تھیلے سیمیا کا عالمی دن اور پاکستان 

دنیا بھر میں ہر سال 8مئی کو تھیلے سیمیا کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔مختلف سیمینارز منعقد ہوتے ہیں،جس میں تھیلے سیمیا کے بچاؤ کے حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگر کیا جاتا ہے۔تھیلے سیمیا ایک موذی مرض ہے۔جو سرخ خون کے ذرات میں شامل ہیموگلوبن نامی پروٹین کی نامناسب مقدار کی تشکیل کی وجہ سے ہوتا ہے۔ناقص خون کی تشکیل کی وراثت میں منتقل ہونے والی یہ سب سے عام بیماری ہے۔بعض لوگ اسے اینیمیاء بھی کہتے ہیں۔تھیلے سیمیا کے مریض میں اس کے آثار کچھ دوسرے امراض سے ظاہر ہو سکتے ہیں۔جیسے ہلکی نشونما،کم بھوک،یرقان،خون کی کمی یعنی اینیمیاء،دل کے امراض اور تلی کا بڑھنا وغیرہ۔یہ ایک وراثتی بیماری ہے جو نہ تو چھونے سے نہ کھانے سے اور نہ ہی جراثیم سے پھیلتی ہے۔یہ نسل در نسل والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔اس کے روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ والدین بچے کی پیدائش سے قبل دوران حمل ڈاکٹر سے رجوع کریں۔تھیلے سیمیا جیسی موروثی بیماری کے سب سے زیادہ متاثرین ایشیاء ، افریقہ اور بحیرہ روم سے منسلک ممالک میں موجود ہیں۔
تھیلے سیمیا کی تین اقسام ہیں۔جن میں تھیلے سیمیا میجر ،تھیلے سیمیامائنر اور تھیلے سیمیاانٹر میڈیا۔
تھیلے سیمیا مائنر دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔تھیلے سیمیا مائنر کے مریض کو نہ تو کوئی تکلیف ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں کوئی علامت ظاہر ہوتی ہے۔ایسے لوگ ایک مکمل صحت مند زندگی گزارتے ہیں ان کی تصدیق صرف لیبیارٹری ٹیسٹ سے ہی ممکن ہے۔یہ خود تو ایک نارمل زندگی گزارتے ہیں مگر اپنی بیماری کو اپنے بچوں میں منتقل کر سکتے ہیں۔جس کے بچاؤ کے لئے آگاہی بہت ضروری ہے۔
تھیلے سیمیا میجر سب سے زیادہ مہلک ہے۔تھیلے سیمیا میجر کے حامل مریضوں میں خون اتنا کم بنتا ہے کہ مریض کو ہر دو سے چار ہفتے بعد خون لگانا پڑتاہے۔ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کا جسم مفلوج ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ان کی زندگیاں بلڈ بینک کی محتاج ہو جاتی ہیں۔نہ تو یہ صحت مند لوگوں کی طرح کھیل کود سکتے ہیں اور نہ ہی تعلیمی میدان میں سرفہرست رہ سکتے ہیں۔ایسا مریض اپنی ساری زندگی اذیت میں ہی مبتلا رہتا ہے۔ انہیں خون لگنے کی وجہ سے اور بہت سی بیماریاں بھی لگ جاتی ہیں۔ایسے بچوں کے والدین اور خاندان مالی وسائل کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔نامناسب سہولیات علاج کی بدولت اکثریت کی جلد موت واقع ہو جاتی ہے۔تھیلے سیمیا میجر کا مریض تب جنم لیتا ہے جب اس کے دونوں والدین یعنی ماں اور باپ بھی تھیلے سیمیامانئرکے حامل ہوں۔اگر دونوں ماں اور باپ نارمل ہوں تو بچے بھی نارمل پیدا ہوتے ہیں۔اگر کوئی ایک تھیلے سیمیا مائنر کا حامل ہو تو 50فیصد بچے مائنر اور 50فیصد بچے نارمل پیدا ہوسکتے ہیں۔اگر دونوں مائنر کے حامل ہوں تو 25فیصدنارمل50فیصد مائنراور25فیصدمیجر کے حامل بچے پیدا ہو سکتے ہیں۔اگر دونوں ماں اور باپ تھیلے سیمیا میجر کے حامل ہوں تو لازمی سارے بچے میجر کے حامل ہی پیدا ہوں گے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ دس سے زیادہ اور سالانہ40ہزار سے زائد تھیلے سیمیا میجر کے حامل بچے پیدا ہو رہے ہیں۔دنیا بھر میں80ملین سے زائد تھیلے سیمیاکیرئر ہیں۔پاکستان میں حکومتی سطح پر تو کوئی سروے نہیں کیا گیا۔لیکن محتاط اندازوں کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد تھیلے سیمیا مائنر ہیں۔جبکہ ایک لاکھ سے زائد تھیلے سیمیا میجر کے حامل مریض ہیں جن میں سالانہ چھ ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ ایک ایسی موروثی بیماری ہے، جس کا ابھی تک مکمل علاج دریافت نہیں ہوا۔اس عارضے کا ایک علاج بون میرو ٹرانسپلانٹ کا آپریشن بھی ہے جو کافی مہنگا ہے پاکستان میں اس آپریشن کا خرچ لگ بھگ تیس لاکھ روپے ہے۔پاکستان جیسے غریب ملک میں اتنا مہنگا علاج ہر کسی کے لئے ممکن نہیں اسی لئے زیادہ تر آگاہی پر کام کیا جاتا ہے تا کہ لوگ اس مہلک موروثی بیماری سے بچ سکیں۔