صحافت کا عالمی دن اور صحافی 

صحافت ’’صحیفہ‘‘ سے ہے اور صحیفہ، اللہ رب العزت کی طرف سے انسانیت کی رہنمائی کے لئے بھیجی گئی کتاب ہے۔اس مقدس ترین پیشے کے ساتھ آج کیا سلوک ہو رہاہے؟ شاید ہم یہ بات جاننے کے باوجود کہ جو کام ہم نے ذمہ لیا یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے پھر بھی ڈرتے نہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحافت کا عالمی دن منایا گیا۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے چند ایک میڈیا ہاؤسز کی جانب سے اس دن کو یاد ہی نہیں رکھا جاتا صرف صحافی برادری ہی ہے جس کے نا کوئی مطالبات سنتا ہے اور نہ اس کی کوشش کرتا ہے کیوں کہ اس پیشے سے وابستہ افراد کبھی سیاسی کبھی سماجی اور کبھی دشمنی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔
ہرسال 3 مئی کو آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد جہاں آزادی صحافت کی اہمیت افادیت صحافتی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالنا ہے وہاں معاشرے میں حق اور سچ کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ عوام میں سیاسی مذہبی اور اخلاقی و سماجی شعورکی آگاہی بھی فراہم کرنا ہے۔
عالمی یوم آزادی صحافت کا آغاز 1991سے نمیبیا سے شروع ہوا۔ صحافت معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے، اگرسچائی کے ساتھ کی جائے، ظاہر ہے کہ اگر سچائی کے ساتھ صحافت کی کارگزاری ہوگی تو یہ زمانے کی روش و رفتار اور عمرانی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت بھی رکھے گا۔
گزشتہ دونوں افغانستان کے دارالحکومت کابل میں یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے جن میں صحافت کی دنیا کی نامور ایجنسی کے8صحافی ہلاک ہوئے تھے جبکہ رواں سال پانچ مہینوں میں 32 صحافی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔پاکستان میں سترہ سالوں میں 150سے زائد صحافیوں کو قتل کیا گیا، تاہم اس میں سے صرف تین کارروائیوں کے مقدمے درج کیے گئے، جوصحافی برادری کے ساتھ ناانصافی ہے۔حملے ، دھمکیاں ، اغوا ،جبری برطرفیاں ، تنخواہوں کی عدم ادائیگیاں ،یہ وہ حالات ہیں جس میں صحافی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کے لوگوں کو با خبر رکھنے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں،بدلے میں ملتی ہے صحافی کو موت یا زندگی بھر کی معذوری اس پر ناکوئی حکومتی عہدیدار آوازاٹھاتا ہے نہ ہمارا ادارہ جس کے لیے ہم جاں فشانی سے کام کرتے ہیں یہاں تک جان بھی قربان کردیتے ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی سیکولر ریاست ہونے کا دعویٰ کرنے والے بھارت میں بھی صحافی اور صحافی تنظیموں کی حالت مختلف نہیں، جہاں حکومت اور مذہبی انتہا پسندی پر آواز بلند کرنے پر قتل کردیا جاتا ہے، جب کہ معروف چینل این ڈی ٹی وی سمیت کئی چینلز کو پابندی کے باعث بند بھی کیا گیا۔صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کامطالبہ کئی سال سے کیا جا رہا ہے اور اس کے وعدے بھی مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دنیا بھر میں متعدد صحافی خبر کے حصول میں دوران ڈیوٹی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 82 صحافی فرائض کی ادائیگی کے دوران مارے گئے۔ شام اور عراق صحافیوں کے لیے خطرناک ترین جبکہ ایشیا میں بھارت صحافیوں کے لیے خطرناک ثابت ہوا۔ دنیا کے کئی ممالک میں آزادی صحافت پر مکمل جبکہ متعدد ممالک میں جزوی پابندی عائد رہی۔
اسوقت دنیامیں اگر کوئی سب سے غیر محفوظ ہے تو صحافی ہیں۔سب کی خبر دیتے ہیں لیکن ان کی خبر دینے والا اور لینے والا کوئی نہیں ہوتا۔رپورٹر سے لے کر کالم نگار تک ،صحافتی شعبے کا ہر فرد دوسروں کے مسائل کو تو بیان کرتا ہے لیکن اپنے مسائل کے حل کے لئے اسے کوئی پلیٹ فارم نہیں ملتا۔قلم اٹھائے سارا سارا دن ،کیسا بھی موسم ہو،کیسے بھی حالات ہو،پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج ہو یا سیاسی جماعتوں کی آپس میں لڑائیاں،صحافی ہر کہیں اپنا فرض نبھاتا نظر آئے گا لیکن اگر اسی صحافی کو کچھ ہو جاتا ہے تو سب بھول جائیں گے کہ یہ بھی ہمارے ہی معاشرے کا ایک فرد تھا۔
دوسری جانب صحافیوں کا مسلسل معاشی قتل عام جاری ہے جان کو خطرے میں ڈال کر خبر لانے والا اپنی تنخواہ کی ادائیگی کے وقت رلتا پھرتا ہے مگر ہاتھ آتی ہے تو صرف ذلت و رسوائی ،سوال صرف اتنا ہے کہ کیا اپنا فرض ادا کرتے کرتے اس دنیا سے کوچ کرجانے والے صحافی ہمارے ادارے ،معاشرے اور سماج کو نظر نہیں آتے، دنیا کے غم کواپنے قلم ،کیمرے کے ذریعے منظر پر لانے والے صحافی کو کیا کسی کا محتاج ہونا چاہیے؟۔

حصہ
mm
موسیٰ غنی ایک مقامی روزنامہ کی ویب سائٹ پر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف اخبارات میں بھی کالمز لکھتے ہیں۔مطالعے سے خاص دلچسپی اور بلاگ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں