3 اور 4 جولائی 2002 کو دنیا کی ویٹو پاور اور سو سال سے زیادہ دنیا پر حکمرانی کرنے والے ملک برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلئیر ” ٹھیک ٹھاک “پریشان ہو چکے تھے ۔ ملک کے تمام بڑے اخبارات ، رسائل، چینلز ، صحافی اور اپوزیشن ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑ چکی تھی ۔ ” سانحہ ” ہی اتنا بڑا تھا ۔جو عوام پر بجلی بن کر گرا تھا ۔ برطانیہ میں موجود اساتذہ اور والدین پر مشتمل ایسو سی ایشن کے ذمہ داران نے پریس کانفرنس تک کر ڈالی اور کہا ” ہمیں امید تھی کہ ٹونی بلئیر ہمارے لئیے کوئی مثال قائم کرینگے ” ۔ بعد ازاں عدالت نے ٹونی بلئیر کو از خود طلب بھی کرلیا ۔ ٹونی بلئیر چونکہ عدالت میں بطور ” ملزم ” آئے تھے ۔ اسلئیے بغیر پروٹوکول اور ڈرائیور کے بالکل اکیلے ہی انھیں عدالت آنا پڑا تھا ۔ الزام کی سنگینی بھی بہت تھی ۔ 3 جولائی کو ملک کے ذمہ دار ترین میگزین میں یہ خبر لگ چکی تھی کہ ” وزیر اعظم ٹونی بلئیر اپنے دونوں بیٹوں کو ویسٹ منسٹر اسکول کے ایک استاد سے ٹیوشن پڑھوارہے ہیں “۔ ٹونی بلئیر نے اپنے بیٹوں کے لئیے اے لیولز کی ہسٹری پڑھانے کے لئیے ایک ٹیوٹر رکھا تھا ۔ جس پر ٹیلی گراف ، بی بی سی اور اکونومسٹ جیسے ادارے بھی سراپا احتجاج تھے ۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کا اپنے بیٹوں کو اضافی ٹیوشن دلوانا اس بات کا غماز ہے کہ انھیں برطانیہ کے تعلیمی نظام پر اعتراض ہے اور جب وزیراعظم برطانیہ کے بچوں کو ٹیوشن کی ضرورت ہے تو عام آدمی بے چارہ کہاں جائیگا ؟۔ وزیر اعظم ہاوس کے ترجمان اور وزارت اطلاعات اس عظیم “جرم” پر صفائیاں دینے پر مجبور تھی ۔
آپ دوسرا واقعہ ملاحظہ فرمائیں ۔ 1955 سے جاپان کے دور دراز شمالی گاؤں ہوکائیڈو سے گزرنے والی ٹرین کو حکومت نے 2012 میں بند کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ کامی – شری تاکی اسٹیشن پر ویسے بھی اب کوئی مسافر نہیں آتا تھا ۔ گاؤں میں اٹھارہ خاندان اور محض 36 لوگ تھے ۔ ریلوے منسٹری نے یہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا تو ڈرائیور نے بتایا کہ روز ایک لڑکی اس ٹرین میں جاتی ہے ۔ حکومت نے تحقیقات کروائیں تو معلوم ہوا کہ 18 سالہ کانا ہرادا کا گریجویشن ختم ہونے میں ابھی 3 سال باقی ہیں ۔وہ روز صبح 7:04 منٹ پر ٹرین میں سوار ہوتی ہے اور 5:08 منٹ پر شام میں اسی اسٹیشن پر اترتی ہے ۔ وہاں سے اس کے والد گاڑی میں بٹھا کر گاؤں لے جاتے ہیں جو اسٹیشن سے 35 منٹ کے فاصلے پر ہے ۔
آپ کمال ملاحظہ کریں حکومت اس بچی کے لئیے علیحدہ سے کسی کار اور ڈرائیور کا بندوبست کرسکتی تھی ۔ وہ کسی بھی پرائیوٹ کمپنی کو اس کا ٹھیکہ بھی دے سکتی تھی ۔ لیکن وہ جاپان حکومت تھی ۔جاپان حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہمارے نزدیک ٹرین ،ڈرائیور کی تنخواہ ، ٹرین کا فیول ، اسٹیشن کا خرچہ اسٹیشن پر موجود عملے کی تنخواہ اس سب سے کہیں زیادہ ایک بچی کی تعلیم عزیز ہے ۔
اور پھر فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ 2012 میں بند ہونے والی ٹرین 26 مارچ 2016 کو بند کی گئی وہاں سے سارا عملہ بھی واپس بلالیا گیا اور اسٹیشن بند کردیا گیا ۔کیونکہ 25 مارچ 2016 کو کانا کو گریجویشن کی ڈگری مل گئی تھی ۔ ان تین سالوں میں ٹرین ان ہی دنوں اور ان ہی اوقات میں آتی جن دنوں اور جن اوقات میں کانا کی کلاسیں ہوتی تھیں۔
ان دونوں واقعات کے بعد آپ اپنی آنکھیں بند کر کے دو منٹ کی خاموشی اختیار کریں اور اس کے بعد اپنی حکومتوں اور ان کے عطا کئیے گئے تعلیمی نظاموں اور تعلیم سے ان کے “گہرے تعلق ” پرفاتحہ بھی پڑھ لیجئیے ۔اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت ویسے بھی تعلیم پر فاتحہ پڑھ چکی ہے اور اگر آپ کو اس پر یقین نہ آئے تو آپ اس سال کے بجٹ میں تعلیم کا “چلو بھر ” بجٹ بھی دیکھ لیں جس میں پوری قوم کو ڈبونا مقصود ہے ۔
