کچھ نظر و فکرِ ادھر بھی

میں نے اخبار کھولا ہی تھا کے میری نظر موٹی سرخیوں کے درمیان کی ایک چونکا دینے والی خبر پر رک گئی۔ اور مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا اور وہ خبر ایک گھناؤنی سازش کی تھی جس کا انکشاف گزشتہ روز ہوا ۔خبر یہ تھی کہ 70 تعلیمی اداروں میں قومی اداروں کے خلاف برین واشنگ کا انکشاف ۔23سرکاری اور47نجی ادارے ،جو اس کھیل کا حصہ ہیں اس گھناؤنی سازش پر گزشتہ عرصہ سے کام ہو رہا ہے۔ غیر ملکی ایجنسیوں اور این جی اوز کے تعاون اور ایک دو سیاسی جماعتوں کی ما تحتی میں یہ لاوا پک رہا ہے۔
طلباء کو جھوٹی اور من گھڑت ویڈیوز دکھا کر ملکی سلامتی کے خلاف محاذ آرائی کے لئے تیار کیا جا رہا ہے۔ انہیں جھوٹی ویڈیوز کے ذریعے دکھایا جاتا ہے کے دیکھوا! قومی سلامتی کے ادارے ظلم کر رہے ہیں یہ کوئی عام خبر نہیں کہ پڑھ لی اور صرف نظر کیا اور گزر گئے بلکہ فکر مندی کی ہے۔وہ طلباء جو معاشرے میں سفیر کا کردار ادا کرتے ہیں اور ملکی طبقات کے درمیان ہم آہنگی کا ذریعہ بنتے ہیں انہیں کیا سکھایا جا رہا ہے۔؟انہیں کس سمت بڑھایا جا رہا ہے؟تعلیمی ادارے کسی بھی ملک کے رہنما تربیت گاہیں ہوتی ہیں جنہیں آئندہ قیادت کی تربیت کا اہم فریضہ سر انجام دینا ہوتا ہے ۔اور انہی تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے کے وہ طلباء کی ذہن سازی کچھ اس نہج پر کریں کہ وہ طلباء اپنے معاشرے میں امن و استحکام کو حاصل کرنے کے لئے روز و شب محنت کریں۔خود میں امن سلامتی کے پرچار کا مثالی جذبہ پیدا کریں تا کہ زندگیاں سنوارنے کے اعلی اہداف کو حاصل کرنے کا جذبہ پروان چڑھتا چلا جائے۔
یہی وہ تعلیمی ادارے ہیں جو اپنی تمام تر کاوشوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عظیم قومی خدمت سر انجام دیتے رہے ہیں۔لیکن اخباری خبر کا جائزہ لیا جائے تو جس ’’فریضے‘‘کی ادائیگی کھل کر سامنے آتی ہے وہ ہمارے لئے فکر کی بات ہے۔اور مقتدر اداروں کی نہ صرف کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں بلکہ ہمارے اپنے کردار پر دھبہ ہیں ۔سوچ و بچار کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو محب وطن بنانے کیلئے اچھی تعلیم وتربیت کی فراہمی کے لیئے جن اداروں پر اعتماد کرتے ہیں وہی ہماری آنکھوں میں دھول چھونک کر ہمارے ہی بچوں کو غیروں کا مہرہ بنانے کی محنت کیے جا رہے ہیں۔ اور ہم مطمئن ہیں کہ ہمارے نوجوان اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔بجا طور پر ہمیں انہی اداروں پر فخر تھا کہ یہ نوجوان نسل کی تربیت کر رہے ہیں ۔جہالت کے سامنے بند باندھ کر منفی سوچوں کے خاتمے کا سبب بن رہے ہیں ۔
ہم جانتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کا فرض ہے وہ نونہالان قوم کو بہتر معیار زندگی فراہم کرنے کے ساتھ ان کی اس طور پر ذہن سازی کریں کہ طلباء معاصر سماجی، معاشرتی مسائل کا مقابلہ کرتے ہوئے ملکی سلامتی کے لئے فخر کا باعث بنیں نہ کہ خطرے کا باعث۔ آنکھیں کھولنے اور جاگنے کی ضرورت ہے اور یہ کوئی پہلی خبر نہیں اس سے پہلے بھی کئی سنسنی خیز خبریں انہی تعلیمی اداروں سے متعلق آتی رہی ہیں۔کاروائی ہوئی ؟ اگر ہوئی تو کیا ہوئی ہمارے سامنے ہے۔گزشتہ دنوں میں تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کی باز گشت سنائی دی تھی ویسے تو ملک بھر میں منشیات کے استعمال کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 76لاکھ پاکستانی مرد و زن نشے کی لت میں گرفتار ہیں اور ان 76لاکھ افراد میں سے بڑی تعداد24سال سے کم عمر افراد کی ہے۔اور ان میں بڑھتی ہوئی تعداد سکول و کالج کے لڑکے لڑکیوں کی ہے۔غیر سرکاری ادارے ساسی کی رپورٹ کے مطابق سرکاری تعلیم اداروں کے بچے باالعموم اور نجی تعلیمی اداروں کے بچے باالخصوص کسی نہ کسی صورت میں نشے کے عادی ہیں ۔سوچنے کی بات ہے کہاں ہیں وہ مسیحا جو قوم کی بہتری کے نام پر دینی تعلیمی اداروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔دہشتگردی کے اڈے قرار دے کرحرف غلط قراردے دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت جب سامنے آتی ہے تو کیوں مہر بہ لب بیٹھ جاتے ہیں۔کیا اس بارے میں کچھ ارشاد فرمائیں گے۔
وہ جو دامن سے آگ ڈھانپتے ہیں اور دینی تعلیمی اداروں کو تو جہالت کی یونیورسٹیاں،دہشت گردی کے مراکز کہلوا کر عصری تعلیمی اداروں کو ایسا پاک،صاف ،شفاف بنا کر پیش کرتے ہیں جیسے ان تعلیمی اداروں کے دامن پر فرشتے نماز پڑھیں۔ کوئی بتائے تو سلامتی کے لئے کون سے ادارے خطرہ ہیں۔؟ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ دینی تعلیمی ادارے دودھ سے دھلے ہوئے ہیں۔انہیں اگر کوئی ادارہ کسی بھی ملک مخالف سر گرمی کا حصہ ہے تو بھر پور کاروائی کی جائے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو برائے کرم خوا مخواہ کے پروپیگنڈے سے اجتناب برتیں وہ ادارے بھی ہمارے ادارے ہیں ان میں پڑھنے والے بھی اتنے ہی محترم ہیں جتنے محترم ہمارے لئے عصری اداروں کے طلباء ہیں سوال یہ ہے کہ کیا کاروائی عمل میں لائی جائے گی یا یہ انکشاف بھی داخل دفتر کیا جائے گا ۔ ملکی سلامتی کے اداروں کو چاہیے کہ اس خبر کا بھر پور ایکشن لیں اور ہر ہر سطح پر اس کی تحقیق کر کے دشمنوں کے ہاتھ بکنے والے لوگوں کو،جماعتوں کو اور تمام شریک کاروں کو بے نقاب کریں ۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں