ایمان مغازی الشرقاوی
ترجمہ: میمونہ حمزہ
(۴)
ہم میں سے ہر شخص خواہ وہ نافرمان ہو یا فرماں بردار ، یکساں طور پر اﷲ سے محبت کا دعویدار ہے، لیکن اﷲ سبحانہ وتعالی سے محبت کی پہلی کڑی ،اسکی بات ماننا اور اتباع کرنا ہے، اور نفسِ امارہ جو برائی پر اکساتا رہتا ہے اسکی اور خواہشِ نفس کی مخالفت کرنا ہے، حسن بصری اور دوسرے سلف وغیرہ فرماتے ہیں: کچھ لوگوں نے گمان کیا کہ انہیں اﷲ سے محبت ہے، پھر اﷲ نے انہیں اس آیت سے آزمایا، اور فرمایا: (قل ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ) (آل عمران، ۳۱) (اے نبیؐ، کہہ دو کہ ’’اگرتم حقیقت میں اﷲ سے محبت رکھتے ہو ، تو میری پیروی اختیار کرو، اﷲ تم سے محبت کرے گا۔)
اور حسن سے روایت ہے، اصحاب النبی ﷺ نے کہا: اے اﷲ کے رسولﷺ ، ہم اپنے رب سے شدید محبت کرتے ہیں، پس اﷲ نے پسند کیا کہ وہ انکی محبت کو علم سے جانے، تو اس نے یہ آیت نازل فرمائی ۔۔ اور سچی محبت سے مراد پیروی اور فرمانبرداری ہے، اور محبوب کی پسند کو اپنی پسند اور اسکے ناپسند کا اپنا ناپسندیدہ بنا لینا، اﷲ عز وجل نے فرمایا ہے: (قل ان کان آباء کم وابناء کم و اخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال اقترفتموھا وتجارۃ تخشون کسادھا ومساکن ترضونھا احب الیکم من اﷲ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی اﷲ بامرہ واﷲ لا یھدی القوم الفاسقین) (التوبۃ، ۲۴) (اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں، اور تمہارے عزیز و اقارب، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اﷲ اور اسکے رسولؐ اور اسکی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اﷲ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اﷲ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔)
اسطرح ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ایسی خواہش کی پیروی نہ کرے جو اسکا راستہ اﷲ اور اسکے رسول ﷺکی محبت تک پہنچنے سے روکے،اور وہ حب اﷲ اور حبِ رسولﷺ پر خواہشِ نفس کی کسی صنف کو بھی ترجیح نہ دے، اور وہ اﷲ اور اسکے رسول کی رضا پر اپنی خواہش کو مقدم نہ رکھے، سب سے پہلے وہ خود کو اﷲ اور اسکے رسولﷺ کی منع کردہ اشیاء سے باز رکھے، سہل بن عبد اﷲ کا قول ہے: ’’حب الہی کی علامت حب القرآن ہے، اور حبِ قرآن کی علامت حبِّ نبی ﷺ ہے، اور حبِ نبیﷺ کی علامت حبِّ سنت ہے، اور حبِّ سنت کی علامت حبِّ آخرت ہے‘‘۔
خواہش ۔۔ اور عقل:
اور خواہشِ نفس بھی بندے کے لئے راہزن بن جاتی ہے، جب وہ اﷲ کی رہنمائی کے بغیر اسکی پیروی میں لگ جائے، اور ھوی (خواہش پرستی) کا استعمال ان معنوں میں معروف ہے: وہ خلافِ حق کی جانب جھکاتی ہے، جیسا کہ اﷲ تعالی کا فرمان ہے:(ولا تتبع الھوی فیضلک عن سبیل اﷲ) (ص، ۲۶) (اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرکہ وہ تجھے اﷲ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔)
اور اسکا فرمان: (واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی ۰ فان الجنۃ ھی الماوی۰) (النازعات، ۴۰ ۔ ۴۱) (اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے خوف کیا، اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا، جنت اسکا ٹھکانا ہو گی۔)
اور کبھی ھوی کا لفظ محبت اور جھکاؤ کے لئے استعمال ہوتا ہے، اور اسے حق کی جانب جھکاؤ کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ شعبی کا قول ہے: ھوی کو ھوی کہتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ اپنے ساتھی کو آگ میں دھکیلتا ہے، اور ھوی سے مراد کسی چیز کی جانب جھکاؤ ہے۔
ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں: ھوی بھی ایک الہ ہے جسے اﷲ کے سوا پوجا جاتا ہے، اور اﷲ نے قرآن میں جہاں بھی ھوی کا ذکر کیا اسکی مذمت ہی کی ، اﷲ تعالی کا فرمان ہے: (واتبع ھواہ فمثلہ کمئل الکلب ان تحمل علیہ یلھث او تترکہ یلھث) (الاعراف، ۱۷۶) (اور اپنی خواہشِ نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہذا اس کی حالت کتے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔)
مزید فرمایا: (واتبع ھواہ وکان امرہ فرطا) (الکھف، ۲۸) (جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔)
اور فرمایا: (بل اتبع الذین ظلموا اھواء ھم بغیر علم فمن یھدی من اضل اﷲ) ( الروم، ۲۹) (مگر یہ ظالم بے سمجھے بوجھے اپنے تخیلات کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ اب کون اس شخص کو راستہ دکھا سکتا ہے جسے اﷲ نے بھٹکا دیا ہو؟)
اور فرمایا: (فان لم یستجیبوا لک فاعلم انما یتبعون اھواء ھم ومن اضل ممن اتبع ھواہ بغیر ھدی من اﷲ) (القصص، ۵۰) (اب اگر وہ تمہارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ در اصل یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں، اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟)
ابو درداءؓ نے فرمایا: ’’جب آدمی اپنی ھوائے نفس ، عمل اور علم کو اکٹھا کر دے، اور اسکا اس روز کا عمل ھوائے نفس کی پیروی میں گزرا، تو وہ برا دن ہے، اور اگر اسکا عمل اسے علم کے تابع ہوا، تو اسکا وہ دن اچھا دن ہے۔
رہی عقل ، تو وہ اسی سے اپنی خواہش کو قابو کرتا ہے، اور وہ اسے نقصان دہ راستے پر چلنے سے روکتی ہے، اور اسے منع کرتی ہے کہ وہ اسے دور کھینچ لے جائے، بعض حکماء کا قول ہے: ’’عقل ناراض دوست ہے، اور ھوائے نفس وہ دشمن ہے جس کی پیروی کی جاتی ہے‘‘، بعض علماء کا بیان ہے: ’’اﷲ نے فرشتوں میں بغیر شہوت کے عقل رکھی، اور جانوروں میں شہوت عقل کے بغیر رکھی، اور ابنِ آدم کو دونوں عطا کر دیے، پس اگر انسان کی عقل شہوت پر غالب آگئی تو وہ فرشتوں سے بہتر ہے، اور اگر اسکی شہوت عقل پر غالب آگئی، تو وہ جانوروں سے بھی بدتر ہے‘‘۔
ابو الحسن الماوردی کا قول ہے: ھوائے نفس خیر سے روکتی ہے، اور عقل کی ضد ہے؛ کیونکہ وہ اخلاق کے قبیح ہونے پر منتج ہوتی ہے، اور اس سے ایسے اعمال ظاہر ہوتے ہیں جو رسوائی کا سبب بنتے ہیں، اور وہ انسان کے پردے کو چاک کرتی ہے، اور شر کے راستوں کو کھولتی ہے ۔۔ اور جب ھوائے نفس غالب ہوتی ہے، تو وہ ہلاکت کے راستوں پر داخل کر دیتی ہے، اور عقل اس پر پر مشقت نگران بن جاتی ہے، وہ اسکی غفلت میں پھسلنے کو دیکھتی رہتی ہے، اور اسکے غلبے کی علامات کا دفاع کرتی ہے، اور اسکے دھوکے اور مکاریوں کا دفاع کرتی ہے، کیونکہ ھوائے نفس کا غلبہ بہت شدید ہوتا ہے، اور اسکے مکر کا راستہ چھپا ہوا ہوتا ہے۔
ھوی (خواہشِ نفس) اور عقل کے درمیان مکالمہ:
گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ھوی اور عقل آپس میں جھگڑ رہی ہیں، اور وہ دونوں بلا تلوار حروف کی کشتی کر رہی ہیں، ہر ایک فتح یاب ہونا چاہتی ہے اور اپنے ساتھی کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے، وہ دونوں باہم گفتگو کر رہی ہیں ۔۔ ھوی فخر کرتی ہے ، اور اٹھلا کر چلتی ہے گویا کہ اس نے اسے بچایا ہے؛ اور وہ عقل سے کہتی ہے: میں ھوائے نفس ہوں، اور اے چھوٹی سی عقل جب میں چل پڑتی ہوں تو تجھے جب اور جس سمت چاہتی ہوں لے چلتی ہوں۔ تو عقل اسے یہ کہہ کر خاموش کروانا چاہتی ہے: میں عقل ہوں، میں تجھے اﷲ کی جانب پکارتی ہوں، اور برائی کی تمیز دیتی ہوں، تجھے گناہوں سے روکتی ہوں، اور تجھے بدعت سے روکتی ہوں، پھر تو وہی کرتا ہے جو میں چاہتی ہوں۔ ان دونوں کے درمیان مناظرہ جاری رہتا ہے، اور اعضاء گواہی دیتے ہیں:
