اقوام کی تعمیر افراد کے ہاتھوں ہی انجام پاتی ہے۔جب افراد تساہل ،تن آسانی اور بے فکری کے خوگر ہوجائیں وہیں سے قوموں کے زوال کا آغاز ہونے لگتا ہے۔ یہ فطرت کا ایک غیر متبدل قانو ن ہے کہ انسان اپنی ایک طبعی عمرکے بعد دنیا سے کوچ کرجاتا ہے۔ اسی طرح قومیں بھی افراد کی کوتاہیوں کی وجہ سے اپنی تمام حشر سامانیوں، فتح و کامرانی اور شکست و ریخت کے بعد زوال پذیرہوجاتی ہیں ۔ موت کے بعد انسان کے عروج و زوال اور شوکت و عظمت کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے۔ مابعدموت انسان کے لئے دنیاکی زندگی کا تصورر بھی محال ہے۔لیکن قوموں کی زندگی اس کلیہ سے مستشنیٰ ہوتی ہے۔ کسی بھی قوم سے وابستہ افراد اپنی سعی و جستجوسے قوم کے مردہ جسم میں روح پھونک سکتے ہیں۔ قوم افراد تیار نہیں کرتی بلکہ افراد کے ہاتھوں قوم کی تعمیر ہوتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ آج تک خالق کائنات نے کسی بھی قوم کوبغیر سعی و جستجو کے عروج و کمال عطا نہیں کیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ رب العزت نے افراد کو اپنی قوم کے زوال کو کمال میں بدلنے کا ہنر بخشا ہے۔ اگر کسی قوم کے افراد باشعور ہوں تو وہ قوم بھی زندہ و باشعور تصور کی جاتی ہے۔ قوموں کا عروج و زوال اس کے افراد کے علم و شعور سے وابستہ ہوتا ہے۔ قومیں اپنے تمام تر زوال اور شکست و ریخت کے باوجود اوج کمال تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں بشر طیکہ ہر شخص قوم کی تعمیر میں اپنا گرانقدر کردار انجام دے۔اقبالؒ فرماتے ہیں
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارہ
قوم کی تعمیر کے لئے فرد کی تعمیرضروری ہے۔تاریخ کا مطالعہ جہاں مسلمانوں کو فخر و تسکین کے سامان فراہم کرتا ہے وہیں مسلمانوں کی ناکامی ،نامرادی کی المناک داستانیں بیان کرتے ہوئے ان کے اعصاب پر محرومی اورناامید ی کی ایک گہری چادر بھی تان دیتا ہے۔تاریخ کے مطالعے سے کشید کردہ سامان فخرو تسکین اور احساس ذلت و ناامیدی قوم کے زوال کو کمال میں نہیں بدل سکتا، بلکہ قوت احتساب ہی ایک ایسانسخہ کیمیا ہے جو قوم کو پھر سے مسند عروج و کمال پر بحال کرسکتا ہے۔اس مضمون میں ملت کے عروج و زوال میں کارفرما عناصر بالخصوص علمی وسائنسی انحطاط کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے جوقوم کی عظمت رفتہ کی بحالی میں معاون ثابت ہوگی۔
کسی بھی قوم کی ترقی و تنرل میں اس کے نظریہ علم کوکلیدی حیثیت حاصل رہتی ہے۔ دنیا کے مذاہب میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے علم کو ایک تحریک کی شکل میں عام کیا۔خدا ئے برتر کی عظمت جلال وجبروت کا احساس انسان کو علم کے ذریعے ہی حاصل ہوتا ہے۔اسلام خالصتاً ایک علمی مذہب ہے ۔اسلام اور جہالت دو متضاد کیفیت کے نام ہیں جو کبھی یکجا نہیں ہوسکتے ۔ اسلام نے دنیا کو ساکت و جامد نظریہ علم کے بجائے مرورزمانہ کے ساتھ معاشرے سے مطابقت و ہم آہنگ کرنے والا نظریہ علم عطاکیاجوذہنی جمود کو توڑکر کشادگی اور جدت نگاہ فراہم کرتا ہے۔قرآن علم وحکمت کا منبع ہے اور ایک مکمل دستور حیات بھی(یعنی نصاب زندگی بھی)۔اسلام کی تعلیمات نہایت سادہ اور عام فہم ہے جس کی بنیاد ہی علم وعمل پر استوار ہوتی ہے۔کسی بھی معاشرے کی تبدیلی ،ترقی اور انصاف کے قیام میں علم و عمل ہی کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ جذبہ عمل ہی انسان کو جد و جہد ،عمل و حرکت ،اخذو اکتساب تحقیق،تدبر ،تفکر،اور تخلیق پر مائل کرتا ہے۔اسلام نے معاشرتی ترقی کے دروازے ہمیشہ وا رکھے ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ متابعین اسلام نے جب تک اس اصول سے انحراف نہیں کیا وہ علم و عظمت کی بلندیوں پر فائز رہے۔
اسلام کے مطابق انسان کی زندگی ایک امتحان اور دنیا کی حیثیت ایک امتحان گاہ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جہانِ فانی میں تمام انسانوں کو( خواہ وہ حاملین توحید و رسالت ہوں یاکفار،ملحدو بے دین ) سب کو یکساں اسباب فراہم کئے ہیں کیونکہ یکساں اسباب کی فراہمی کے بغیر امتحان بے معنیٰ ہو کر رہ جاتا ہے۔ انسان کاامتحان مطلوب ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی نے انسان کو اپنی زندگی اپنی مرضی یا پھرا حکام الہی کیمطابق گزارنے کا اختیار بھی عطاکیا ۔ اسی لئے دنیا کو دارالاسباببنایا گیا۔ جس طرح اخروی کامیابی کے لئے احکامات خداوندی کی پابندی لازمی ہے اسی طرح دنیا وی ترقی کے لئے بھی اللہ تعالیٰنے چند معروضی اصول بنائے ہیں ۔ انسان جب اسلامی اصولوں پر کاربند ہوجاتا ہے تو دنیاوی ترقی کے معروضی اصولوں پر ازخود عمل ہونے لگتا ہے اور وہ اخروی کامیابی کے ساتھ دنیا میں بھی ترقی وعروج پانے لگتا ہے۔ اسلامی تعلیمات سے روگردانی کرنے والا ، کافر جو اللہ کا نافرمان ہوتا ہے لیکن اگر وہ دنیاوی ترقی کے معلنہٰ خدائی معروضی اصولوں پر عمل پیرا ہوتو دنیا میں عروج و کمال حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔لیکن احکامات خداوندی سے روگردانی کی پاداش میں وہ آخرت میں مجر م ٹھہرئے گا۔ قرآن حکیم ،سورہ حج 22،65 اور سورہ لقمان کی 30 اور 31 کی آیات اسی حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ انسان کو زمین اور کائنات میں تصرف کا اختیار دیاگیا ہے اور ہرچیز اس کی دسترس میں رکھی گئی ہے۔
مسلمانوں کے عروج کے اسباب
اسلام دراصل دنیا کے لئے اللہ کا منشور ہے۔قرآن سرچشمہ علم ہے۔قرآن دنیا میں اللہ کا آخری پیغام ہے اور یہ کسی بھی تحریف اور تبدیلی سے پاک ہے ۔اللہ نے خود اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے۔قرآن اور اسوہ نبوی کو مسلمانوں نے جب حرز جاں بنالیا تو فتح و کامرانی ان کے قدم چومنے لگی۔ قرآن انسانوں کو کارخانہ قدرت میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن انسانوں کو تفکر،تدبر اور تبحر پر مائل کرتا ہے۔اسلامی تعلیمات توہم پرستی ،جعلی سائنس اور جھوٹی روایات پر قائم علم کا ابطال کرتی ہے۔