ایمان مغازی الشرقاوی
ترجمہ: ڈاکٹرمیمونہ حمزہ
(۵)
کیا آپ نے تجربہ کیا کہ آپ ساری رات جاگ کر گزارتے ہیں، اور سارا دن مشقت اٹھاتے ہیں، مگر کیوں؟ تاکہ ہر دن اور رات کے بدلے آپ کو چند روپے مل جائیں، جن سے آپ اپنی کمر سیدھی کر سکیں، اپنے نفس کا بچاؤ کر سکیں، اور اپنے بال بچوں کی ضروریات پوری کر سکیں؟ آپ نے اتنی محنت اور مشقت کے بعد کامیابی کی مٹھاس کو بھی چکھا ہو گا، اور اتنا امتیاز اور تفوق حاصل کرنے کے بعد، عزت افزائی اور تکریم کی لذت کو بھی محسوس کیا ہو گا، اور اہلِ خانہ اور دوستوں نے بڑا پر تپاک استقبال کیا ہو گا؟ آپ نے محسوس کیا کہ مشقت کے بعد راحت میں مزا ہے، اور محنت کا ثمر کام ختم ہونے کے بعد ملتا ہے؟ کیا آپ نے کبھی کسان کو نہیں دیکھا، کہ وہ بیج بوتا ہے، اور اس سے کونپل نکلتی ہے، اور وہ پورا سال اسکی دیکھ بھال کرتا رہتا ہے، وہ اسے آفات اور کیڑوں مکوڑوں سے بچاتا ہے، اور ہر وقت اسی کے لئے محنت اور مشقت میں لگا رہتا ہے، حتی کہ اسکا باغ سرسبز و شاداب اور تروتازہ ہو جاتا ہے، اور وہ اسے مختلف پھل پیش کرتا ہے؟ کیا آپ نے کبھی شہد کی مکھی کو غور سے دیکھا ہے، اور اس سے سبق حاصل کیا ہے؟ وہ کس طرح ایک شاخ سے دوسری، اور ایک پھول سے دوسرے پھول کی طرف سفر کرتی ہے، وہ اسکی خوشبو سونگھتی ہے اور اچھے پھولوں ہی پر بیٹھتی ہے، اور اﷲ کی سکھائی ہوئی راہوں پر چلتی رہتی ہے، اور اپنے سفر کے اختتام پر صاف ستھرے مشروب ’’شہد‘‘ کا تحفہ دیتی ہے، جسکی لذت مختلف ہوتی ہے ، اور اس میں شفاء ہے۔ آپ نے کبھی چیونٹی کو دیکھا ہے، اور غذا کے بوجھل حصّے اٹھا کر گرم دوپہر میں چلتی ہے، لیکن یہ بوجھ اسکی مشقت کم کر دیتا ہے، اور اسکا اثر زائل ہو جاتا ہے، اور اسکی پریشانی ہلکی ہو جاتی ہے، جب وہ اسکا پھل پاتی ہے، اور وہ سردی کے موسم میں اپنے خزانے کو مزے لے لیکر کھاتی ہے؟
۔ یہ سب صورتیں بہت مختلف ہیں، انکا باہم مقابلہ بھی مشکل ہے، لیکن یہ تمام مثالیں بڑی عاجزی سے ہمیں رمضان کے مہینے میں روزے داروں کے میدان میں لے جاتی ہیں، جہاں وہ اپنے روزے مکمل کر چکے ہیں، اور یہ مہینہ کوچ کر رہا ہے، وہ اس مہینے میں اپنے دشمنوں پر غالب آچکے ہیں، اور نماز، روزے، قرأت، قیام، نیکی اور احسان، سے اﷲ کے طریقے کو پا گئے ہیں، انہیں قرآن کا ادب کرنا بھی آگیا ہے، اور اس سے اپنی محفلوں کو زینت دینا بھی، پس انکے آنسو بہتے ہیں، انکی آہیں بلند ہوتی ہیں، انکے ہاتھ اﷲ رب العزت کے سامنے پھیلتے ہیں، خوف اور رغبت کے ساتھ، وہ اسکی رحمت کے امیدوار ہیں، اور اسکے عذاب سے ڈرتے ہیں، اﷲ انکی سعی و کوشش ہرگز رائیگاں نہ جانے دے گا، اور نہ انکے اعمال ضائع کرے گا، بلکہ وہ انہیں انکی کارگزاری کا بہترین اجر عطا فرمائے گا، اور اس مہربان مہینے کے اختتام پر انہیں خدمت کا بہترین بدلہ دے گا، اور انہیں درجہ ممتاز بلکہ اے پلس سے نوازے گا، وہ کتنے طویل دنوں میں اسکے آگے سرجھکائے تمام دن کھڑے رہے، اور رات کی تاریکی میں اسکے آگے سجدہ ریز رہے، (تتجافی جنوبھم ھن المضاجع یدعون ربھم خوفاً وطمعاً ومما رزقناھم ینفقون ۰ فلا تعلم نفس ما أخفی لھم من قرۃ أعین جزاء بما کانوا یعملون۰) (السجدۃ، ۱۶۔۱۷) (انکی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں، اور جو رزق ہم نے انکو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان انکے اعمال کی جزا میں انکے لئے چھپا کر رکھا گیا ہے اسکی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے۔)
