روزے رکھے، مگر تقوٰی پیدا نہ ہوا ؛ کیوں ؟

روزے کا ماحصل و مقصد و حکمت’’تقویٰ‘‘ ہے،بلکہ ہر عبادت ہی کا مطلوب’’تقویٰ‘‘ہے!۔
جس عبادت کا ماحصل تقوی نہ ہو وہ عبادت ”بانجھ” عبادت ہوتی ہے اور بغیر روح کے محض ایک کھوکھلا ڈھانچہ۔۔!!
روزہ کے بارے میں اللہ تعالی قرآنِ مجید میں باقاعدہ واضح فرماتا ہے کہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو باقاعدہ آپ میں تقوٰی پیدا کرتی ہے ، روزہ باقاعدہ ایک مشق کرواتا ہے تاکہ تقوی پیدا ہو ، وہ مشق کیا مشق ہوتی ہے ؟
آئیے ہم اِس پر بات کرتے ہیں !
ہمارا عمومی خیال ہے کہ ”نیکیوں سے” تقوی پیدا ہوتا ہے ، جتنی نیکیاں اور جتنی عبادت کی جائے اتنا زیادہ تقوی پیدا ہوگا ! اور اِس میں کوئی شک بھی نہیں۔ لیکن یہ تقوے کا ایک نامکمل فہم ہے ،
درحقیقت تقوٰی ”گناہوں کو ترک کرنے سے” پیدا ہوتا ہے نا کہ محض نیکیوں سے ،،۔چنانچہ آپ دیکھتے ہیں بعض مسلمان بہت نیکیاں کرتے ہیں ، اچھے بھلے نمازی ، روزہ دار اور حاجی۔۔۔! لیکن وہ گناہوں سے نہیں بچتے ، نماز و روزہ و حج کے باوجود وہ ویسے کے ویسے رہتے ہیں ، ان کے اخلاق نہیں بدلتے ، حقوق العباد کی ادائیگی میں ، کردار و سلوک میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔۔!
تو یہی وجہ ہے کہ وہ عبادات و نیکیوں کا تو اہتمام رکھتے ہیں لیکن خود کو منکرات و برائیوں و گناہوں سے دور رکھنے کیلئے کوئی محنت نہیں کرتے۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ رمضان میں بہت لوگوں میں تقوی اس لئے پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ وہ پورا مہینہ ”گناہوں سے ، منکرات سے خود کو مکمل بچا کر” رکھتے ہیں۔وگرنہ بھوکا پیاسا رہنے سے تقوٰی آتا ہے اور نہ ہی محض نیکیوں سے تقوٰی حاصل ہوتا ہے ۔
لہٰذا رمضان نیکیوں کی،عبادات کی عادت پیدا کرنے کیساتھ ساتھ ”گناہوں و برائیوں و منکرات کی عادتیں چھْڑوا دیتا ہے!
اور یہی اصل تقوٰی ہے کہ مسلمان اپنی زندگی گناہوں سے بچ بچ کر انتہائی احتیاط سے جئیے۔
(جیسا کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تقوٰی سمجھاتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ تقوی یہ ہے کہ کوئی خاردار جھاڑیوں سے اپنے کپڑے بچا بچا کر گزرے)
جن چیزوں سے روکا ہے انسان ان چیزوں کو ہمیشہ کیلئے ترک کردے ، بنیادی طور پر یہی مقصد ہے روزے کا۔۔۔!
خوب یاد رہے!۔
تقوٰی محض بہت بہت نیکیوں اور زیادہ سے زیادہ عبادات کا نام نہیں ، تقوٰی نام ہے اللہ رسول کی منع کردہ چیزوں سے باز رہنے کا ۔۔۔۔، روزہ دراصل اسی چیز کی مشق کرواتا ہے!۔دوسری بات یہ ہے کہ ایک ایسی ریاست جو لوگوں میں تقوٰی و ایمان پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتی وہ ریاست درحقیقت غیر شرعی و غیر اسلامی ریاست ہوتی ہے ،،۔
مطلب یہ کہ ؛
تقوٰی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیے بنا ، وہ چیزیں جو آپ میں تقوٰی پیدا نہیں ہونے دیتیں ، بلکہ وہ چیزیں جو لوگوں میں موجود تقوٰی کو ختم کرڈالتی ہیں، اْن کا سدّباب کیے بنا۔۔۔۔۔ معاشروں میں عبادات اپنا رنگ نہیں لاتیں!۔
جدید سرمایہ دارانہ ریاستیں ایسی ریاستیں ہیں جو باقاعدہ شیطانیت پھیلانے کا کام کرتی ہیں ، نفس کو بھڑکانے اور بھڑکائے رکھنے کا مکمل اہتمام و انتظام و انصرام ؛ ہر وقت اور ہر لمحہ موجود۔۔۔۔۔!
یہ میڈیائی نظام ، ایجوکیشن سسٹم ، یہ جمہوریت ، یہ استحصالی و سودی معیشت ، مارکیٹ سسٹم۔۔۔۔ یہ آپ میں تقوٰی پیدا کرتے ہیں یا یہ تقوی کا ستیاناس مارتے ہیں ؟؟؟
تقوٰی تو دورآپ روزے کو محفوظ تک نہیں رکھ پاتے،ہر چیز پر غیر محرم کی تصویر ، اسکول ، کالج ، یونی ورسٹی ، آفس ، ادارے ، ٹرانسپورٹ۔۔۔۔۔ روڈ پہ لگے ہوئے ایڈور ٹائزڈ فحش بورڈ۔۔۔۔ کہاں جائیں گے آپ بھاگ کر ؟
ہر جگہ سجی سنوری حسینائیں ہر وقت آپ کے سامنے ، آپ کے آس پاس۔۔۔!!
آپ اندازہ تو کریں ؟
شیطان بندھ جاتا ہے مگر شیطان کے ادارے اس کا کام جاری رکھتے ہیں ، اب فیکٹری کا مالک سر پہ ہو نہ ہو ، کام چلتا رہتا ہے !!
بینک اللہ رسول سے جنگ چھیڑے رکھتے ہیں !!
مارکیٹ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو بیچتی رہتی ہے !!
نت نئی ایجادات ، سامانِ تعیّْش کا سیلاب۔۔!!!
پھر لوگ پوچھتے ہیں ؛
مولانا صاحب اللہ نے تو کہا ہے کہ نماز ، روزے سے تقوی آتا ہے تو معاشروں میں تقوی کیوں نہیں ہے ؟
نفسا نفسی ،مارا ماری کیوں ہے ؟؟
اْن سے کہئے ، انہیں بتائیے ، انہیں سمجھائیے کہ ؛
اللہ بالکل سچ کہتا ہے ۔لیکن اْس کی ہر بات دینِ اسلام کو ”انفرادی و اجتماعی” بیک وقت ہر دو سطح پر اپنانے اور اختیار کرنے سے سمجھ میں آئے گی اور معاشروں میں عبادات ؛ تقوٰی و ایمان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے بعد اپنا اثر پیدا کریں گی !۔
اللہ سے دعا گو ہیں ہم !
اللہ ہماری محنتیں ، کاوشیں قبول فرمائے ،
اللہ ہمارے اضطرار و بے بسیوں کو خوب جاننے والا ہے اور وہ بڑا غفور رحیم ہے ، اللہ ایمان و تقوٰی کی جستجو میں موت دے۔ (آمین)

حصہ

جواب چھوڑ دیں