئی ایسی عینک ہے اور نہ ہی کوئی منطق کہ یہاں بسنے والوں کی بینائی لوٹائے۔ انہیں تو ہر کہیں مایوسی نظر آتی ہے۔ اسی مایوس کے کفر کو بلوچستان کے نوجوانوں نے کچھ اس طرح پیش کیا:
احسان علی تنیو نے نے بی اے تک ڈگریاں لے رکھی ہیں، وہ ایل سی ایس میں کام کرتا ہے اور دن رات لفافے اٹھا کر لوگوں کے گھروں تک پہنچاتا ہے۔ احسان علی تنیو نے بتایا کہ بلوچستان میں محکمہ آبپاشی تباہ ہے، محکمہ صحت تباہ ہے، محکمہ تعلیم کا کوئی پرسان حال نہیں، لوگوں کےلیے پینے کا پانی دستیاب نہیں، سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہیں۔ بندہ اپنی داستان غم سنائے تو کسے سنائے۔ ہم بلوچستان کے باسی سی پیک کے خلاف نہیں مگر ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان اور بلوچ قوم ترقی کریں، فنڈز ٹھیک جگہ پر استعمال ہوں اور بلوچستان کا استحصال نہ ہو۔
صوبائی حکومت روزانہ امن وامان کی صورت حال میں بہتری کے دعوے کررہی ہے۔ یہ بہتری کہاں ہے؟ حتی کہ صوبے کے وفاقی محکموں میں کوٹے پر 50 فیصد جعلی ڈومیسائل پر تعینات دوسروں صوبوں کے لوگوں کے ذمہ دار چیف سیکرٹری، ڈی ایم جی و پی اے ایس گروپ کے کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور پولیس افسران ہیں۔ ہمارے بعض سردار صاحبان بھی اس عمل میں ذاتی مفادات کے حصول کےلیے ان افسروں کے ساتھ ذمہ دار ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں اور قومی وحدتوں پر اپیکس کمیٹیاں مسلط کی گئیں جو پشتون بلوچ صوبے میں منی مارشل لاء کی مانند ہیں۔
قربان علی جو مقامی اخبار فروش ہے، اس نے بھی پیچلرز تک ڈگریاں لے رکھی ہیں اور مقامی اخبار میں نیوز رپورٹر بھی ہے۔ اس نے بتایا کہ بنیادی طور پر بلوچستان کا حقیقی پریس محکوم اور دباؤ کا شکار ہے۔ بلوچستان کا صحافی وہ مظلوم طبقہ ہے جو اپنے قلم سے دوستوں سے زیادہ دشمن پیدا کرتا ہے۔ پولیس گردی کے خلاف لکھیں تو پولیس دشمن، جرائم پیشہ افراد کے خلاف آواز اٹھائیں تو وہ دشمن، کرپشن کو بے نقاب کریں تو گولی کا شکار، حکمرانوں پر تنقید کریں تو سازش، حکمرانوں کی تعریف کریں تو لفافہ صحافی، غرض اپنی جان ہر وقت ہتھیلی پر ہوتی ہے۔ صحافی برادری غیر محفوظ ہونے کے باوجود اپنا کام پوری ایمانداری سے کر رہی ہے اور عوام کو ہر خبر سے باخبر رکھتی ہے۔ کسی کو برا لگتا ہے تو لگا کرے، کسی کو ڈر لگتا ہے تو لگنے دو، میں چپ نہیں رہ سکتا، میں لکھوں گا، چاہے میرا ہاتھ قلم کر دو۔ کیا ہوا صبح سے شام تک اخبارات بیچتا ہوں؟ یہ میری روزی روٹی ہے۔ رات کو خبر بنا کر بھیجتا ہو تو ساری تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے۔ اللہ پاکستان کو اور پاکستان کے صحافیوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، آمین۔