قرآن اور تعلیمات نبویﷺ سے راست فکری وابستگی نے مسلمانوں کو عرو ج و کمال عطا کیا۔علم سے فطری لگاؤ کی وجہ سے مسلمانوں نے خود کو مختلف علوم کے تراجم تک محدود نہیں رکھا بلکہ عمرانی اور فطری علوم میں ایجاد و انکشاف کو رواج دیا۔قرآن اور سنت سے راست ہدایت حاصل کرنے کی وجہ سے مسلمانوں نے علم سے تشکیک اور ابہام کو دور کر دیا۔علم کی جدید کاری کا سہرا بھی اسلام کے سر جاتا ہے۔مسلمانوں نے قرآنی احکامات کے پیش نظر سائنسی انداز فکر کو فروغ دیتے ہوئے غور و فکر پر علم کی بنیادوں کو استوار کیا۔سیرت نبوی مسلمانوں کو تجرباتی اور سائنسی علوم کے حصول میں ہر دم ترغیب فراہم کرتی رہی۔تشکیک،ابہام اور تضادات کے خاتمے اور علوم و فنون کو معاشرتی تقاضوں اور ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اجتہاد کا راستہ ہمیشہ کھلا رکھا۔قرآنی تعلیم پر عمل پیرا مسلمانوں نے اپنے دور اقبال میں نئے افکار، نظریات اور تجربات سے جدیدسائنسی علوم کی نئی راہیں وا کئیں جن پر چل کر سائنس آج اس منزل تک پہنچی ہے۔اسلام نے کائنات کو ایک معمہ اور مافوق الفطرت شئے بنا کر نہیں پیش کیا بلکہ تعلیم اور تحقیق کا رخ تسخیر کائنات کی طرف موڑدیاتاکہ نئی ایجادات کی راہ ہموار ہوسکے اور تسخیر کائنات کا موثر اور فعال نظام وجود میں لایا جاسکے۔’’کیا تم نے نہیں دیکھاکہ اللہ نے تمہارے لئے آسمانوں اور زمینوں کی تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے۔‘‘)سورہ لقمان آیت نمبر 20 (مسلمان سائنسی اور دیگر علوم کی مسند عروج پر اس وقت تک فائز رہے جب تک ان میں تحقیقی اور تخلیقی اپروچ موجود رہا۔انسانی نشوونما اور مادی وسائل کی ترقی میں قرآن روایتی اور تقلیدی فکر سے منع کرتا ہے۔اسلامی تعلیمات نے اس کے پیرؤں کو مضبوطی سے ایک نظریہ حیات سے وابستہ کرتے ہوئے انسانی وسائل(Human Resources)ترقیاتی وسائل(Developmental Resources)اور مادی وسائل(Material Resources)کو ترقی دے کر انھیں عروج سے ہمکنار کردیا۔مختصر اً آل عمران کی آیت 143’’تمہیں غالب رہوگے ،بشرطیکہ تم (سچ مچ) مومن ہو۔‘‘کی روشنی میں مسلمان جب تک اسلام کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا رہے وہ ترقی کے راستوں پر گامزن رہے ۔مسلمانوں کے عروج کی وجہ آزادانہ سوچ ،غور و فکر تجربہ اور مشاہدہ تھا جس پر انھیں اسلامی تعلیمات نے ابھارا تھا۔اسی علمی نظریہ کے تحت وہ علم اور تحقیق میں دنیا سے بہت آگے نکل گئے اور ان کے قائم کردہ تحقیقی اور علمی معیار کا کوئی قوم صدیوں تک مقابلہ نہ کرسکی۔مسلمانوں کا یہ عروج صرف سائنس و ٹیکنالوجی کے زمرے میں ہی نہیں ہوا بلکہ دینی اور سماجی علوم میں بھی ان کا یہی حال تھا۔اسلام نے تعلیم کو قوم کی طاقت و قوت کا سرچشمہ قرار دیا۔تحقیقی مزاج اور فکر ی حریت جب تک مسلمانو ں میں باقی رہی وہ اوج ثریا تک پہنچ گئے۔