مغفرت کا تحفہ:
واہ، اس تحفے کا کیا کہنا، جو کامیاب و کامران ہونے والوں کو انکے رب کی جانب سے بھیجا گیا ہے، جنہوں نے اس عظیم مہینے میں اپنی ھوی اور شہوات پر غلبہ حاصل کیا، اﷲ تعالی نے اسکے حاصل کرنے کی شرائط وضاحت سے بیان فرمائی ہیں، اور اسکے حق داروں کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہے، تاکہ بندہ اسے پانے کے لئے تیاری کرے، اور اپنے آپ کو اسکا مصداق بنانے کے لئے چوکس رہے، تاکہ وہ ان لوگوں میں شامل ہو جائے، (وما یلقا ھا الا الذین صبروا و ما یلقاھا الا ذو حظ عظیم) (حم السجدۃ، فصلت، ۳۵) (یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔)
رمضان کے امتحان کے مکمل ہونے کے بعد، اور جدو جہد کے معرکے میں کامیابی کے بعد، ایک اور معرکہ درپیش رہے گا، اور وہ ہے انسان کے ہمیشہ سے منتظر دشمن ۔۔ ابلیس اور اسکی ذریت ۔۔ جاذب نظر دنیا ۔۔ اور برائی پر اکسانے والے نفسِ امارہ ۔۔ اور اﷲ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت سے روکنے والی ھوی (خواہشِ نفس)اور انکے علاوہ کئی راہزن جو اس دنیا کے طول پر پھیلے، انسان کا شکار کرنے کے منتظر ہیں۔
یہ رمضان کی راتوں کی آخری رات ہے، نبی اکرم ﷺ نے تاکیداً فرمایا: اور وہ انہیں آخری رات میں معاف فرما دیتا ہے‘‘۔ پوچھا گیا: یا رسول اﷲ ﷺ، کیا یہ لیلۃ القدر ہے؟ فرمایا: ’’نہیں، بلکہ اس میں کام کرنے والے کو مزدوری دی جاتی ہے، جب وہ کام مکمل کر لیتا ہے‘‘ (اسے احمد نے روایت کیا)۔
اور یہ اجر کتنا بڑا ہے، اور اس انعام کا کیا کہنا!! یہ انعام ہر اس روزہ دار کے لئے ہے، جس نے روزے کی حکمت جان کر اسے اپنے اوپر لازم کر لیا، اور اسکے دل نے اس کے پیٹ سے بھی پہلے روزہ رکھا، اور اسکی زبان نے اسکے دانتوں سے پہلے، اور اسکے اعضاء میں سے آنکھیں، ہاتھ اور پاؤں، کان، عقل اور دل ، سب روزے میں شریک رہے، اور آخرت کے لئے زادِ راہ اکٹھا کیا، اور وہ رمضان سے اپنی روح پاک کر کے نکلا، ایک نئے پاک اور نادر نفس کے ساتھ، اور قوی اور شدید عزم کے ساتھ، گویا اسکا روزہ اسکا قلعہ اور اسکے لئے بچاؤ بن گیا، اور ھدایت کی راہوں کا مدد گار، اور کامیابی پانے کا راستہ۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: ’’روزہ ڈھال ہے، اور وہ مومن کے قلعوں میں سے ایک قلعہ ہے‘‘ (اسے طبرانی نے بیان کیا، اور سیوطی نے اسے صحیخ قرار دیا)۔
غفور ۔۔وشکور