۔ میں ھوی ہوں، جو الھوی سے مشتق ہے، میں تمہاری غفلت میں تمہیں بہا لے جاتی ہوں، اور تمہارے محسوس کئے بغیر تمہیں نیچوں سے نیچے گہرائیوں میں پھینک دیتی ہوں۔
۔ میں عقل ہوں، مجھے ربِ اعلی نے بنایا ہے، اور یہی بات اسکی عظمت کی دلیل ہے، میں اسکی بندگی کی دعوت دیتی ہوں،اور اسی کی فرمانبرداری کے بارے میں سوچتی ہوں، اور میں اپنے ساتھی کو اعلی علیین تک پہنچا دیتی ہوں۔
۔ میں ھوی ہوں، میں اپنے ساتھیوں کو بدعت کے دسترخوان پر اکٹھا کرتی ہوں، انہیں نافرمانی کا کھانا کھلاتی ہوں، میرے ساتھی بہت زیادہ ہیں، اور میرے پیروکار جانے پہچانے ہیں، شیطان میرا دوست ہے، اور نفسِ امارہ جو برائی پر اکساتا ہے وہ میرا ساتھی ہے، اور انسانوں میں ھدایت کو چھوڑ کر میرا اتباع کرنے والا میرا ساتھی ہے، وہ ساتھی ،جس نے رب کی اعلانیہ نافرمانی کی، اور تمہاری نصیحتوں کو اس نے ایک طرف رکھ دیا اے عقل۔
۔ میں عقل ہوں، میں عاقلوں کو سنت کے دسترخوان پر جمع کرتی ہوں، انہیں اطاعت کی حلاوت کا مزا چکھاتی ہوں، اور قرب کی لذت، اور علم کے دسترخوان پر بٹھاتی ہوں، اﷲ میرا خالق ہے، اور میرے ساتھی وہ عقلمند لوگ ہیں جو اﷲ اور اسکے رسول ﷺ کے راستے پر چلتے ہیں، اور میرے دوست علماء میں سے وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو شرک سے خبردار کرتے ہیں اے ھوی، اور میرے ساتھی مخلص عمل کرنے والوں میں سے ہیں جو اتباعِ سنت کے حریص ہیں۔
اور انسان کے ھوائے نفس کی پیروی کے کئی اسباب ہیں، ان میں پہلا جہالت ہے، اﷲ تعالی فرماتا ہے: (بل اتبع الذین ظلموا اھواء ھم بغیر علم فمن یھدی من اضل اﷲ وما لھم من ناصرین) (الروم، ۲۹) (مگر یہ ظالم بے سمجھے بوجھے اپنے تخیلات کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ اب کون اس شخص کو راستہ دکھا سکتا ہے جسے اﷲ نے بھٹکا دیا ہو؟ ایسے لوگوں کا تو کوئی مددگار نہیں ہو سکتا۔)
اور وہ فرماتا ہے: (ومن اضل ممن اتبع ھواہ بغیر ھدی من اﷲ) (القصص، ۵۰) (اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گاجو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟)
یعنی وہ اپنے دلوں کی آراء مانتے ہیں، جنہیں وہ خود پسند کرتے ہیں، اور جنہیں شیطان بلا حجت و بلا دلیل انکے لئے پسندیدہ قرار دیتا ہے، کہ وہ کتاب اﷲ سے ماخوذ ہیں۔ اور وہ فرماتا ہے: (افمن کان علی بینۃ من ربہ کمن زین لہ سوء عملہ واتبعوا اھواء ھم) (محمد، ۱۴) (بھلا کہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف و صریح ہدایت پر ہو، وہ ان لوگوں کی طرح ہو جائے جن کے لئے ان کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کے پیرو بن گئے ہیں۔)
اور اﷲ تعالی مشرکین کے لئے فرماتا ہے: (ان ھی الا اسماء سمیتموھا انتم وآباء کم ما انزل اﷲ بھا من سلطان ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس ولقد جاء ھم من ربھم الھدی) (النجم، ۲۳) (دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں۔ اﷲ نے ان کے لئے کوئی سند نازل نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم وگمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشاتِ نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ انکی طگرف انکے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔)
انہوں نے اپنی ھوائے نفس کی پیروی کی، کیونکہ انہوں نے وہ وحی سے حاصل نہیں کیا تھا ، جو انکے پاس انکے رب کی طرف سے آئی تھی، اور نہ اﷲ کے رسول نے انہیں اسکی خبر دی تھی، بلکہ یہ انہوں نے اپنی طرف سے تراشا تھا، یا اپنے باپ دادا سے لیا تھا، اور وہ بھی انکی مانند اﷲ کے ساتھ کفر ہی کرتے تھے۔
اور اسی میں سے ایک کبر ہے ۔۔ اسی لئے ہم قرآنِ کریم میں دیکھتے ہیں کہ ہمارا رب سبحانہ وتعالی بنی اسرائیل کی صفات میں انبیاء کے مقابلے میں ظلم، عناد، مخالفت اور استکباربیان کرتا ہے، اور یہ کہ وہ اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کرتے ہیں (افکلما جاء ھم رسول بما لا تھوی انفسکم افتکبرتم ففریقاً کذبتم وفریقاً تقتلون) (البقرۃ، ۸۷)(پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشاتِ نفس کے خلاف کوئی چیز لیکر تمہارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا۔)
اور انہیں میں دل کی غفلت ہے ۔۔ اﷲ تعالی فرماتا ہے: (واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالغداۃ والعشی یریدون وجھہ ولا تعد عیناک عنھم ترید زینۃ الحیاۃ الدنیا ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھواہ وکان امرہ فرطاً) (الکھف، ۲۸) (اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلبگار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے، اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے، اور جسکا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔)
جیسا کہ خواہشِ نفس کی پیروی کے اسباب میں دنیا کی زندگی سے محبت بھی ہے، اور ضعفِ ایمان، بری صحبت، خود پسندی، اور دلوں کے امراض بھی ہیں، اور ان اسباب سے درج ذیل نتیجہ برامد ہوتا ہے۔
اتباعِ ھوی کے آثار:
ھوی انسان کے لئے خیر کے راستے روکنے والا راہزن ہے، جو اسے حق کی پیروی سے روکتا ہے، اور اسے حسنِ عمل سے دور کر دیتا ہے، اور اسے ایسے امراض میں مبتلا کر دیتا ہے جو اسکے لئے انتہائی مہلک ہیں اور صرف اسکے لئے ہی نہیں بلکہ فرد اور معاشرے دونوں پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں، بلکہ نفوس اور ارواح دونوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، اور اسکے اثرات میں سے درج ذیل ہیں:
۔ وہ اعضاء کو معطل کرتے اور اﷲکے راستے سے گمراہ کرتے ہیں ۔۔
اﷲ تعالی کا فرمان ہے: (افرأیت من اتخذ الھہ ھواہ واضلہ اﷲ علی علم وختم علی سمعہ وقلبہ وجعل علی بصرہ غشاوۃ فمن یھدیہ من بعد اﷲ افلا تذکرون) (الجاثیۃ، ۲۳) (پھر کیا تم نے اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اﷲ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اسکے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اسکی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اﷲ کے بعد اب کون ہے جو اسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟)
پس وہ اپنی ھوی کا حکم مانتا ہے، وہ اسے جتنا خوبصورت دکھائے وہ کر گزرتا ہے، اور جس قدر اسے قبیح دکھائے وہ اسے چھوڑ دیتا ہے، اور ھوائے نفس کے اتباع میں ہر چیز کی پیروی کرتا ہے، قتادہ نے فرمایا: یہ کافر ہے جو ھوائے نفس سے اپنا دین چنتا ہے، اور جس چیز کو وہ مزین کرے اسی پر سوار ہو جاتا ہے، اور سعید بن جبیر نے فرمایا: ان میں سے ایک پتھر کو پوجتا تھا، اور جب اسے اس سے زیادہ خوبصورت نظر آتا وہ پہلے کو پھینک دیتا اور دوسرے کو پوجنے لگتا۔ اور کہا گیا: یہی معنی ہیں اس کے: کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنے دین کو اپنی خواہشِ نفس کے تابع کر لیا، پس اسے جو شے دلپسند لگتی ہے اسی پر سوار ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ اﷲ پر ایمان نہیں لاتا، اور اسکے حرام کو حرام نہیں ٹھہراتا، نہ اسکے حلال کو حلال سمجھتا ہے، اسکا یہی دین ہے کہ جو اسے بھا جائے اسے اختیار کر لیتا ہے۔
اور جو فرمایا گیا کہ کیا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے، تو یہ تعجب کے لئے ہے، کیوکہ صاحبِ عقل لوگ اس جہالت پر تعجب کرتے ہیں۔
۔ وہ تکذیب کرتے ہیں اور اﷲ اور رسول کی بات نہیں مانتے ۔۔
اﷲ تعالی فرماتا ہے: (وکذبوا واتبعوا اھواء ھم وکل امر مستقر) ( القمر، ۳) (انہوں نے اس کو بھی جھٹلا دیا اور اپنی خواہشاتِ نفس ہی کی پیروی کی۔ ہر معاملہ کو آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر رہنا ہے۔)
اور اﷲ تعالی کا فرمان ہے: (فان لم یستجیبوا لک فاعلم انما یتبعون اھواء ھم ومن اضل ممن اتبع ھواہ بغیر ھدی من اﷲ ان اﷲ لا یھدی القوم الظالمین) (القصص،۵۰) (اب اگر وہ تمہارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں، اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟ اﷲ ایسے ظالموں کو ہرگز ہدایت نہیں بخشتا۔)
اور فرمایا: (فلا یصدنک عنھا من لا یؤمن بھا واتبع ھواہ فتردی) (طہ، ۱۶) (پس کوئی ایسا شخص جو اس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہشِ نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے، ورنہ تو ہلاکت میں پڑ جائے گا۔)
۔ نعمت کا چلے جانا ۔۔
اﷲ تعالی نے فرمایا ہے: (واتل علیھم نبأ الذی آتیناہ آیاتنا فانسلخ منھا فاتبعہ الشیطان فکان من الغاوین ۰ ولو شئنا لرفعناہ بھا ولکنہ اخلد الی الارض واتبع ھواہ ) (الاعراف (۱۷۵ ۔ ۱۷۶) (اور اے نبیؐ، ان کے سامنے اس شخص کا حال بیان کروجس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا۔ آخر کار شیطان اسکے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔ اگر ہم چاہتے تو اسے ان آیتوں کے ذریعے سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا، اور اپنی خواہشِ نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا۔)
۔ اپنے ساتھی کو عدل سے روکتا ہے، اور غیر حق کی گواہی پر اکساتا ہے ۔۔
اﷲ تعالی نے فرمایا ہے: (یاایھا الذین آمنوا کونوا قوّامین بالقسط شھداء ﷲ ولو علی انفسکم او الوالدین والاقربین ان یکن غنیاً او فقیراً فاﷲ اولی بھما فلا تتبعوا الھوی ان تعدلوا وان تلووا او تعرضوا فان اﷲ کان بما تعملون خبیراً) (النساء، ۱۳۵) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اﷲ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ کو اس کی خبر ہے۔)
اور اسکا فرمان: (فلا تتبعوا الھوی ان تعدلوا) یعنی تمہیں ھوی اور عصبیت اس پر آمادہ نہ کرے، اور نہ لوگوں کے خلاف بغض کہ تم اپنے معاملات اور امور میں عدل کو ترک کر دو، بلکہ ہر حال میں عدل سے چمٹے رہو۔
۔ فیصلے میں ظلم پر آمادہ کرتا ہے ۔۔
اﷲ تعالی فرماتا ہے: (فاحکم بین الناس بالحق ولا تتبع الھوی فیضلک عن سبیل اﷲ) (ص، ۲۶) (تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر، اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اﷲ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔) پس خواہش نفس کی پیروی تباہ اور ہلاک کرنے والی ہے، شعبی کا قول ہے: اﷲ تعالی نے حکام سے تین چیزوں کا عہد لیا: کہ وہ ھوی کی پیروی نہ کریں گے، اور لوگوں سے نہ ڈریں گے بلکہ اس سے ڈریں گے، اور یہ کہ اسکی آیات کے بدلے تھوڑی قیمت وصول نہ کریں گے۔ (قرطبی)۔
۔ عمل میں تفریط پر ابھارتا ہے ۔۔
اﷲ تعالی فرماتا ہے: (ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھواہ وکان امرہ فرطاً) (الکھف، ۲۸) (کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہیاور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔)
یعنی دین اور عبادت سے ہٹ کر دنیا میں مشغول ہو جائے، اور اسکا معاملہ افراط و تفریط پر مبنی ہو، یعنی اسکے اعمال اور افعال بیوقوفانہ ہوں اور تفریط اور ضیاع پر مبنی ہوں۔
۔ بدعات کو ظہور میں لانے اور ان پر عمل کرنے پر اکساتا ہے ۔۔
کبھی وہ عقائد اور عبادات میں ہوتی ہے، اور بدعت تو پیدا ہی شرع کے مقابلے میں ھوی کو مقدم رکھنے سے ہوتی ہے، اسی لئے ان لوگوں کو اہل الھوی کہا جاتا ہے، اسی طرح جب اطاعات کا راستہ کٹ جاتا ہے تو راہزن گناہوں کی افزائش کا سبب بن جاتے ہیں۔
۔ نیک عمل کرنے کا راستہ رک جاتا ہے ۔۔
نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا حتی کہ اسکی ھوی (خواہشِ نفس) اس چیزکے تابع نہ ہو جائے جو میں لیکر آیا ہوں‘‘ (اربعین نووی)۔
ہماری زندگی میں ھوی کے اتباع کی مختلف اور متنوع صورتیں ہیں، ہم ان سے غافل ہو جاتے ہیں، اور انکا کچھ احساس نہیں کرتے ۔۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ لوگ حبّ اﷲ عز وجل کا دعوی کرتے ہیں لیکن انکے اعمال، اخلاق اور انکا عقیدہ ، انکی عبادات اور معاملات سب اس محبت کی نفی کی چغلی کھا رہے ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اﷲ کی شریعت کو چھوڑ کر خواہشِ نفس کی پیروی میں لگے ہوتے ہیں، ان میں سے ایسے بھی ہیں جو نماز پڑھتے ہیں نہ روزہ رکھتے ہیں، اور (بڑی ڈھٹائی سے) کہتے ہیں: اﷲ بڑا غفور رحیم ہے! اور ایسے بھی ہیں جو کھانے پینے سے رکنے کا روزہ تو رکھ لیتے ہیں، مگر وہ خواہشِ نفس کی پیروی کرتے ہیں، اور انکے اعضاء افطار کر لیتے ہیں، وہ برے اخلاض سے پیش آتے ہیں، اور یوں روزے کی حکمت ضائع کر دیتے ہیں۔
کچھ لوگ عبادت میں کمی یا زیادتی سے نقص پیدا کر دیتے ہیں، اور ایسے اعمال بجا لاتے ہیں جن کا اﷲ نے حکم دیا ہے نہ انکے رسول نے، اور اپنے تئیں گمان کرتے ہیں کہ وہ زیادہ خیر کما رہے ہیں، اور یہ بھول جاتے ہیں کہ توقیفی عبادات اتباع خداوندی اور اتباعِ رسول کا مطالبہ کرتی ہیں، اور مقرر کردہ سے زیادہ نہ کرنے کی تاکید کرتی ہیں، اور رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے : ’’جس نے ہمارے حکم میں نئی چیز کا اضافہ کیا، جو اس میں نہیں تھا، تو وہ رد کر دیا جائے گا‘‘۔(بخاری)۔
اور ایسے لوگ بھی ہیں جو خواہشِ نفس کی پیروی میں برائیوں، فواحش، زنا اور فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں، بعض لوگ پردے کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ یہ آج کے زمانے کی ضرورت ہے، یا اپنی خواہش کے حکم کو مانتے ہوئے میراث میں عورتوں اور مردوں کے درمیان کامل مساوات کا مطالبہ کرتے ہیں، یا یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اﷲ کی شریعت پر آج کے دور میں عمل درست نہیں!!
ایسی خواتین بھی ہیں جو رب سے محبت کا دعوی تو کرتی ہیں، لیکن درحقیقت خواہشِ نفس کی پیروکار ہیں،اور زمامِ کار کی قیادت اس کے ہاتھ میں تھما دیتی ہیں، اور وہ رب کے احکامات سے دور اور اسکے منع کردہ احکام سے قریب ہیں؛ وہ اپنے نفس کے حقِ بندگی کو ضائع کر دیتی ہیں، اور اپنی اولاد کی تربیت کا حق ادا نہیں کرتیں، اور شوہر کے ازواجی حقوق ادا نہیں کرتیں، نہ انکے اہلِ خانہ سے صلہ رحمی کرتی ہیں، وہ اپنے آپ کو مطلق العنان سمجھتی ہیں، اور خواہشِ نفس کی پیروی کرتی ہیں، اور وہ انہیں پورا یقین دلاتی ہے کہ اسلام میں ان پر تو بہت ظلم ہو رہا ہے، اور وہ اسکی آزادی کا نعرہ لگاتی ہے! اور یوں عورت بیخبری ہی میں ماری جاتی ہے، نہ اسکی کوئی پہچان رہتی ہے، کیونکہ وہ خود اپنی شناخت، اپنے دین، اپنے ستر، اور حیا اور لباس اور اخلاق سے الگ ہو جاتی ہے، اور یہ گمان کرتی ہے کہ ان سب کو ترک کر کے اس نے بہت خیر حاصل کر لیا ہے!