لیکن جب حریت فکر پر کاری ضرب لگی اور اجتہاد کا دروازہ انھوں نے اپنے اوپر بند کرلیااور اندھی تقلید پر فخر کرنے لگے تب وہ زوال کے گم نام اور تاریک اندھیروں کی نذر ہوگئے۔مسلمانوں نے جب تک علم کو ایک اکائی کے طور پر مانا اور علوم کو دینی اور دنیو ی خانوں میں نہیں بانٹا کامیابی اور کامرانی ان کے قدم چومتے رہی۔بارہویں صدی عیسوی تک دیگر اقوام پر مسلمانوں کی برتری اور فضیلت کی بنیادی وجہ علم نافع یعنی افادی علوم تھے جن میں سائنس (تجرباتی سائنس) اور فلسفہ پیش پیش تھے۔علماو فقہا کا اسلامی تعلیمات کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا مثبت رویہ مسلمانوں کے عروج میں اہم مانا گیا۔ مشاہدہ و تجربہ علمی اساس کی جان تھے۔عقلیت اور روشن خیالی کو کلیدی حیثیت حاصل تھی۔قیاس و منطق تضادات کوختم کرنے والے ہتھیار ہوا کرتے تھے۔استقرا،استناج اور استخراج کو نتائج کی تہہ تک پہنچنے کے ذرائع مانا جاتا تھا۔فرقہ پرستی اور نفاق کو علم کا دشمن سمجھا جاتا تھا۔جمودی تقلید شاہراہ علم کی رکاوٹ تصور کی جاتی تھی۔تقدیر پرستی اور بے عملی کے بجائے آزادی عقل و عمل کا مسلک غالب تھا۔یہ ہی علما اور اسکالرس کا مذہب تھا جس کی اندلس،غرناطہ اور بغداد کے علم دوستحکمران سرپرستی کیا کرتے تھے۔
مسلمانوں کے زوال کے اسباب
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مسلمانوں کا زوال فکری سطح پر اسلامی طرز فکر چھوڑنے اور اسلامی احکامات کو عملی جامہ پہنانے میں سستی برتنے سے ہوا۔مغرب (یورپ ) جب مذہبی جہالتوں میں غرق تھامسلمان علم و دانش کے علمبر دار تھے۔مسلمان یورپ کو غفلت اور جہالت کی گہری نیند سے بیدار کرکے خود خواب غفلت کا شکار ہوگئے۔اہل کلیسا کی طرح مسلمانوں کے اسلامی اذہان کو فرقہ پرستی،نسلی عصبیت ،عقل دشمنی پر مبنی مذہبی تحریکیں لے ڈوبیں۔قومیں جب عقل کی حریف ہوجاتی ہیں تو زوال ان کا مقدر بن جاتا ہے۔عقل کے حریفوں میں عدم برداشت کا رجحان درآنا بھی ایک عام بات ہے۔ڈاکٹر افتخار حسین اپنی کتاب ’’قوموں کی شکست و زوال کے اسباب ‘‘میں رومیوں کے زوال کے متعلق فرماتے ہیں کہ رومی علم کے حصول کے بجائے مارشل آرٹس،فائن آرٹس،شاعری،خطابت ،موسیقی،فن تعمیر اور کھیلوں میں مشغول ہوچکے تھے۔تدریس جیسے اہم پیشے کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت اور وقعت نہیں تھی۔معاشرے کے ذہین ترین افراد سول سرونٹس،شاعر ،خطیب ،اداکاراور کھلاڑی بننا پسند کرتے تھے۔درس و تدریس اور تعلیم وتربیت کا کام غلاموں پر چھوڑدیا گیا تھا۔رومیوں میں ایسے ادب اور فنون کا شوق پیدا ہوگیا تھا جن کی بنیاد جذباتیت پر رکھی ہوئی تھی۔روایت پسندی اور ترقی پسندی کے درمیان محاذآرائیاں ایک عام بات تھی۔رومیوں کے زوال کی اور دوایک وجوہات گرانتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان میں رومان پسندی اور ماضی کی عظمت پرستی کا مرض بھی در آگیا تھا۔ڈاکٹر افتخار کی تحقیق کے آئینے میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کے زوال کے اسباب بھی کم و بیش یہ ہی معلوم ہوتے ہیں۔
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کتنے ہی روشن دماغ ہستیاں اپنے دور کے نام نہاد مذہبی علماکے زیر عتاب رہیں جنھیں بدعتی ،ملحد ،منکر اور کافر کہہ کر ہدف تنقید و ملامت اور تشدد کا نشانہ بنا یاگیا۔منطق،طبیعات،ریاضی اور موسیقی پر دوسوساٹھ سے زیادہ کتابیں تحریر کرنے والے عرب کے مشہور اسکالر الکندی (873-801)کا جینا دوبھر کردیاگیا۔اس عظیم اسکالر کو ضعیفی کی حالت میں بھی سربازار پچاس کوڑوں کی سزادی گئی۔تنگ نظر خلیفہ وقت کے حکم پر اس کا کتب خانہ ضبط کرلیا گیا۔عظیم طبیب،کیمیادان و فلسفی محمد ابن زکریا الرازی(925-854)کو بھی ایک قدامت پرست امیر نے کافر قرار دیا اور اسی کی کتاب سزا کے طور پر اس کے سر پر دی ماری جس کی وجہ سے یہ عظیم اسکالر بینائی سے محروم ہوگیا اور کچھ عرصے بعد فوت ہوگیا۔عالمی شہرت یافتہ سائنس داں طبیب و مفکر بوعلی سینا(1037-980)جو ایک حافظ قرآن بھی تھا کو منکر قرار دیا گیا اور اس کی کتابوں پر پابندی عائد کر دی گئی ۔بوعلی سینا نے وطن مالوف سے فرار ہوکر اپنی جان بچائی۔الفارابی (950-872)کو کافر کہا گیا۔ابن رشد(1198-1126)پر الحاد کا الزام لگا کر اس کی کتابوں کوجلادیا گیا۔علم دشمنی کی یہ روش صرف سائنس دانوں سے روا نہیں رکھی گئی بلکہ مذہبی مشاہیر اور فقہا بھی اس روش کی وجہ سے زیر عتاب رہے ۔حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کو عباسی خلیفہ ابوجعفرمنصور نے قید کردیا اور قید خانے میں ہی آپ کی موت واقع ہوئی۔حضرت امام احمد بن حنبلؒ کو بھی خلق قرآن کے مسئلے پر درے لگائے گئے۔
یورپ کے تاریک عہد میں بھی ہمیں یہی تکلیف دہ صورتحال نظرآتی ہے۔گلیلیو گلیلی(Galileo Galilei 1564-1642)کو نذرزنداں کرنے کا واقعہ جورڈانوبرنو(Giordano Bruno 1548-1600)کو زندہ جلاکر ماردینے کا سانحہ بھی ماضی پرستی اور جہالت کو گلے سے لگائے رہنے کی مثالیں ہیں۔کلیساء کی پرنٹنگ پریس ،سائنسی کتابوں کو ضبط کرنا ایسی رجعت پسندی اور قدامت پرستی تھی جس کی وجہ سے یورپ صدیوں تک جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیر ے میں ڈوبا رہا۔یورب کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر بے علمی اور سنگین غلطیوں کے باوجود جہالت کی ظلمتوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔سائنسی علوم کوگلے سے لگا کر ان کی تقدیر ہی بدل گئی۔مسلمان جنہوں نے یورپ کو تاریک عہد سے باہر نکالا تھا لیکن آج وحئی ربانی اور اسوہ رسول سے خود کو دور کرکے خود اسی ظلمتوں کی نذر ہوگیا ہے۔مسلمان جو قرآن سے تفکر ،تدبر ،تبحر ،مشاہدہ اور تجربے کا علم پایا کرتا تھاجب قرآن سے دور ہوا تو اس کی عقل پر تالے پڑگئے ،علم کی دولت سے ہاتھ دھوبیٹھا،عروج زوال میں بدلا اور حاکم سے محکوم کی حالت میںآگیا۔
زوال کو عروج میں کیسے بدلیں