اﷲسبحانہ وتعالی بہت سی برائیوں کو بخش دیتا ہے، اور آسان نیکیوں کی بھی بہت قدر دانی فرماتا ہے، اور یہ نعمت بھی ہم سے بہت شکر گزاری اور طویل سجدوں کا مطالبہ کرتی ہے، اسکے سوا کون ذات ہے جو گناہگاروں کو معاف کر سکتی ہو، اور توبہ کرنے والے قصور واروں کی عزت افزائی کرتی ہو، اور اپنا پردہ عطا کر کے انکی سترپوشی کرتی ہو؟ وہ اﷲ ہی ہے الغفار، الغفور والشکور، جو تھوڑے سے عمل پر ڈھیروں اجر عطا فرماتا ہے، جو اپنے اطاعت گزار بندوں کی خود تعریف کرتا ہے، اور وہ سبحانہ وتعالی ہم سے فرماتا ہے: اے بندو، تم دن رات خطائیں کرتے ہو، اور میں تمام گناہ معاف فرما دیتا ہوں، پس مجھ سے مغفرت مانگو، میں تمہیں معاف کر دوں گا ۔۔ اے میرے بندوں، تم میرے نقصان پر قادر نہیں ہو کہ مجھے کوئی نقصان پہنچا سکو، اور نہ میرے نفعے پر کہ مجھے کچھ نفع پہنچا سکو ۔۔ اے میرے بندو، اگر تمہاے پہلے اور پچھلے اور تمہارے انس اور جن سب سے متقی دل والے بن جائیں، تو یہ میری بادشاہت میں کچھ بھی اضافہ نہ کرے گی ۔۔ اے میرے بندو، اگر تمہارے تمام پہلے اور پچھلے، اور تمہارے انسان اور جن سب سے فاجر دل والے شخص جیسے ہو جائیں، تو یہ میری بادشاہت میں کچھ بھی کمی نہ کرے گی‘‘ (مسلم نے روایت کیا)، اور اسکے ساتھ وہ سبحانہ وتعالی ہمیں یہ مغفرت حاصل کرنے کی جانب بلاتا ہے، اور اپنے قرب کی لذت سے آشنا کرتا ہے ۔۔ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں: جب رات کا تین چوتھائی حصّہ باقی رہ جاتا ہے، ہمارا رب ہر رات آسمانِ دنیا پر آتا ہے، اور پکارتا ہے، کون ہے جومجھ سے دعا مانگے اور میں اسے قبول کروں، کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اسکو عطا کروں، کون ہے جو مجھ سے بخشش چاہے اور میں اسے بخش دوں (اسے ابو داود نے روایت کیا)۔
رمضان قرب کا مہینہ اور مغفرت کا مہینہ ہے، جس میں عمل کرنے والے مجاہدہ کرتے ہیں، اور مخلصین اسکے لئے کوشاں رہتے ہیں، اور اس بے پرواہ بادشاہ سے درجہ قرب حاصل کرنے کے لئے وہ ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، پس وہ قیامت کے روز وہ اپنی عظیم تمنا کو مجسم دیکھیں گے، اور وہ انہیں ڈھانپے ہوئے ہو گی، اور یہ مغفرت کی آرزو ہے، جب وہ قدر دان آقا انکو بخش دے گا، اور وہ سبحانہ وتعالی صرف بخش ہی نہ دے گا بلکہ وہ انہیں اپنی وہ نعمت عطا فرمائے گا، جس کو بیان بھی نہیں کیاجا سکتا، جو نہ عمل سے حاصل کی جا سکتی ہے نہ شکر سے، اسی لئے وہ پکار اٹھیں گے: (وقالوا الحمد ﷲ الذی أذھب عنا الحزن ان ربنا لغفور شکور۰ الذی احل لنا دار المقامۃ من فضلہ لا یمسنا فیھانصب ولا یمسنا فیھا لغوب) (فاطر، ۲۴۔۲۵) (اور وہ کہیں گے کہ ’’شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کر دیا، یقیناً ہمارا رب معاف کرنے والا اور قدر فرمانے والا ہے، جس نے ہمیں اپنے فضل سے ابدی قیام کی جگہ ٹھیرا دیا، اب یہاں نہ ہمیں کوئی مشقت پیش آتی ہے اور نہ تکان لاحق ہوتی ہے‘‘۔)
دو فرحتیں:
یہ اطاعت کی فرحت ہے، اوراﷲ سے امید کی فرحت، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’روزے دار کے لئے دو فرحتیں ہیں، جو اسے خوش رکھتی ہیں، جب روزہ کھولتا ہے تو افطار کی فرحت ہوتی ہے، اور جب اپنے رب سے ملے گا، اپنے روزے پر خوش ہوگا‘‘ (نسائی نے اسے اسے روایت کیا، اور البانی نے صحیح قرار دیا)۔
رمضان مبارک کا مہینہ ہمارے لئے بہترین تحفے اور عظیم انعام چھوڑ کر رخصت ہوتا ہے، کیونکہ اﷲ تعالی مخلص روزہ داروں کو بخش دیتا ہے، اور روزہ دار کے بارے میں فرماتا ہے: ’’اس نے اپنا کھانا پینا اور شہوت کو میرے لئے چھوڑ دیا‘‘ (اسے بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے)، گویا کہ مغفرت اس ثواب کا جزء ہے، جسے اﷲ نے اسکے لئے مخصوص کیا ہے، جب وہ فرماتا ہے: ’’روزہ میرے لئے ہے، اور میں اسکی جزا دوں گا‘‘ (اسے احمد نے روایت کیا ہے)، کیونکہ یہ عبادات کا مجموعہ ہے جو صبر اور شکر کے گرد گھومتا ہے، اور یہی دو اسکے حاصل ہیں۔
اور ہاں یہ مسلمان ہی ہیں، انکی اکثریت روزہ رکھتی ہے، اور انکے روزے میں اﷲ سبحانہ وتعالی کے احکامات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، انکی سیری کی نعمت کو یاد کیجئے، اور وہ کس طرح ھوائے نفس کی پیروی کے لئے تیار رہتے تھے، اور حق کی موفقت اسکی مخالفت کر کے کرتے تھے، اور اسکی محبوب چیزوں کو ترک کرتے تھے، اور اس نفس کی ریاضت مالوف و پسندیدہ چیزوں کو ترک کرنے میں ہے، اور شہوات کو چھوڑنے میں، اور اعضاء کی حفاظت کرنے میں، اور جب افطار کا وقت آتا ہے تو’’ انکے لئے دو فرحتیں ہیں، ایک فرحت افطار کے وقت کی، اور ایک رب سے ملاقات کے وقت کی‘‘ (ترمذی کی روایت، البانی نے اسے صحیح قرار دیا)، قرطبی نے فرمایا: اسکے معنی ہیں، جب اس کے لئے افطار جائز ہو گیا، اور اسکی بھوک اور پیاس زائل ہو گئی، تو اسے فرحت ملی، اور یہ فطری خوشی ہے، اور پہلے مفہوم کے مطابق ہے، اور کہا جاتا ہے: یہ اسکے افطار کی فرحت ہے، کیونکہ اس نے روزہ مکمل کیا، اور اپنی عبادت کا اختتام کیا، یہ رب کی جانب سے تخفیف اور اسکے آئندہ روزے کے لئے مدد ہے۔
علماء کہتے ہیں: رب سے ملاقات کے وقت کی فرحت کا سبب وہ جزا بھی ہے جو وہ دیکھتا ہے، اور رب کی اس نعمت کو یاد کرتا ہے کہ اس نے اسے توفیق عطا کی، اور روزے کے اختتام پر عبادت کے پورا ہونے اور اسکے مفسدات سے محفوظ رہنے کی خوشی ہے، اور اس ثواب کی جسکا وہ امیدوار ہے ۔۔ پس جس نے خلوص سے عبادات اور دوسرے اعمال بجا لائے، اور وہ ریا یا شہرت کے لئے نہیں بلکہ اﷲ کی رضامندی کے لئے سب اعمال بجا لا رہا تھا؛ اسے اﷲ دنیا اور آخرت میں پورا بدلہ عطا کرے گا۔
آؤ مغفرت کی طرف
اﷲ اپنے سب بندوں کو مغفرت کے لئے پکارتا ہے، وہ فرماتا ہے: (وسارعوا الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضھا السماوات والارض اعدت للمتقین ) (آل عمران، ۱۳۳) (دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمان جیسی ہے، اور وہ خدا ترس انسانوں کے لئے مہیا کی گئی ہے)، (سابقوا الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضھا کعرض السماء والارض)(الحدید، ۲۱)(دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے۔)، پس مغفرت جنت کی طرف جانے کا راستہ ہے، تو کیا ہم میں سے ہر ایک اس مغفرت کی طرف جانے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں؟ رمضان اسکا سبب بھی ہے اور اسکی طرف جانے کا طریقہ بھی، پس رمضان کا درمیانی حصّہ مغفرت ہے، اور اسکی آخری راتوں میں مغفرت ہے، وہ پورا ماہ دن بھی اور رات بھی اپنا توشہ تیار کرتا رہتا ہے، تو رمضان کے بعد ہم اﷲ سے مغفرت کیسے مانگیں گے؟