“پڑھا لکھا پنجاب ” کتنا پرھا لکھا ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگالیں کہ درجنوں کی تعداد میں پنجاب میں اسکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز بڑے میاں اور چھوٹے میاں صاحب کے نام سے منسوب ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی اس قابل نہیں کہ جہاں مریم نواز اپنے بیٹے کو پڑھا سکتیں ۔ اسلئیے انھوں نے ٹونی بلئیر کے ملک سے ہی اپنے بیٹے کو گریجویشن کی ڈگری دلوائی ۔ آپ اس کو بھی چھوڑیں پنجاب کابینہ میں کوئی ایک وزیر بھی ایسا نہیں ہے کہ جسکا کوئی دور کا رشتے دار بھی پنجاب کے کسی سرکاری تعلیمی ادارے میں اپنے بچوں کو پڑھانے کا خواب دیکھے کیونکہ یہ خواب ہی اتنا “بھیانک ” ہے ۔
خان صاحب کے دونوں ” شہزادے ” بھی بلئیر صاحب کے ملک میں ہی زیر تعلیم ہیں ۔الیکشن سے قبل وزیر اعلی ہاؤس کو آئی – ٹی یونیورسٹی بنانے کا خواب دیکھنے والے ملک و قوم کے رہبر و رہنما کو وزیر اعلی نے صاف صاف بتا دیا کہ تعلیم اچھی چیز ہے لیکن وزیر اعلی ہاؤس چھوڑنا پڑے اتنی بھی اچھی نہیں ہے ۔ڈان کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختون خواہ میں 51 فیصد طالبات تاحال اسکول جانے سے قاصر ہیں ۔ اگرچے ان پانچ سالوں میں نظام تعلیم میں بہتری آئی ہے لیکن اتنی بہتری پھر بھی نہیں آئی کہ خیبر پختون خواہ کا کوئی وزیر اپنے بچوں کو کسی سرکاری اسکول میں داخل کرواسکے ۔
سندھ کاحال تو بلوچستان سے بھی گیا گذرا ہے ۔ ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق سندھ کے سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں میں سے 2 فیصد بھی ایسے نہیں ہیں جو دو ہندسوں پر مشتمل کوئی بھی حساب کتاب کرسکیں ۔ سرکاری اسکولوں میں جانوروں ، بھینسوں اور بکریوں کے لئیے جگہ ہے لیکن عوام کے بچوں کے لئیے نہیں ہے ۔ اسکولوں میں جتنے بچے ہیں اس سے کہیں زیادہ اساتذہ ہیں ۔ واش رومز ، پینے کا صاف پانی اور پنکھے تک میسر نہیں ہیں لیکن تنخواہیں لاکھوں میں ہیں ۔ پہلے مرحلے میں سندھ کے تمام سرکاری اسکولوں کو تباہ کیا گیا ۔ دوسرے مرحلے میں تمام سرکاری کالجوں کا دیوالیہ نکال دیا گیا اور اب سرکاری جامعات کی باری ہے ۔ مراد علی شاہ صاحب نے خود این – ای – ڈی یونیورسٹی سے اپنی انجینئیرنگ مکمل کی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اب وہ اپنے خاندان کے دور کے رشتے داروں کو بھی وہاں داخلے کا مشورہ دینا تک گوارہ نہیں کرینگے ۔
اسرائیل جیسا چھوٹا سا ملک بھی اپنے جی – ڈی – پی کا 7 فیصد سے زیادہ تعلیم پر لگاتا ہے اور یہی اس کی کامیابی کا راز ہے۔میں ارباب اختیار سے عرض کرونگا کہ سب سے پہلے تو تعلیم پر ایمرجنسی نافذ کی جائے اور نظام تعلیم وفاق اپنے ہاتھ میں لے ۔ملک کے ماہرین تعلیم ، مختلف شعبہ جات میں کامیابیاں حاصل کرنے والے ہونہار طالبعلموں اور بیرون ملک بڑی بڑی جامعات میں پڑھانے والے اساتذہ پر مشتمل ایک با اختیار بورڈ بنایا جائے۔جو اپنا وقت اور دماغ لگا کر اس فرسودہ نظام تعلیم کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکیں اور ایک بالکل نیا نظام تعلیم متعارف کروائیں ۔پورے ملک میں ایک ہی بورڈ تشکیل دیں ۔ منسٹر سے لے کر موچی تک سب کے بچے اسی بورڈ سے امتحان پاس کریں ۔قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین پر لازم کیا جائے کہ ان کے بچے سرکاری اسکولوں ،کالجوں اور جامعات سے تعلیم حاصل کرینگے ۔اعلی تعلیم کے لئیے باہر جاسکتے ہیں ۔ بتدریج نصاب تعلیم کو اردو میں منتقل کیا جائے ۔ دنیا کی معلوم دس ہزار سالہ تاریخ میں کبھی کسی قوم نے کسی غیر کی زبان میں ترقی نہیں کی ہے ۔ 2050 تک شرح تعلیم 100 فیصد تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا جائے ۔
ملک میں موجود پارٹی سربراہان اختلافات ضرور کریں لیکن کم از کم تعلیم کے معاملے میں ایک صفحے پر آجائیں ۔ جناب ! آپ دشمن کے بچوں کو رہنے دیں میری گذارش ہے کہ اپنے بچوں کے لئیے پہلے ” کوالٹی ایجوکیشن ” کا بندوبست ضرور کروادیں ۔دشمن ناک رگڑتا ہوا اپنے بچے آپ کے پاس لے آئیگا ۔