علامہ اقبالؒ نے اپنے لیکچر Reconstruction Religion Theory of Islamمیں فرمایا کہ ’’مسلمانوں نے پانچ سو سال سے سوچنا بند کردیا ہے۔‘‘مسلمانوں نے کی فکر کئی صدیوں سے مفلوج اور منجمد ہوچکی ہے۔ یورپ نے چرچ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے جس طرح ترقی حاصل کی ہے اسی طرح ہمارے بعض ذی العلم روشن خیال اسکالر س بھی مکمل فکری آزادی کی وکالت کرتے نظرآتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے زوال کی وجہ سائنس سے دوری ہے جب کہ مغرب میں سائنس علوم کے زوال کا سبب ان کی مذہب سے دوری بنے گا۔ اسی تناظر میں مشہور فلسفی نٹشے کہتا ہے کہ’’ جو تہذیب ماضی میں دیوقامت افراد پیدا کررہی تھی وہ اب بالشتے پیدا کر رہی ہے۔‘‘اخلاقی اقدار سے عاری یہ مادیت کے پرستار استعمار کے ہتھیار سے لیس ہوکر انسانی جذبات کی پاسداری کرنے کے بجائے انھیں نفع اور نقصان کے ترازو میں تول کر اللہ کی زمین کو نمونے جہنم بنانے پر تلے ہیں۔اللہ کا صد شکر ہے کہ مسلمانوں کے پاس ابھی تک اپنے عقائد کی دولت اور اپنا خاندانی نظام محفوظ ہے لیکن یہ نظام اور عقائد ابھی بھی ثقافتی یلغار کی زد میں ہیں۔ہمیں ایسے پر آشوب دور میں اپنے مدارس اور جامعات کو جو اسلامی فکر کے قلعے تصور کئے جاتے ہیں انھیں عصری شعور اور اعلیٰ تحقیقی اسلوب سے لیس کرنا ہوگا۔آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ایسے علوم کے مراکز قائم کئے جائیں جہاں مختلف مہارتوں کے حامل دانشور،سائنس دان جمع ہوں اور عالم اسلام کو فکری رہنمائی فراہم کرے جس کے بغیر ہم اپنے زوال کو عروج میں تبدیل نہیں کرسکتے ۔قرآنی حکمتیں اور چراغ مصطفوی ﷺ ہی تاریکیوں سے نکلنے کی راہ بتائیں گے۔قرآن تفکر،تدبر ،مشاہدے اور تحقیق کی تلقین کرتا ہے اور انسانوں کو حصول علم کی جانب راغب کرتے ہوئے انسانیت کی فلاح و بہبود گئے میں اپنا گرانقدر کردارپیش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔قرآن کا یہ بھی ایک اعجاز ہے کہ خالق کائنات نے ترقی اور علوم جدیدہ کی وجہ سے در آنے والی تباہ کاریوں سے حفاظت کے فارمولے اس میں بیان کردیئے ہیں۔اسلام کے عقیدے اور فطرت میں غلبہ موجود ہے اور یہ غلبہ تمام جہان کے لئے سرمایہ رحمت ہے کیونکہ اسلام تما م دنیا کو سلامتی امن و چین فراہم کرنے والا مذہب ہے۔وقت کا اہم تقاضہ ہے کہ جب بھی جدید علوم کی سمت اور قبلہ بدل جائے اس کو درست کرنے کے لئے ہم تنگ نظری اور رجعت پسندی سے کام لینے کے بجائے قرآن سے رجوع کریں اور خداکی پیش کردہ حکمتوں کی روشنی میں اسے درست بنائیں۔اسلام جدید ترقیوں کا مخالف نہیں ہے۔سیرت رسولﷺ کے بے شمار پیغامات میں سے ایک پیغام یہ بھی ہے کہ ہر دور اور زمانے کا ایک مزاج ہوتا ہے مسلمان اس دور اور زمانے کیمزاج کو سمجھتے ہوئے مناسب اقدامات کریں کسی بھی شئے سے منفی اور مضر پہلوؤں کو نکال کر اسے مفید اور نافع بنائیں۔یہ اسلامی فکر ہے جسے آج کی دنیا جدید سائنس کہتی ہے۔
تعصب چھوڑ ناداں! دہر کے آئینہ خانے میں
یہ تصویریں ہیں تیری ،جن کو سمجھا ہے برا تونے
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...