اﷲ تعالی اپنی کتابِ کریم میں فرماتا ہے، اور وہ جانتا ہے کہ ہم خطاکار بندے ہیں، اور پھسل جاتے ہیں، خواہ ہم ایمان کے کسی درجے پر پہنچ جائیں، اور اسکی حرارت ہمارے دلوں کو کتنا بھی گرما دے، ہم کبھی درست کرتے ہیں اور کبھی خطا، اسی لئے اﷲ اس جانب ہماری رہنمائی فرماتا ہے، اور وہ اس جانب خوشخبری دیتے ہوئے فرماتا ہے: (وانی لغفار لمن تاب وآمن وعمل صالحاً ثم اھتدی) (طہ، ۸۲) (البتہ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے اسکے لئے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں۔)
پس مغفرت توبہ کرنے والوں کو نصیب ہوتی ہے، جس نے توبہ کی اور جس کفر یا شرک یا معصیت یا نفاق میں وہ تھا اس سے لوٹ آیا، ،واہ اسکے گناہ کتنے بھی زیادہ ہو جائیں اور بڑھ جائیں، وہ دل سے ایمان لے آئے، نیک عمل کرے، اور رب کے فرائض ادا کرے، جو اس پر لازم کئے گئے ہیں، اور معصیت سے اجتناب کرے، ’’پھر ھدایت کو اختیار کرلے‘‘، یعنی اسکو خود پر لازم کر لے، اور ان میں سے کسی عمل کو ضائع نہ کرے، اور سنت اور جماعت کے ساتھ رہے، اور اسلام پر مرتے دم تک قائم رہے، اور جان لے کہ یہی ثواب اور نیک عمل ہے؛ مغفرت اسکا انعام ہے، اور جنت اسکا ٹھکانا ہے، اور وہ بہترین لوگوں میں سے ہے، جیسا کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں جنہوں نے خطاؤں کے بعد استغفار کر لیا، اور جب انہوں نے نیکیاں کیں ، انہیں خوشخبری ملی‘‘ (اسے طبرانی نے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے حسن قرار دیا)۔
ظاہری سبق:
آپ نبی کریم ﷺ کی مغفرت کی رات والی حدیث میں دیکھیں گے: اور وہ انہیں آخری رات بخش دیتا ہے‘‘، پوچھا گیا: کیا یہ لیلۃ القدر ہے؟ فرمایا: ’’نہیں، وہ مزدور کو کام مکمل ہونے پر پورا اجر عطا فرماتا ہے‘‘ (احمد)، ان تھوڑے سے الفاظ سے بھی آپ وہ سبق نکال سکتے ہیں، جو آپ کی باقی زندگی کے لئے ایک طریقہ وضع کر دیتا ہے۔
اور اسکے کئی فوائد ہیں: عمل کی اہمیت سے آگاہی، عمل کرنے والے (مزدور) کی فضیلت، اور اسکے اجر کا بیان، ااور اس میں پختگی اور زیادتی کے اثرات، اور اس میں مجرد مزدور کی مزدوری ہی اسکے عمل میں انتہائی افزائش کر دیتی ہے، خواہ وہ خادم ہو یا معلم یا مزدور، جب تک اس قبلے کے لئے وہ عمل کرتا رہے گا، اور اور معاہدے کے مطابق دیے گئے کام پر کاربند رہے گا، خواہ وہ افراد کی سطح پر یہ کام کرے یا جماعت کی؛ جیسے کمپنی، اسوسی ایشن، کمیٹی یا حکومت کی سطح پر، نبی اکرم ﷺ کا فرمان سب کے لئے رہنما ہے: ’’مزدور کو اسکی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو‘‘ (البانی، صحیح ابنِ ماجہ)، تو کیا ہم بھی سوچتے ہیں کہ کہ وہ اپنے خادم اور اجیر کو پوری اجرت دیں، اس میں ذرہ برابر بھی کمی نہ کریں، نہ اسے ٹالیں نہ لمبی تاریخیں دیں؟ اور کبھی ہم نے کوشش کی کہ ہم اس اجر کو سخاوت اور کرم سے بڑھا دیں؟ اور کیا ہم میں بھی کبھی خواہش پیدا ہوئی کہ ہم اسکی اجرت بغیر احسان چڑھائے اور اذیت دیے اسے اسوقت ادا کر دیں جب اسکی پیشانی پر پسینہ خشک نہ ہوا ہو؟
اور ایک اہم سبق، ان لوگوں سے درگزر کرنے کے معاملے میں جو آپ کے حق میں برائی کرے، اور اسے اﷲ کی خاطر معاف کر دینا، اسکی پردہ پوشی بھی کرنا، اور انکو ڈھانپ دینا، آپ اسے معاف کرتے رہیں حتی کہ آپ کو اﷲ معاف فرما دے، اور آپ کو اس جنس کا بدلہ بھی دیا جائے ۔۔ اﷲ تعالی فرماتا ہے: (ولیصفحوا الا تحبون ان یغفرلکم واﷲ غفور رحیم) (النور، ۲۲)، پس اگر تو اسے معاف کر دیتا ہے جو تیرے ساتھ زیادتی کرے، تو اﷲ تجھے معاف کرے گا، اور جب تو درگزر کرے گا تو تجھ سے درگزر کیا جائے گا، اور جس طرح تو پسند کرتا ہے کہ اﷲ تیرے گناہوں سے درگزر کرے، اسی طرح تو بھی دوسروں کو معاف کر دے۔
اور اسی طرح تیرے لئے درست نہیں کہ تو اپنے بھائی کو چھوڑ دے، یا تو اسکے لئے اپنے دل میں بغض اور کینہ رکھے، کیونکہ یہ تجھ سے عفو کو ختم کردے گا، اگرچہ تو گمان کرے اور اسکی موجودگی کا دعوی کرے، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: ’’مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین راتوں سے زائد کے لئے چھوڑ دے، وہ دونوں ملتے ہیں تو ایک اس جانب مڑ جاتا ہے اور دوسرا اس جانب، ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کی ابتدا کرے‘‘ (مسلم) رمضان ناراض دلوں کے لئے اصلاح کا موقع ہے، اور لوگوں کی دشمنیوں کی برف پگھلانے کا وقت ہے۔
اور جس طرح اجر اور ثواب حاصل کرنے کے لئے رمضان کے مکمل روزے رکھنا ضروری ہے، اسی طرح اعمال کی بہتری اور پختگی کا موقع بھی ہے، تاکہ آپ اس اجر کے اہل اور مستحق بن جائیں، ورنہ آپ اپنے مالک کو مزدوری کا محض دھوکہ دے رہے ہیں، اور اپنی امانتوں میں خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں، پھر ہر عمل کے مکمل ہونے پراﷲ عزوجل کے سامنے استغفار بھی کریں، اور اپنے قصوروں کی خواہ وہ عمداً سرزد ہوئے ہوں یاسہواً معافی مانگ لیں (واستغفروا اﷲ ان اﷲ غفور رحیم) (المزمل، ۲۰) (اﷲ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اﷲ بڑا غفور رحیم ہے۔)
اﷲ کے غضب سے ڈریے:
اور آخری بات ۔۔ رمضان کے بعد فخر کے دھوکے سے ڈریے، آپ یہ نہ کہیں: اﷲ نے مجھے معاف کر دیا ہے، اور اس کے بعد جو چاہیں کرنا شروع کر دیں، یا تو آپ اعمال میں کمی کا مظاہرہ شروع کر دیں، یا رب کی نافرمانی کرنے لگیں، یا عبادت کو بوجھ سمجھنے لگ جائیں، یا اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرنا شروع کر دیں، بلکہ آپ کوشش کریں کہ اب سے دائما آپ رب کی مغفرت میں رہیں، اور اﷲ کے غضب اور اسکی ناراضی سے ڈرتے رہیں، اﷲ سبحانہ وتعالی ہم سے فرماتا ہے: (اعلموا ان اﷲ شدید العقاب وان اﷲ غفور رحیم) (المائدہ، ۹۸)(رسول پر تو صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے، آگے تمہارے کھلے اور چھپے سب حالات کا جاننے والا اﷲ ہے۔)
اور یہ بھی : (غافر الذنب وقابل التوب شدید العقاب ذی الطول) (غافر، ۳) (گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا اور بڑا صاحبِ فضل ہے۔) اور اس نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا: (نبیء عبادی انی انا الغفور الرحیم۰ وان عذابی ھو العذاب الالیم) (الحجر، ۴۹ ۔ ۵۰) (اے نبیؐ، میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت درگزر کرنے والا اور رحیم ہوں، مگر اس کے ساتھ میرا عذاب بھی نہایت دردناک عذاب ہے۔)
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...