جن ممالک سے یہ مرض ہمارے ملک میں آیا ان میں یونان، اٹلی اور سائپرس ہیں جن میں آج تھیلے سیمیا میجر کی شرح صفر ہے۔اس کے علاوہ دنیا بھر میں بہت سے ممالک نے اس مرض پر بروقت آگاہی اور قانونی اقدامات کی بدولت قابو پالیا ہے۔آج دوسرے مسلم ممالک جیسے ایران اور ترکی میں نکاح سے پہلے تھیلے سیمیاا سکرینگ ٹیسٹ قانونی طور پر لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں تھیلے سیمیا میجر کے مریضوں کی شرح کافی حد تک کم ہو گئی ہے۔پاکستان کو بھی بروقت ایسے اقدامات کی ضرورت ہے۔پاکستان میں حکومت کوپی ٹی وی اور دوسرے میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے اس کے حوالے سے آگاہی پیغامات نشر کرنے چاہیے۔اس کے علاوہ نکاح سے پہلے تھیلے سیمیا کی اسکرینگ کو لازمی و قانونی عمل قرار دینا چاہئے۔تاکہ غریب اور لاعلم لوگوں کو اس اذیت نما موروثی بیماری سے بچایا جا سکے۔
پاکستان میں پرائیویٹ سطح پر بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں جن کی بدولت پاکستان عوام اس مہلک وراثتی بیماری کے بارے میں باخبر ہو رہی ہے۔پاکستان میں تھیلے سیمیامیجر کے مریض کی اوسط عمر 10سے15سال ہوتی تھی جس میں ان مختلف تنظیموں کی آگاہی اور امداد کی بدولت اضافہ ہو ا ہے جو اب20سے 30تک ہو گئی ہے۔یہاں ان تنظیموں و اداروں کا تذکرہ بھی بہت ضروری ہے۔سندس فاؤنڈیشن جو منو بھائی کی محنت کی بدولت آج پاکستان بالخصوص پنجاب بھر میں تھیلے سیمیا کے مریضوں کو خون اور دوسری امداد مہیا کر رہی ہے۔اسی طرح کراچی میں عمیر ثناء فاؤنڈیشن اورکاشف اقبال سنٹر بھی تھیلے سیمیا کے مریضوں کو علاج و زندگی کی سہولیات مہیا کر رہا ہے۔اس کے علاوہ جہاد فار زیرو تھیلے سیمیا، الخدمت فاؤنڈیشن، فاطمید فاؤنڈیشن اور انفرادی طور پر یاسمین راشد اور دیگر اس موروثی بیماری کے خاتمے اور انسانیت کے ناطے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔یہاں جدوجہد فاؤنڈیشن کا تذکرہ بھی بہت ضروری ہے ،جس کے آگاہی سیمینارز کے دعوت ناموں کی بدولت مجھ کم علم کو بھی اس اذیت ناک موروثی و مہلک بیماری کی پوری حقیقت بارے علم ہوا۔جدوجہد فاؤنڈیشن کے نوجوان صدر طلحہ نصیر سے ایک تنظیمی اجلاس میں ملاقات ہوئی۔جس کے بعد مختلف نشتوں میں مجھے علم ہوا کہ تھیلے سیمیا کتنی بڑی موروثی بیماری ہے اور دن بدن بڑھ رہی ہے۔جس کے بعد میں نے جدوجہد فاؤنڈیشن اور طلحہ نصیر سے وعدہ کیا اس مہلک و وراثتی بیماری بارے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے میں بھی اپنا حصہ ضرور ڈالوں گا۔قارئین جدوجہد فاؤنڈیشن کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ساری تنظیم نوجوانوں پر مشتمل ہے اور اس کے ایمبیسڈرز پورے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔جو مختلف یونیورسٹوں میں تھیلے سیمیاکی
آگاہی کے حوالے سے تقریبات منعقد کرتے ہیں۔بالخصوص یونیورسٹیز کے طلباء جن کی شادیاں قریب ہوتی ہیں انہیں تھیلے سیمیا ٹیسٹ کے بارے آگاہی دیتے ہیں۔اس کے علاوہ جدوجہد فاؤنڈیشن کا سندس فاؤنڈیشن سے اتحاد ہے۔سندس فاؤنڈیشن خون لگانے اور دوسرے علاج کے کام جبکہ جدوجہد فاؤنڈیشن پنجاب بھر میں آگاہی کا کام کرتی ہے اس کے علاوہ آئرن کی زیادتی کو کم کرنے کے لئے مریضوں کو پمپ مہیا کرنا اور بلڈ کیمپ لگا کر خون مہیا کرنا وغیرہ بھی جدوجہد کے آگاہی کاموں کا حصہ ہیں۔جدوجہد کے دیگر ممبران نعمان رسول، ماہین اور بلال وغیرہ کی لگن اور جذبے کو دیکھ کر ہر باشعور پاکستانی کا دل ضرور دھڑکے گا اور ان شا ء اللہ وہ دن دور نہیں جب ہر نوجوان پاکستانی اپنی روزمرہ زندگی سے چند لمحات نکال کر ایسے فلاحی کاموں کا حصہ بنیں گے۔
قارئین سے گزارش ہے کہ تھیلے سیمیا جیسی مہلک موروثی بیماری بارے اپنے قریبی لوگوں کو ضرور آگاہ کریں۔تاکہ معصوم بچوں کو اس اذیت ناک وراثتی بیماری سے بچایا جا سکے۔پاکستان زندہ باد۔

حصہ
mm
لکھاری گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، وائس آف سوسائٹی کے سی ای او اور مکینیکل انجینئر ہیں۔

جواب چھوڑ دیں