ایک چراغ اور بجھا  

گزشتہ سال، سال رواں بھی یکے بعد دیگر بے شمار علم ودانش کے سورج ڈوبے، ان گنت چراغ بجھے اور بہت سے علم وفن کے بادشاہ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ گزشتہ دنوں انتہائی غمناک اور ہلا دینے والی خبر سنی کہ خانوادہ بخاری کے سپوت، ختم نبوت کے مجاہد مولانا عطاء المومن شاہ بخار ی ہم میں نہیں رہے۔ شاہ جی کافی عرصہ سے علیل اور صاحب فراش تھے لیکن دین کے متوالوں کو اطمینان تھا کہ بحمداللہ ایک چراغ روشن تو ہے جس کی روشنی کا فیض ہم تک پہنچتا ہے۔ ایک دیا جل رہاہے جس کی ٹمٹماتی روشنی ہمارے دلوں کے سکون کا باعث ہے۔ صدحیف! کہ آج ہم اس دیے کی ٹمٹماتی روشنی سے بھی محروم ہو گئے۔ اہل علم کی صفوں میں ایک خلا پیدا ہو گیا جو نجانے کبھی پر بھی ہو گا یا نہیں؟زمانے کا دستور تو یہ ہے کہ محفل سے اٹھ جانے والوں کو ہم جلد ہی فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہی وہ بڑا نام ہمارے دماغ کی تختیوں پر سے مٹ جاتا ہے۔ ہماری یادوں کے دریچے سے محو ہو جاتاہے لیکن شاہ صاحبؒ کا نام ایسا ہے جو مٹنے، بھولنے، بھلانے والا نہیں۔ آپ نے زندگی بھر ناموس رسالت کی حفاظت کی اور اللہ کے محبوب کی ناموس کو تار تار کرنے والوں کا تعاقب کیا، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر آقا علیہ السلام کی عزت پر آنچ نہ آنے دی۔ آپ امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری کے فرزند ارجمند ہیں۔آپ اتحادامت کے داعی تھےاور ہر ہر سطح پر آپ نے اتحاد کی صرف بات ہی نہیں کی بلکہ عملی کوشش بھی کی اور خاصی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ کے عنوان سے ایک مشترکہ فورم پر جمع فرمایا اور کامیاب پلیٹ فارم کی بنیاد ’’کل جماعتی مجلس عمل علماء اسلام پاکستان‘‘ کے عنوان سے رکھی۔ لیکن ہم زیادہ دیر تک نہ چل سکے اس کی وجہ شاید ہمارا مزاج تھا جو کچھ ایسا بن گیا ہے کہ کسی بھی مسئلہ پرکچھ عرصہ تو انتہائی زور وشور سے آواز اٹھاتے ہیں۔ ان دنوں میں ہمارا جذبہ دیکھنے لائق ہوتا ہے اور یہ جذبہ جلسہ جلوس سے آگے نہیں بڑھتا بلکہ آہستہ آہستہ پانی کے بلبلوں کی طرح ہمارے جذبات بھی ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں بہت بڑا فریضہ سرانجام دے دیا۔خیر! شاہ جیؒ نے خون جگر جلایا مگر ہم ناقدری کی حدوں کو ہی پھلانگتے گئے اور آپ علیل ہو کر صاحب فراش ہوئے اور آج ہمیں یتیم کر گئے۔ شاہ صاحبؒ ہماری محبتوں کا مرکز تھے۔ زمانہ آپ کی رحلت سے ایک عالم ہی نہیں بلکہ سلف کی روایات کے امین بلند پایہ ادیب امن کے خیر خواہ سے بھی محروم ہو گیا۔  آپ کا تفسیری  ذوق  بہت اعلی تھا بیسیوں تفاسیر مطالعہ میں رہیں جس کااثر آپ کے خطبات میں نظر آتا تھا۔ آپ کا ادب کے ساتھ شغف قابل دید تھا۔ ہمارے طبقہ کے عموی ذوق کے برعکس آپ کا شعر وشاعری کا ذوق ایسا تھا کہ سیکڑوں اردو پنجابی کے اشعار ازبر تھے اور موقع محل کے استعمال پر ملکہ حاصل تھا۔ خود بھی اشعار کہے مگر اس فن کو اپنایا نہیں۔ مطالعہ ایسا کہ علم کے سمندر کے سمندر پی گئے تھے۔ مولانا ابوالاکلام سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ حالات حاضرہ، سیاست سمیت دیگر موضوعات پر بیسیوں کتابوں کا مطالعہ فرمایا۔ وسیع المطالعہ ہونے کے باوجود آخری وقت تک مطالعہ کو جاری رکھا۔ ایام بیماری میں جب سکت ہوتی خود مطالعہ فرماتے وگرنہ کسی دوسرے سے پڑھواتے اور خود سماعت فرماتے۔ سید عطاء المومن نے اپنے عظیم والدکی میراث کا تحفظ کرتے ہوئے دینی تعلیمات کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ علم کے میدان میں تحقیق آپ کا شوہ رہا۔ اسلام کے خلاف تہذیبی خلفشار کا انتہائی جواں مردی سے مقابلہ کیا۔ آپ ایسے مرد قلندر تھے جو فرمایا کرتے تھے کہ میں خالص حسینی ہوں گورے کے خود کاشتہ پودے مرزائیت کو جڑ تک سے اکھاڑ پھینکوں گا اور آخری دم تک ان کا تعاقب جاری رکھوں گا اور پھر آپ نے کر دکھایا دھمکیوں، قیدوبند کی صعوبتوں، اپنے پرائے کی ناراضگیوں  کو خاطر میں لائے بغیر اپنے مشن اپنے کاز، اپنے وژن پر کار بند رہے۔آپ خطیب بے نیام تھے خطابت ورثہ میں ملی اور لگ بھگ 60 برس تک خطابت کے جوہر دکھائے۔ آپ دھرتی ماں مملکت پاکستان سے 7 برس بڑے تھے۔ ساری زندگی اس کی حفاظت کی اور نظریاتی سرحدوں پر تابڑ توڑ حملوں سے بچاؤ کا سامان کیا۔ آپ نے حق کے متلاشوں کو عشق رسول کے متوالوں کو عشق رسول کے جام بھر بھر کر پلائے۔ 77 برس کی عمر میں آپ اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔ رب کریم آپ کے درجات بلند فرمائے اور اس پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے کے لئے اہل حق میں سے ایسا ہی محبتوں کا امین سامنے لائے جو ہمارے لئے سائبان بنے۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں