جب بھی پاکستان میں کوئی نیا لیڈر یا پارٹی سر ابھارتی ہے اس کا یہی ایک نعرہ ہوتا ہے “نیا پاکستان”۔ اس نعرے کو میں آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں۔ پاکستان تو 1947 میں بناتھا اس وقت اسے دنیا نے “نیا نیا” بنتے اور ابھرتے دیکھا۔ دنیا حیران تھی کہ مفلوک الحال اور پسے ہوئے لوگوں نے کس طرح ایک ملک بنا لیا۔ پاکستان بننے کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ اس نظام کا قیام تھا جو نظام مصطفیٰﷺ کہلاتا ہے۔ یہی نعرہ ایسی قوت بنا جس کے سامنے نہ فرنگی ٹھہر سکا نہ ہندو اور نہ کوئی اور قوت۔
پاکستان بنانے کی پوری تحریک میں کوئی ایک بھی ایسی آواز یا نعرہ جو اس نعرے کے علاوہ “پاکستان کا مقصد کیا لاالہٰ الاللہ” بر صغیر انڈ و پاک کی ایک حد سے دوسری حد تک گونجا ہو، کوئی تاریخ سے ثابت کر کےدکھا سکتا ہو تو دکھائے۔ جواب “نہیں” کے علاوہ کسی میں بھی نہیں آسکتا اس لئے کہ اگر اس نعرے کے علاوہ کوئی اور نعرہ ایسا ہے ہی نہیں جو مسلمانوں کا لہو گرما سکے۔ 1857 کی جنگ آزادی ہو، تحریک خلافت ہو، 1940 کی قراداد مقاصد کے بعد چلنے والی پاکستان موومنٹ ہو، ایوب خان کے خلاف علم بغاوت ہو، جہاد افغان میں لاکھوں پاکستانیوں کی جان، مال، عزت و آبرو کی پرواہ کئے بغیر شرکت ہو یا مجلس عمل کی “کتاب” کا کرشمہ ہو، ان سب کے پیچھے جس نعرے کی قوت کارفرما رہی وہ یہی نعرہ تھا جس پر آج بھی عوام ہر قربانی دینے کیلئے تیار ہیں اس لئے کہ اس نعرے سے قیمتی اور وزنی وہ کسی بھی نعرے یا دعوے کو نہیں سمجھتے۔
“نیا ملک” بنانے یا نیا پاکستان بنانے کا نعرہ پاکستان میں سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے بلند کیا تھا لیکن یہ نعرہ ان کی اس انتخابی مہم کا حصہ نہیں تھا جس کے نتیجے میں انھوں نے 1970 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ بھٹو کو دو وجوہات کی وجہ سے شہرت حاصل ہوئی تھی جس میں اولالذکر ایوب خان جیسے مطلق العنان حکمران کے خلاف آواز بلند کرنا اور ثانی الذکر “روٹی کپڑا اور مکان” کا نعرہ تھا۔ لوگ سخت گیر حکومت سے تنگ آئے ہوئے تھے اور غربت کا یہ عالم تھا کہ دو وقت کے نانِ جویں کو بھی ترس کر رہ گئے تھے۔ نعرہ کیوں کہ لوگوں کے دل کی آواز تھی اس لئے دلوں میں گھر کرگیا۔ اس زمانے کے انتخابنی نتائج تو آئے لیکن جو نتیجہ ملک کے دو لخت ہونے کی صورت میں سامنے آیا اس کے متعلق تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ملک کی دولختگی کے بعد بھٹو کا یہ نعرہ کہ “نیا ملک” بنانا ہوگا مقبولیت اختیار کر گیا اور شاید اسے مقبولیت اختیار بھی کرنی چاہیے تھی اس لئے کہ آدھے سے زیادہ پاکستان ٹوٹ کر (موجودہ) پاکستان سے علیحدہ ہوچکا تھا اور (موجودہ) پاکستان کے سارے تاروپوبکھر چکے تھے جس کی تنظیم نئے سرے سے کرنی تھی تاکہ دنیا میں پاکستان نامی ایک ملک قائم رہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ 1971 میں پاکستان دوبارہ بنا اور دنیا کے نقشے میں پاکستان پاکستان کے نام سے پکارا گیا البتہ جو پاکستان (مشرقی) پاکستان سے ٹوٹا اس نے اس حد تک لفظ “پاکستان” سے نفرت کا اظہار کیا کہ اس پاکستان کو “مشرقی پاکستان” تک کہلانا گوارہ نہ کیا ورنہ دنیا میں ایک ہی نام رکھنے والے اور ممالک بھی تھے۔ اگر ایسا ہوجاتا تو ممکن تھا کہ مشرقی و مغربی جرمنی کی طرح پاکستان بھی ایک ہوجاتا۔
نئے پاکستان کی کیا چیز نئی تھی، یہ بات شاید ہی کوئی مجھے سمجھا سکے۔ کیا خطہ نیا تھا؟، کیا پاکستان کے مقصد وجود سے انکار کرکے اس میں نظام زندگی کو کسی اور نظریہ زندگی پر استوار کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان معرض وجود میں آنے کے فوراً بعد سے تا حال اہل طاغوت کی یہ بھر پور کوشش رہی ہے کہ کسی طرح پاکستان کے مقصد وجود کو عوام کے دلوں سے نکال پھینکا جائے لیکن کوئی سازش اس سلسلے میں آج تک کامیاب نہیں ہوسکی اور نہ ایسی کوئی بھی چال پاکستان کے مسلمانوں کو گمراہ کر سکے گی (ان شااللہ تعالیٰ)۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاحال طاغوت کو اپنی چالوں میں منھ کی کھانی پڑی ہے لیکن جس مقصد کی تکمیل کیلئے اس ملک کو بنایا گیا تھا اس کی جانب بھی کوئی خاطرخواہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ اللہ سے کئے گئے وعدے سے انحراف کی ایک سزا پاکستان کے دولختگی کی صورت ہمارے سامنے ہے اور آگے آگے مزید کیا ہونا ہے، اس سلسلے میں اللہ سے پناہ ہی مانگی جاسکتی ہے۔
نئے پاکستان کو نیا بنانے کیلئے پاکستان میں “سوشلزم” کو لانے کی کوشش کی گئی اور یہ مکروہ کام بھی کیا گیا کہ اس نظام کو جو صرف اور صرف پوری دنیا میں چین کے علاوہ کہیں بھی نافذ نہیں، پاکستان میں مروج کرنے کیلئے “اسلامی” بھنگھار بھی دیا گیا لیکن جو پاکستان اللہ کے نام پر حاصل ہوا تھا وہ اس وقت کے نادان حکمران کی نادانی سے محفوظ رہا اور کوئی ایک قانون بھی سوشلزم کے فروغ کیلئے نہ بن سکا۔
آج کل پھر ایک غوغا اٹھ رہا ہے کہ پاکستان کو ہم نیا پاکستان بنائیں گے۔ یہ نعرہ کس کا ہے اور کون اس کو شد و مد کے ساتھ اٹھارہا ہے، اس کا نام لئے بغیر میں یہاں صرف یہ کہ کہنا چاہونگا کہ “پاکستان” کیلئے ایسا کیا کیاجائے گا کہ یہ “نیا” کہلانے لگے گا۔ 1947 میں تو یہ بہر لحاظ نیا ہی تھا اس لئے اگر کوئی “نیا” کا لفظ استعمال کرتا تو وہ درست ہی ہوتا۔ 1971 میں بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد جب پاکستان کا وجود ہی خطرے میں پڑگیا تھا اگر کسی نے “نیا” کا لفظ استعمال کیا تو بات کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے لیکن فی زمانہ “نیا پاکستان” بنانے سے کیا مراد ہے، یہ بات ماورائے عقل فہم ہے۔ اگر کسی کا مقصد “دو نہیں ایک پاکستان” کہنے مطلب امیر و غریب کے فرق کو مٹانا ہے، انصاف میں اونچ نیچ کو ختم کرنا ہے یا سب کو برابر کا جینے کا حق دینا ہے تو اس میں مجھے کوئی ایسی بات دکھائی ہی نہیں دیتی جس کے متعلق میں یہ کہوں کہ ان باتوں سے پاکستان “نیا” ہو جائے گا۔
میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ پاکستان کا مقصد وجود ہی “حاکمیت الٰہی” کا قیام تھا اور اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو ہر کس ناکس کو ایسے حقوق دے سکتا ہے جن حقوق کا تصور تک کسی اور مذہب، دین، نظام حیات اور کسی بھی طرز حکومت کی فلاسفی میں نہیں ہے۔ عورتوں اور مردوں کے حقوق ہوں، معاشرے میں رہنے سہنے کے اصول ہوں، امیر و غریب کا فرق ہو، نسل، زبان، رنگ اور علاقے کی برتری و کمتری کا لحاظ ہو، کسی مذہب سے نفرت کا کوئی شائبہ ہو، چھوٹے بڑے کے آداب ہوں، غرض زندگی کا کوئی بھی شعبہ یا پہلو ہو، اسلام سب کا احاطہ کرتا ہے۔ ان سب باتوں کو سامنے رکھ کر کوئی بھی مجھے یہ سمجھائے کہ اس پاکستان میں ایک مسلمان بھی کیا کوئی ایسی نئی بات پیش کر سکتا ہے جس کو یہ کہا جائے کہ یہ شریعہ السلام میں بیان کی جانے والی باتوں سے (نعوذباللہ) زیادہ نئی اوربہتر ہے۔
ان چند باتوں کو سامنے رکھ کر کوئی مجھے یہ سمجھائے کہ وہ کونسی بات ہے جو اس پاکستان کو نیا بنا سکتی ہے۔
بھٹو نے سوشلزم کے راستے اسلام کے راستے مسد ود کرکے پاکستان کو “نیا” بنانے کی کوشش کی لیکن اللہ نے اور پاکستانی عوام نے خود اس کے راستوں ہی کو مسدود کر کے رکھ دیا۔ ماضی و حال کے “طاقتور” حکمرانوں نے بہت کچھ من مانیاں کیں لیکن ان کی بھی ایک نہ چلی۔ سویلین نے بھی آئین و قانون کے ساتھ بہت کھلواڑہ کیا لیکن وہ بھی اب تک اپنا سا منھ لئے بیٹھے ہیں البتہ “جمہوریت” کے شیطان کے دام میں ہر مذہبی و غیر مذہبی سیاسی لیڈر اور عوام بری طرح پھنس چکے ہیں لیکن اس کے باوجود اللہ نے کسی ایسے نظام کے ہاتھ پیروں کو پاکستان میں نہیں پھینے دیا جو سرتا پا اللہ سے سر کشی پر بنایا گیا ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں اللہ کا حقیقی نظام زندگی ایک دن کیلئے بھی اپنی اصل شکل و صورت میں نہیں چل سکا لیکن اللہ کے دین کے سراسر خلاف بھی کوئی نظام اس ملک میں نہ صرف یہ کہ نافذ نہیں ہو سکا بلکہ ہر ایسی ناپاک کوش کا انجام بہت بری طرح ناکام ہوا۔
پاکستان تو لفظ ہی ایسا ہے کہ اس کے آگے پیچھے مزید کچھ اورلگانے کی ضرورت ہی نہیں۔ “پاک” یعنی ہر برائی، ظلم، جبر، تفریق اور امتیاز سے مبرہ اور “ستان” یعنی زمیں، جگہ اورعلاقہ وغیرہ۔ یہ کیوں پاک کہلاتا ہے اور کیوں ستان کہلاتا ہے، جب بھی اس پر غور کر لیا جائے گا پھرکوئی بھی یہ بیوقوفی نہیں کریگا کہ اس کے آگے پیچھے کچھ اور لگائے۔
اس دنیا میں افغانستان بھی ہے یعنی افغانوں کا علاقہ، ازبکستان بھی ہے یعنی ازبکوں کا علاقہ، ترکمانستان بھی ہے یعنی ترکمانیوں کا علاقہ۔ یہ سب ممالک کسی نہ کسی “عصب” پر مشتمل ہیں لیکن ملک “پاکستان” میں ایسی کسی خرافات کی عکاسی نہیں اسی لئے یہاں دنیا کے ہر ملک سے لوگ آکر آباد ہو سکتے ہیں اور آباد ہیں بھی۔ یہ سر زمین مقدس سر زمین ہے۔ اللہ کی عنایت کردہ ہے اور شہیدوں کے لہو کی خشبو سے مہکی ہوئی ہے۔ اسے “نیا” کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہاں اگر ضرورت ہے تو اس امر کی ہے کہ پاکستان کو پاکستان بنایا جائے، اللہ سے کئے گئے وعدے کو پورا کیا جائے، اس کے اور اس کے رسول ﷺ کی شریعت کو نافذ کیا جائے۔ یہی پاکستان کا مقصد وجود ہے اور یہی وہ عمل ہے جس کے بغیر پاکستان کبھی پاکستان نہیں بن سکتا۔