اور خواہشِ نفس کی پیروی میں انسان بہت نادانی برتتا ہے جب وہ عبادت اور سلوک، دین اور اخلاق ، اور قول اور عمل میں فرق قائم کرتا ہے، جبکہ اسلام ان میں تمیز نہیں کرتا!
ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ھوی کی پیروی میں اپنی عقل کو مدہوشی کے سپرد کر دیتے ہیں، یا نشے کا شکار ، اور یا اپنی فکر کو اعتقاداتِ باطلہ ، منہدم افکار اور خبیث وسوسوں پر ڈھٹائی سے جما دیتے ہیں!
اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں پر حکم چلاتے ہوئے خواہشِ نفس کی پیروی کرتے ہیں، وہ اپنے دینی اور دنیوی اقوال و افعال کے لئے کسی علم کے بغیر محض گمان سے حکم لاتے ہیں، اور انکی پوری عمر انہیں تاویلات کے معرکوں میں گزر جاتی ہے، اور گمان، غیبت اور چغلیاں اسے نفرت، عداوت، دشمنی اور جھگڑے کی جانب لے جاتی ہیں، اور ان سب کا مرجع بھی بلا دلیل و برھان ھوی کا اتباع ہے۔
کچھ لوگ ھوی کی پیروی میں اپنی زوجہ کے حقوق میں کمی کر دیتے ہیں، اور اولاد سے غافل ہو جاتے ہیں، اور قطع رحمی کرتے ہیں، اور اپنے ساتھیوں اور پڑوسیوں سے برا سلوک کرتے ہیں۔
بعض لوگوں کو خواہش کی پیروی اس قدر عزیز ہوتی ہے کہ وہ جہالت پر راضی رہتے ہیں، اور وہ جن حالات میں رہ رہے ہوں اس میں تبدیلی، بہتری اور تغیر کے بھی خواہش مند نہیں ہوتے!
اور کچھ لوگوں کا عمل حبِ دنیا ، اور اسکی ترجیح میں آخرت اور اسکے اعمال کو فراموش کر کے ھوی کے اتباع میں ہوتا ہے!
اور بعض لوگ خواہشِ نفس کی پیروی میں اپنے بھائیوں کی بلا حجت و دلیل تکفیر کرتے ہیں، اور ان قر فسق اور منافقت کا حکم لگاتے ہیں!
اور کچھ لوگ امن میں آئے ہوئے لوگوں کو خواہش نفس کی پیروی میں ، بغیر اسکے کہ انہوں نے کسی کے حق میں گناہ کا ارتکاب کیا ہو ، ناحق موت کا فیصلہ سناتے ہیں!
اور کچھ لوگ ھوائے نفس کے اتباع میں اہلِ حقوق کے حقوق سلب کر لیتے ہیں، اور اپنے لئے انکے مال اور انکی عزتیں اور خون مباح کر لیتے ہیں، اور رشوت، حرام اور جھٹ اور کذب بیانی کو اپنے لئے جائز کر لیتے ہیں، اگر وہ اس سب سے دنیا ک خزانے بھی بھر لیں تو آخرت کا نقصان کریں گے!
اور ان میں ایسے بھی ہیں جو ھوائے نفس کی پیروی میں اپنے ہی ہم جنس انسانوں کی تعذیب دینے کا مزا لیتے ہیں، حالانکہ انہوں نے انکا جرم بھی ثابت نہیں کیا، بلکہ انہیں اتنی اذیت دے کر نہ انکے ماتھے پر کوئی سلوٹ پڑتی ہے ، نہ انکے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں نہ انکی آنکھ سے کوئی آنسو ٹپکتا ہے!