شاہ بخش ایک مقامی کالج میں طالب علم اور سماجی کارکن بھی ہے، اس نے بتایا کہ بلوچستان میں اسکالر شپ کی بندر بانٹ نے غریب طلبا کا حق مار کر من پسند لوگوں کو دے دیا ہے جس سے حق دار اور علاقے کے لائق و قابل غریب طلبا اسکالر شپ سے محروم رہ گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے غریب طلبا تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ لاکھوں کی مد میں دی جانی والی رقم سے کثیر تعداد میں غریب طلبا تعلیم کے زیور سے منور ہو سکتے تھے۔ مگر گزشتہ چار سال میں کروڑوں روپے کی اسکالر شپس کہاں گئیں؟ کس طرح بانٹی گئیں؟ کیا طریقہ کار اپنایا گیا؟ جنہیں دی گئیں ان کی تعلیمی قابلیت اور اہلیت کیا تھی؟ کچھ پتہ نہیں۔ بس دستور کو بھرنے اور قانون کو چپ کرانے کےلیے نام ڈال کر کیش نکلوائے گے ہیں۔ اس عمل کی تحقیقات کروائی جائیں تو عام قابل اسٹوڈنٹس کو شاید انصاف ملے۔ سوال تو بنتا ہے کہ ہمارے مستقبل، ہماری نسلوں کے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے؟ ہم کس طرف جارہے ہیں؟ ہم جنہیں اعلی عہدوں تک لاتے ہیں وہ ہمارے ساتھ اس طرح کا سلوک کیوں کرتے ہیں؟
گل بلوچ نے تعلیم میٹرک تک حاصل کی اور اپنے علاقے میں سوشل ورکر کا کام شروع کردیا۔ وہ آج کل حب چوکی کے علاقے میں رہائش پذیر ہے۔ اس نے بتایا کہ بلوچستان کو سونے کی نہیں چاندی کی نہیں بلکہ پینے کے پانی کی تلاش ہے۔ جی ہاں! پانی کی تلاش۔ منرل واٹر کی بھی نہیں بلکہ سادہ پانی کی تلاش ہے جو انسانوں اور جانوروں کے کام آسکے۔ آج کل ہم بلوچستان کے عوام پانی کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ حکمرانو! تمہیں اللہ اٹھالے اور تمہاری جگہ ایسے انسان دوست حکمران لے آئے جن کے آف شور اکاؤنٹس نہ ہوں اور نہ وہ دوہری شہریت رکھتے ہوں اور نہ وہ کرپٹ ہوں۔ اپنے رب سے ڈرنے والے ہوں اور اقتدار کو اپنے کاروبار کی وسعت کا ذریعہ بنانے والے نہ ہوں۔ آج پاکستان ستر سال کا ہوگیا ہے۔ کتنی امیدیں پوری ہوئیں اور کس کی؟ یہ سوال پوچھنا تو بنتا ہے۔ بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور معدنیات سے مالامال ہے۔ شاید یہی اس کا قصور رہا ہے۔ بلوچستان کا ایک بڑا حصہ باقی پاکستانیوں کےلیے ناقابل رسائی ہے۔ جو ترقی کا کام ہورہا ہے وہ زیادہ تر صرف پشتون بیلٹ میں ہے جبکہ بیشتر حصے میں فوج نے داخلہ بند کر رکھا ہے۔ عام پاکستانی بلوچستان کے بارے کتنا جانتا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔
غلام دستگیر ایک مقامی طالب علم اور سوشل ورکرر بھی ہے۔ اس نے بتایا کہ بلوچستان کی ترقی و خوشحالی پر کروڑوں روپے خر چ کرنے کے باوجود بلوچستان کی حالت بہتر نہ ہوسکی۔ بلوچستان کے مکین بنیادی سہولیات سے صدیوں سے محروم چلے آرہے ہیں اور کئی شہروں میں پینے کے صاف پانی، اسکول، روڑ اور اسپتال سمیت دیگر سہولیات تک موجود نہیں۔ بلوچستان کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھنا بلوچستان کے ساتھ ناانصافی ہے۔ جبکہ اوستہ محمد کو اگرچہ صوبہ بلوچستان کے بڑے شہر کا درجہ مل گیا ہے لیکن اس شہر کا کوئی وارث نہ بنا۔ افسوسناک خبر ہے کہ آج بھی مقامی آبادی پینے کے پانی اور سڑکوں جیسی نعمتوں سے بھی محروم ہے جبکہ شہر کے ایسے بھی علاقے ہیں جہاں کئی کالونیوں میں پانی کا وجود تک نہیں۔ اس نے کہا کہ شہر کے مسائل حل کرنے اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے انہیں جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا۔ غلام دستگیر کے مطابق وہ اوستہ محمد کے مکینوں سے ہونے والی زیادتیاں کبھی برداشت نہیں کریں گے، اور اعلی حکام سے مطالبہ کیا کہ مقامی مکینوں کو درپیش مسائل سے نجات دلائیں تاکہ شہریوں کی مشکلا ت کم ہوسکیں ویسے بھی تباہی بلوچستان ﻣﻘﺪﺭ ﮨﻮگئی ہے۔ ﺍﺏ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮐﻢ ﺳﮯ ﮐﻢ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﺍﻭﺭ ﮨﺪﻑ ﯾﮧ ﮨﮯ کہ بلوچستان کے ﮨﺮ ﻓﺮﺩ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﺍﭼﮭﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ گزارنے ﮐﮯ ﻟﻮﺍﺯﻣﺎﺕ ﮐﯽ ﺿﻤﺎﻧﺖ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ اور ان کے جائز مطالبات مان لیے جائیں۔
شاکر اقبال سیال ایک سماجی کارکن ہیں، انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے لوگ وہ عظیم قوم ہیں جس نے صدیوں اپنے حقوق کی جنگ انگریز حکومت کے خلاف لڑی تھی اور ان سے حقوق چھین کر سکون کیا مگر آج بلوچستان مسائل کی جڑ بن گیا ہے۔ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺗﻤﺎﻡ ﺣﻘﻮﻕ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭات ﮨﻢ ﺳﮯ ﭼﮭﯿﻨﮯ ﺟﺎﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﭘﯿﺴﮧ ﮐﻤﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﯿﻦ ﺍﻻﻗﻮﺍﻣﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﮐﮯ ﻏﻨﮉﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻣﺤﺾ ﻣﺎﻝ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﺭﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﯽ حیثیت ﻧﮩﯿﮟ رکھتی۔ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗھ انسانی حقوق کی تمام خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ یہاں کے لوگ دھماکوں میں مررہے ہیں، حکمران سو رہے ہیں۔ بقول میر حاصل بزنجو، ہمارے پاس اقتدار تو ہے مگر اختیار نہیں۔ آخر یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ ﮐﯿﺎ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻗﺴﻤﺖ ایسی ہی ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ؟
ﮐﯿﺎ ہم اس ﻗﻮﻡ کے باسی نہیں؟ کیا اب ہم صرف ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﮨﯽ ﺭﮦ گئے ﮨیں؟ ﻧﮩﯿﮟ! ﮨﺮﮔﺰ ﻧﮩﯿﮟ! ﺍﻥ ﮔﻨﺖ ﻋﻮﺍﻡ ﻧﻮﮐﺮﯾﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻓﺴﺮ ﺷﺎﮨﯽ، ﺟﺲ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺣﺎﻻﺕ و ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﮐﻮ ﺻﺤﯿﺢ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺳﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺍﻥ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﮐﻮ ﭼﮭﭙﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮨﮯ۔
آج ہمارے حالات نائیجیریا سے بھی بدتر ہیں۔ ہمارے کسان فصلوں کو ترس رہے ہیں۔ ہمارے اسکول بچوں کو تعلیم دینے کےلیے ترس رہے ہیں۔ ہمارے اسپتال مختلف بیماریوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ہماری سڑکوں پر جگہ جگہ شگاف ہیں۔ ہماری عورتیں سکون بھری ایک سانس لینے کو ترس رہی ہیں۔ ہمارے نوجوان تعلیم جیسے زیور کے بجائے غنڈہ گردی اور چوری کرنے پر مجبور ہیں۔ سکون بھرا سورج یہاں کبھی نہیں ابھرتا۔ یہ ہیں میرا پیارا دیس بلوچستان اور یہی ہیں میرے دیس کے باسیوں کے احوال۔