بچوں کے لئے لکھی گئی ” احمد حاطب صدیقی” کی نظم “یہ بات سمجھ میں آئی نہیں” درحقیقت ایک انتہائی سیاسی اور ڈپلومیٹک نظم ہے۔ پہلے بند سے لے کر آخری شعر تک ایک بڑے نے بچوں کو سیاسی ظاہر کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔
مگر صد شکر بچے ان کے دام میں نہیں آئے۔
اس کا واضح ثبوت ہم ہیں کہ بچپن میں کئی دفعہ پڑھنے پر بھی نہ سمجھ آئی نہ یاد ہو کے دی۔ ہاں البتہ کچھ عرصہ پہلے، بڑے ہونے کے بعد جب کہیں اچانک کسی انڈین ویب سائٹ پر تعریف، تبصرہ دیکھا تو بھک سے یاد آئی پھر کئی بار اس نظم کو شروع سے آخر تک پڑھا. تب اندازہ ہواکہ ہاں اچھا یہ بچوں کی نہیں، نہ بچوں کے لیے ہے یہ تو بڑوں کی( کے لیے) نظم ہے!
اس میں ایک بچہ (بڑا) معصومیت سے پوچھتا ہے کہ؛
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
اور امی نے سمجھائی نہیں
“میں کیسے میٹھی بات کروں،
جب میٹھی ٹافی کھائی نہیں.”
یعنی جب اچھی باتیں، اچھا ماحول بچے (بڑے) کو نہیں ملے گا، یا ملا ہی نہیں تو کس طرح وہ سب کچھ آپ لوگوں کو لوٹائے گا؟ پھر جاب کے حوالے سے معلوم کرنا چاہا کہ؛
“آپی بھی پکاتی ہیں حلوہ،
پر وہ بھی کیوں حلوائی نہیں؟ ”
اس میں عورت ومرد کو برابری کے حقوق دینے کے حوالے سے بھی بات کی جارہی ہے کہ بھئی جب حلوہ پکانے والا حلوائی ہے تو باجی بھی یہی کام کررہی ہیں تو وہ حلوائین ہوئی نا! ورنہ یہ تو بلکل وہ ہی بات ہوئی کہ، میں کھانا کیوں بناؤں؟ میں شیف تھوڑی ہوں، یا میں جھاڑو کیوں دوں؟ میں کوئی ماسی، بھنگن تھوڑی ہوں! رشتے داروں کے مذکر و مونث کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ایک بڑے سوال کو لا کھڑا کیا گیا ہے.
نانی کے میاں تو نانا ہیں
دادی کے میاں بھی دادا ہیں
جب آپا سے میں نے یہ پوچھا
“باجی کے میاں کیا باجا ہیں؟”
تو وہ اس حقیقت کی طرف نشاندہی کر رہا ہوتا ہے کہ باجی کے میاں (بہنوئی) واقعی ایک باجا ہی ہوتے ہیں. جو اپنی مرضی کے مطابق بجتے ہیں. مگر آپا کو ہنس ہنس کر بتانا پڑتا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں.
“اے بھائی نہیں، اے بھائی نہیں”
مزید سوال کیا جاتا ہے؛
گر بلی شیر کی خالہ ہے
تو ہم نے اسے کیوں پالا ہے
“کیاشیر بہت نالائق ہے
خالہ کو مار نکالا ہے؟”
یا جنگل کے راجا کے ہاں
ملتی دودھ ملائی نہیں
یعنی ہم کس کی ذمہ داری کیوں اٹھائیں؟ کہ آدمی پر جب خود غرضی اپنا اثر دیکھاتی ہے تو اس کے نزدیک کسی رشتے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، ماں جیسی خالہ کی بھی! کیا اتنا بھی کھانا نہیں ہے اس بادشاہ کے پاس کہ ایک کمزور فرد کو حصہ دار بنائے؟
بجلی اور اس کے بل سے ایک ننھے بچے کا کیا کام، بل تو ابا کو دینا ہوتا ہے نا، مگر وہ یہاں بھی سوال کرتا ہے اور خود ہی جواب دے دیتا ہے۔
” جب نیا مہینہ آتا ہے تو
بجلی کابل بھی آجاتا ہے.”
حالانکہ بادل بے چارہ
بجلی مفت بناتا ہے
پھر ہم نے اپنے گھر بجلی
کیوں بادل سے لگوا ئی نہیں
مگر بات تو اس نے سولہ آنے درست کہی ہے کہ اتنا بل دینے کے باوجود بجلی تو ملتی نہیں تو بادل سے کیوں نہ رابطہ کر لیں.
مگر یہاں تو یہ بتایا جا رہا ہے کہ جتنی چاہو بجلی مہنگی کردو، لوڈ شیڈنگ کرو، مگر یہ سوچ لو کہ ایک ایسا مالک ہے جو جب اپنے قہر کی بجلی جب شرانگیز افراد پر گرائے گا تو کچھ نہیں بچے گا. اگلے بند میں نیا سوال حاضر ہے.
کیوں لمبے بال ہیں بھالو کے
کیوں اس کی ٹنڈ کرائی نہیں
کیا وہ بھی گندہ بچہ ہے
” یا اس کے ابو بھائی نہیں؟”
اس بچے(بڑے) کو بھالو کے لمبے بالوں سے کافی مسئلہ ہے اور اس مسئلے کے حل کرنے والوں کا مسئلہ حل نہ کرنا اس کے لیے حیرت کا باعث ہے. کیونکہ عموماً گھروں میں ابو یا بڑے بھائی سدھارنے، سدھرنے کا کام بحسن و خوبی انجام دے رہے ہوتے ہیں. (چاہیے ڈنڈے کے زور پر ہی کیوں نہیں)
مگر وہ یہ سمجھ نہیں پارہاکہ کیا اب یہ اس کا ہیر اسٹائل تو نہیں یا نائیوں کا کال پڑ گیا ہے. آگے کے سوالات سیدھے سادے بچے کے ہرگز نہیں ہیں.
جو تارے جھلمل کرتے ہیں
کیا ان کی چچی، تائی نہیں؟
ہوگا کوئی رشتہ سورج سے
یہ بات ہمیں بتلائی نہیں
یہ چندا کیسا ماما ہے؟
امی کا جب وہ بھائی نہیں
اس میں گھریلو سیاست پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ جن گھرانوں میں لوگ خوش باش ہیں، پریشانیوں کو حل کرنا جانتے ہیں، چہروں پر جھلملاہٹ ہے، اس کا سبب یہ تو نہیں کی وہاں چچی، تائی نام کی مخلوق نہیں ہے.
دوسرا سبب خوشی کا، خوشحالی کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی بڑے آدمی (سیاستدان، بیوروکریٹ، آرمی، جج/وکیل) سے رشتہ داری ہے.
اور چاند کیسے امی کا بھائی کہلا سکتا ہے جب وہ اس رشتے کو نبھانا جانتا نہیں. آخر میں وہ ہی فریاد ، درخواست کی گئی ہے، بڑے بھولپن سے.
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں.
تحریر نے مجھے بہت متاثر کیا۔۔۔۔ بہت خوب ۔ میں خود بھی مزا ح مذاح میں معاشرے پر تنقیدی اور اصلاحی تحریریں لکھنے کی کوشش کرتی ہوں
اپ کا مقصد نیک ہے اسے جاری رکھیں ۔