ایسی ہی ہزاروں مثالیں ہیں، جو سب اتبائے ھوی کا شاخسانہ ہیں، اور اسکا نفصان فرد بھی سہتا ہے، اور گروہ بھی ، خاندان بھی اور معاشرہ بھی ۔۔ اور لوگوں میں سے جو بھی ایسا ہے تو اس نے اپنے آپ کو ھلاکت کے لئے پیش کردیا ، اور نبی کریم ﷺ اسی سے خبردار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’تین ھلاک کر دینے والی چیزیں ہیں: بخیل جس کی اطاعت کی جائے، اور خواہش جسکا اتباع کیا جائے، اور بندے کا خود پسند ہونا‘‘ (البانی، سلسلہ صحیحہ)۔ اور فرمایا: ’’میں تمہارے بارے میں گمراہ کن خواہشات کے بارے میں ڈرتا ہوں جو تمہارے پیٹوں اور شرم گاہوں میں ہیں، اور گمراہ کن خواہشِ نفس کے بارے میں‘‘(احمد)۔
جنت کی کنجی:
اور ھوی کے بارے میں اﷲ تعالی کایہی فرمان کافی ہے: (واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی۰ فان الجنۃ ھی الماوی ) (النازعات، ۴۰ ۔ ۴۱) (اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھااور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا، جنت اسکا ٹھکانا ہو گی۔)
یعنی اﷲ عز وجل کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا، اور اس میں اﷲ کے فیصلے کا خوف کیا، اور اپنے آپ کو ھوائے نفس سے روکا، اور اسے آقا کی فرمانبرداری کی جانب موڑ دیا، اور گناہوں اور حرام کا ارتکاب کرنے پر اسے ڈانٹا، اور فرائض کی ادائیگی کا خوف دلایا، اور گناہوں سے اجتناب کروایا۔
حسن بصری نے فرمایا: سب سے افضل جہاد ھوی کے خلاف جہاد ہے۔ اور ابنِ سماک نے فرمایا: ’’اپنی خواہشِ نفس کو ٹرخاؤ، اور اپنی عقل کو مددگار بناؤ، اور اس سے آگاہ رہو جو تمہاری آخرت برباد کر دے گی، اپنے نفس کو اس سے ایک جانب کر لو، نفس پر ڈھلی گرفت اور ، اور اسکی گراوٹ ، مرض ہے، اور گراوٹ والی اشیاء کو ترک کر دینا ہی اسکی دوا ہے، پس اگر تمہیں مرض کا خوف ہے تو دوا پر صبر کر لو‘‘۔ اور سہل بن عبد اﷲ تستری نے فرمایا: تیری ھوی ہی تیرا مرض ہے، اور اگر تم اسکی مخالفت میں ڈٹ جاؤ تو یہی اسکی دوا ہے۔ بعض حکماء نے سوال کیا: لوگوں میں سب سے زیادہ شجاع اور اپنے مجاہدے میں کامیابی کا سب سے مشتاق کون ہے؟ فرمایا: جس نے ھوائے نفس سے جہاد کرتے ہوئے اسے رب کی اطاعت پر لگا لیا، اور اس مجاہدے میں ھوائے نفس اسکے دل پر کیا کیا اثر ڈالتی رہی ، اس پر خاموش رہا۔
اور جو ھوی کا اتباع چھوڑ دیتا ہے، اسکا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور اسکے ثمرات ، اطاعت، محبت، اتباع، موافقت، مراقبے ، خوف، خشیت ، انابت، سلوک، اخلاق، قول اور عمل میں بڑھتے اور نشونما پاتے ہیں، پس اﷲ سے استعانت طلب کرو اور ھوی کے سامنے گھٹنے نہ ٹیک دو۔ وھب کا قول ہے: جب تجھے دو چیزوں میں شک ہو، اور تجھے معلوم نہ ہو کہ ان میں بہتر کونسی ہے، تو جسے اپنی ھوی سے دور پائے اسے اختیار کر لے، اور اس معاملے میں اﷲ کا یہ فرمان ہی کافی ہے: (واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی۰ فان الجنۃ ھی المأوی) (النازعات، ۴۰ ۔ ۴۱) (اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھااور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا، جنت اسکا ٹھکانا ہو گی۔)
اور اگر کمزور لمحوں میں تیرا نفس تجھے اتباعِ ھوی کا حکم دے، جو رب کی رضا کے خلاف ہے، تو جان لے کہ اس لمحے ھوی کو ترک کرنا ہی جنت کی کنجی ہے، اگر تو نے ھوی کی پیروی کی تو وہ ہمیشگی کے گھر میں تیرا داخلہ بند کرا دے گی، ’’خبردار اﷲ کی تجارت بڑی قیمتی ہے، سن لو اﷲ کی تجارت جنت ہے‘‘۔
1 تبصرہ
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
بہت عمدہ تحریر۔ میں خواہش نفس کے الہ ہونے کے بارے میں اک عرصے سے ایسی ہی کسی تحریر کا متلاشی تھا۔ جزاک اللہ خیر