معاشرے میں سیلف میڈیکیشن کا بڑھتا ہوا رجحان

مشہور کہاوت ہے “جس کا کام اُسی کو ساجھے” ایسا ممکن نہیں کہ موچی نائی کا کام کرے اور نائی درزی کا۔۔ اگر ایسا ہوگا تو یقیناً نقصان ہی ہوگا کیونکہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔

 مگر بدقسمتی ہی ایسا نہیں ہو رہا اور اس حوالے سے ایک خطرناک رجحان پروان چڑھ رہا ہے جس کے اثرات معاشرے پر پڑ رہے ہیں اور مزید پڑیں گے۔ ہر شخص اپنی ذات میں خود طبیب بن رہا ہے جس طرح نیم حکیم خطرہ جاں ہوتا ہے اسی طرح یہ لوگ خود اپنی ہی زندگی کے لیے خطرہ بن رہیں گے۔ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں خود سے مرض کی تشخیص کرتے ہیں اور خود ہی علاج تجویز کرتے ہیں اور پھر خود ہی دوا بھی لے لیتے ہیں جو کے صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔

ایک اور مشہور کہاوت ہے “نيم حکيم خطره جان اور نيم ملا خطره ايمان” یہ ایک پُرانی کہاوت ہے اور اس سے یہ بات بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ جس طرح انسان کو اپنے ایمان کی حفاظت کرنا لازمی ہوتی ہے اسی طرح اللہ نے جو صحت جیسی نعمت دی ہے اس کی حفاظت کرنا بھی انسان پر لازم ہے۔

ہمارے معاشرے میں صورتحال یہ ہے کہ ہر شخص کسی نہ کسی بیماری کے حوالے سے نیم جانکاری رکھتا ہے اور وہ اپنی اس نیم جانکاری کو مدنظر رکھتے ہوئے دیگر مریضوں کو بھی مفت کے مشورے دیتا ہے حالانکہ کئی بار صورتحال ایسی ہوتی ہے کہ دو بیماریوں کی علامات ایک جیسی ہوتی ہیں اور اسباب مختلف ہوتے ہیں لیکن ایک بیمار شخص بیماری سے نجات پانے کی خاطر ہر کسی کت مشورے پر عمل کرنا شروع کردیتا ہے۔ اس صورتحال میں اگر مفت کے مشورے دے کر ادویات لینے کی صلاح دی جائے تو جان جانے کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالغفور ظفر جو کہ ایک سینئر فیملی فزیشن ہیں انہوں نے Self-medication کو نقصان دہ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ یہ انسان کی صحت میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور انسان کو دوسری بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ Self-medication ان مریضوں کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے جو شگر، کینسر، بلد پریشر اور دیگر مرض میں مبتلا ہیں۔

انہوں نے بھی اس بات کی تاکید کی ہے کہ لوگ اپنی زندگیوں سے نہ کھیلیں اور ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کریں کیونکہ ایک چھوٹی سے غلطی کسی بھی قسم کے خطرے کا باعث بن سکتی ہے

ایک 25 سالہ تجربہ کے حامل میڈیکل اسٹور مالک فرحان خان سے اس حوالے سے بات چیت کی تو انہوں نے بتایا کہ ‘میرے پاس 70 فیصد ایسے لوگ آتے ہیں جو اپنے اندازے یا تجربے سے دوا خریدتے ہیں اور وہ روزانہ کی بنیاد پر ان دواؤں کا استعمال کرتے ہیں’۔

لوگوں کا ڈاکٹر سے رجوع نہ کرنا کی وجہ کیا ہے؟ میرے اس سوال پر فرحان خان نے بتایا کہ لوگ ڈاکٹروں کی فیس اور اپنا وقت بچانے کے لیے ایسا کرتے ہیں اور زیادہ تر غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی ایسا کرتے ہیں۔

فرحان خان نے بھی اس بات کی تاکید کی ہے کہ لوگوں کو چائیے کہ وہ ہر مرض کی دوا کو ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق استعمال کریں اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کو کسی بھی قسم کا نقصان اٹھانا پڑے گا کیونکہ ہر دوا کو ایک خاص فارمولہ کے تحت تیار کیا جاتا ہے لہٰذا غلط دوا کھانے سے Reaction ہوتا ہے جو کہ موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

تحسین طاہر جو کہ ایک میڈیسن ایکسپرٹ ہیں ان کا کہنا ہے کہ Self-medication سے جسم میں کسی بھی قسم کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے بتایا کہ “ایک شخص کے سر میں اکثر درد رہتا ہے جو اس کو نارمل نہیں ہونے دیتا اور وہ روزانہ کی بنیاد پر PAIN KILLER کا استعمال کرکے سکون محسوس کرتا ہے اس عمل سے وقتی طور پر تو آرام مل جاتا ہے لیکن اس پریکٹس سے مالی نقصان کے ساتھ ساتھ انسانی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو جسم میں کسی بھی دوسری بیماری کا سبب بن سکتے ہیں”۔

ہمارے معاشرے میں یہ عمل بہت عام ہے کہ سر درد ہے تو “DISPRIN” لے لو، جسم میں درد ہے تو “PAIN KILLER” لے لو، حتی کہ “ANTIBIOTICS” بھی ہم خود ہی تجویز کرلیتے ہیں جوکہ معمولی بات نہیں ہے بلکہ صحت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ہونے والی بیماری کو عارضی نہ سمجھیں ذراسی لاپرواہی کسی بھی قسم کے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔

حصہ
mm
یاسین صدیق صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان دنوں ایک روزنامے کی ویب سائٹ پر سب ایڈیٹر ہیں اور پڑھنے لکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔

2 تبصرے

  1. Bohat Hi khoob likha he yaseen 🙂 wse self medicition ka shikar to me khud Bhi hun… Shyd apky is artical ko parh k kch sabq mil jaye mujhe b.. really appreciate your work bro 🙂 very nice..

  2. معاشرے میں سیلف میڈیکشن کے اثرات پر بہتریم تحریر ہے

جواب چھوڑ دیں