جاپان کو خودکشی کا وطن کہا جاتا ہے ، دوسری جانب سپر پاور ہونے کا دعوے دار امریکہ بھی جاپان سے کم نہیں اور امریکہ نے جاپان سمیت تمام ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جہاں ہر 1 لاکھ میں سے 14 افراد خودکشی کرنے لگے ہیں ، جن کی سالانہ تعداد 44 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ امریکہ کا ایک پل خودکشیوں کیلئے دنیا کا سب سے آئیڈیل مقام بن چکا ہے ، العربیہ کے مطابق حکومت اور مختلف غیر سرکاری تنظیموں کی تمام تر کوششوں کے باوجود امریکہ میں خودکشی کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔پہلے عموماً بڑی عمر کے افراد میں خودکشی کا رجحان پایا جاتا تھا اور اب بچے اور جوان بھی زندگی سے مایوس ہوکر موت کو گلے لگانے لگے ہیں ، today usکے مطابق انٹرنیٹ کا استعمال عام ہونے کے بعد امریکی بچے اور جوان معمولی معمولی باتوں پر اپنی زندگی سے جان چھڑانے کا سوچنے لگے ہیں ، ایک اجلاس میں ایسے واقعات کی نشاندہی کی گئی جن میں سکول کے بچوں نے خودکشی کی کوشش کی تھی ، ایک چلڈرن ہسپتال کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس خودکشی کی کوشش میں زخمی ہوئے بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ، اخبار کے مطابق 32 اسپتالوں کے ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ خودکشی کی کوشش کرنے والے بچوں کی عمریں 5 سے 17 سال کے درمیان ہیں ،۔
2014 میں 7 بچوں نے خودکشی کی تھی ، 2015 میں 17 اور 2016 میں یہ تعداد 27 ہوگئی۔۔!! رواں برس اخباری رپوٹوں کے مطابق 11 بچے ابھی تک خودکشی کر چکے ہیں ، جن میں 7 سالہ بچے جینری کا خود کو گولی مار کر قتل کرلینے کا لرزہ خیز معروف واقعہ بھی شامل ہے ، بچوں کی خودکشی پر تحقیق کرنے والے ادارے cdc کا کہنا ہے کہ 10 سے 14 سال کے بچوں کی خودکشیوں کی تعداد 2007 کے مقابلے میں 300 فیصد بڑھ چکی ہے ، ماہرین نے بچوں کی خودکشی کا بنیادی سبب انٹرنیٹ اور تعلیمی نظام قرار دیا ہے ، بچوں کے علاوہ بڑی عمر کے امریکیوں میں بھی خودکشی کی شرح نے سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں ، گزشتہ 30 برسوں میں اس شرح میں 64 فیصد اضافہ ہوا ہے ، جبکہ مردوں میں 42 فیصد اضافہ ہوا ہے ، رپورٹ کے مطابق عموماً دنیا بھر میں یہ تاثر عام ہے کہ امریکہ میں خوش حال قوم بستی ہے لیکن دنیا کی بدنصیب قوم جسے کہا جاتا ہے وہ بھی امریکی ہیں جو ترقی یافتہ تو کہلاسکتے ہیں لیکن خوشحال بالکل نہیں۔۔۔!
جن میں زندگی سے تنگ آکر موت کو گلے لگانے کا رجحان انتہا کو چھونے لگا ہے حتی کہ امریکی فوج میں بھی خودکشی کے بڑھتے ہوئے عنصر کو نہیں روکا جاسکا ، امریکہ میں خاندانی نظام کی تباہی ، ہم جنس پرستی ، منشیات ، انٹرنیٹ ، تعلیمی نظام اور مارگیج سسٹم کی سفاکی جیسے عوامل خودکشی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔
اس کے علاوہ امریکہ میں کینسر ، ہارٹ اٹیک ، سڑکوں کے حادثات وغیرہ ایسی وجوہات میں سب سے بڑھ کر خودکشی کی موت کا عنصر تیزی سے بڑھ رہا ہے ، امریکہ میں روزانہ اوسطاً 120 افراد خودکشی کرتے ہیں ، ہر لاکھ میں سے 14 افراد کی موت کا سبب خودکشی ہوتی ہے ۔
امریکیوں کو خودکشی سے بچانے کیلئے متحرک ادارہ ’’امریکن فاؤنڈیشن فار سوسائیڈ پریونشن’’ کا کہنا ہے کہ امریکہ میں کالوں کی نسبت گورے زیادہ خودکشی کرتے ہیں ، درمیانی عمر کے امریکیوں میں سے مردوں کی شرح زیادہ ہے ، امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسکو میں واقع مشہور پل ’’گولڈن گیٹ بریج’’ ہے ، جہاں سالانہ پچاس کے قریب افراد سمندر میں چھلانگ لگا کر زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں ، ، اس 746 فٹ اونچے پل کو دنیا میں خودکشی کیلئے سب سے مقبول مقام قرار دیا گیا ہے ، لوگ اسے ’’موت کے پل‘‘کے نام سے یاد کرتے ہیں ، زندگی کے بوجھ سے تنگ لوگ دور دراز علاقوں سے اس پل کی طرف رخ کرتے ہیں ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
حضرات !
مغرب عبرت کی جاء ہے نمونہ یا ماڈل نہیں ، اس سے عبرت پکڑیے ، اسکے پیچھے مت لگئیے ، اس کے طرزِ زندگی سے ابھی جان چھڑا لیجئے !
یقیناً ابھی وقت ہے ، طے کرلیا جائے کہ ؛
ترقی چاہئیے یا خوشحالی ؟؟
(ترقی اور خوشحالی میں زمین آسمان کا فرق ہے)
اگر ترقی چاہئے تو مغرب بلاشبہ ہمارے لئے بہترین نمونہ و اسوہ ہے ، لیکن دیکھ لیجئے ترقی میں امریکہ سے اوپر پوری دنیا میں شائد کوئی دوسرا ملک نہیں ، لیکن وہ خوشحال ملک بہرحال کسی صورت نہیں ، !
ہر گلی میں پاگل خانے ہیں ، ہر نکڑ پہ ایک سائیکالوجسٹ بیٹھا ہے ، جیلوں سے یہ ملک بھرا پڑا ہے ، ہر دو منٹ بعد یہاں کسی نہ کسی انسان کی لاش گرتی ہے ، ہر منٹ بعد ایک بڑی روبری ہوتی ہے ، ریپ یہاں عام سی بات ہے ، بچوں اور عورتوں کو بڑے پیمانوں پر فروخت کیا جاتا ہے ، مردہ انسانوں کے اعضاء پر اربوں کی سرمایہ کاری ہوتی ہے ، !!
اور اگر خوشحالی چاہئے تو بلاشبہ دورِ نبوّت و ادوارِ صحابہ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہیں ۔
اللّٰھمّ اھدنا الصّراط المستقیم (آمین)